پاکستان سے ڈالر سمیت غیر ملکی کرنسی کی بیرون ملک اسمگلنگ کے واقعات میں اس سال کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً چار گنا زیادہ کیسز کا سراغ تو کسٹمز اہلکاروں نے مختلف ایئرپورٹس اور بارڈرز پر لگایا ہے، جبکہ اسمگلنگ کی کامیاب وارداتوں کا تخمینہ اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے
ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے مختلف ایئرپورٹس اور زمینی سرحدوں پر اس سال کے گیارہ ماہ میں ملک سے غیر ملکی زرمبادلہ اسمگل کرنے کے چورانوے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں تقریبا ساڑھے چار ملین ڈالر کے برابر غیر ملکی کرنسی غیر قانونی طور پر لے جائی جا رہی تھی۔ گزشتہ پانچ سالوں میں پکڑی جانے والی یہ سب سے زیادہ رقم ہے۔
گزشتہ سال ملک بھر میں کسٹمز اہلکاروں نے ایسے چھبیس کیسز پکڑے تھے، جس میں صرف دو لاکھ ستر ہزار ڈالر کی سمگلنگ کی کوشش کی گئی تھی
وفاقی حکومت کی جانب سے بھی پیر کو ڈالر کی اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ انہوں نے متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ اگر اسمگلنگ روکنے کے لیے بارڈر سِیل کرنا پڑے تو وہ بھی کریں
اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ ’یہاں سے گندم، کھاد اور ڈالرز ایک پڑوسی ملک میں سمگل کیے جا رہے ہیں۔ اور پھرو ہاں سے وسطی ایشیا کے ممالک میں جا رہے ہیں۔‘
اس حوالے سے پاکستان کسٹمز، ایف آئی اے اور رینجرز کے علاوہ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی سمگلنگ روکنے کے لیے متحرک ہو گئے ہیں
منگل کو کوئٹہ کسٹمز نے بھی چمن میں پاک افغان بارڈر پر پاک آرمی کے تعاون سے ایک لاکھ سے زائد ڈالرز سمیت کروڑوں روپے کی پاکستانی کرنسی برآمد کی تھی
اسمگلنگ کے واقعات میں اضافے کی کیا وجوہات ہیں؟
اس بارے میں پشاور میں کلکٹر انفورسمنٹ معین الدین وانی کا کہنا ہے کہ اس دفعہ سمگلرز نت نئے طریقوں سے ڈالرز ملک سے باہر سمگل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
وہ کہتے ہیں ”ہم نے کئی ایسے کیسز پکڑے ہیں، جن میں ذہنی طور پر معذور افراد کو ڈالرز کی سمگلنگ کے لیے استعمال کیا گیا تاکہ کسٹم حکام کو ان پر شک نہ پڑے۔ اس کے علاوہ خواتین اور بزرگ افراد کے ذریعے بھی سمگلنگ کی کوشش کی جا رہی تھی۔ سمگلرز نے یہ تکنیک بھی اپنائی ہے کہ زیادہ لوگوں کے ذریعے تھوڑی تھوڑی رقم سمگل کر رہے ہیں تاکہ پکڑے جانے کا چانس کم ہو سکے“
انہوں نے بتایا کہ اس سال کیسز زیادہ ہونے کی ایک وجہ تو سرویلنس نظام کا متحرک ہونا ہے مگر اس کی کئی دیگر وجوہات بھی ہیں ’اسمگلنگ کی ایک وجہ پاکستان اور افغانستان میں ڈالر کے ریٹ کا فرق ہے جس کے باعث یہاں سے سستا ڈالر خرید کر افغانستان لے جایا جاتا ہے اور مہنگا بیچا جاتا ہے۔‘
اس کے علاوہ انڈر انوائسنگ تجارت کے لحاظ سے ڈالر کی اسمگلنگ ایک اہم ترین وجہ ہے۔ ملک بھر میں اور افغانستان سے درآمد کے لیے رسیدیں پہلے سے طے شدہ قیمت کے مطابق بنائی جاتی ہیں۔ تاہم یہ قیمت کم طے کی جاتی ہے اور بقیہ رقم کی ادائیگی کیش اسمگلنگ کے ذریعے ہوتی ہے
اس کے علاوہ ایک تیسری وجہ افغانستان میں ڈالر کی مانگ میں اضافہ بھی ہے۔ چونکہ بین الاقوامی امداد کی بندش اور امریکہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی جانب سے افغانستان کے اثاثے منجمد کیے گئے ہیں اس سے وہاں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہے اور ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی وجہ سے بھی اسمگلنگ کا رجحان بڑھا ہے۔ چونکہ پاکستان اور دیگر ممالک بین الاقوامی سطح پر اس بات کے پابند ہیں کہ وہ لینڈ لاکڈ ممالک کی درآمدات کو راستہ دیں۔ افغانستان اپنی درآمدات پاکستان اور ایران کے راستے ٹرانزٹ ٹریڈ میں لاتا ہے۔ تاہم اس کے بعد پاکستانی اسمگلرز وہی سامان کو پہلے ٹرانزٹ کے ذریعے پہنچنے دیتے ہیں اور پھر اسے پاکستان میں اسمگل کیا جاتا ہے
یہ سب ایک غیر قانونی اور بے قاعدہ تجارت ہے جہاں غیر قانونی طریقوں سے اور خاص طور پر بڑی تعداد میں نقدی کی سمگلنگ کے ذریعے رقم کی منتقلی ہوتی ہے
اسمگلنگ کیسے روکی جا سکتی ہے؟
ماہرین کے مطابق اگر کرنسی کی سمگلنگ روکنا ہے تو اس کے لیے طورخم بارڈر پر موجودہ کارگو سکینرز کو ہائی ٹیک بیگیج سکینرز سے تبدیل کرنا ہوگا
اسی طرح اسٹیٹ بینک افغانستان سے لا کر طورخم میں دکھائی گئی برآمدی رقم کو جلد جمع کرنے کے لیے ہدایات جاری کرے۔
سرحدی سٹیشنوں پر کسٹم کے عملے کے لیے رہائش کا اہتمام ہونا چاہیے
اسی طرح کسٹمز سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مربوط مشترکہ آپریشن شروع کیے جائیں۔