افغان طالبان کے ایک سینئر رہنما نے اپنے والد کے قتل کے جرم میں سزائے موت پانے والے ایک شخص کو معاف کر دیا ہے۔ طالبان نے ابھی حال ہی میں سرعام پھانسیاں اور سخت سزائیں دینے کا اعلان کیا تھا۔
ایک ایسے وقت میں، جب گزشتہ ماہ افغان طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ملک کے ججوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اسلامی قانون کے تمام پہلوؤں کو مکمل طور پر نافذ کریں، جن میں سرعام پھانسی دینا، سنگسار کرنا، کوڑے مارنا اور چوروں کے ہاتھ کاٹنا بھی شامل ہیں۔ تاہم دوسری جانب شمالی صوبے جوزجان کے نائب گورنر گل محمد نے اپنے والد کے قاتل کو معاف کرنے کا اعلان کیا ہے
گل محمد کے والد کو انیس سو بانوے میں قتل کیا گیا تھا
اس معافی کا اعلان افغانستان کی سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کیا گیا
ایک افغان شرعی عدالت نے ملزم عبدالقیوم کو قتل کا مجرم قرار دیا تھا اور اسے اسلام کے نظام انصاف ’آنکھ کے بدلے آنکھ‘ کے تحت پھانسی دینے کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن نائب گورنر نے معافی دیتے ہوئے اس کیس کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے
عدالت میں دی گئی ایک درخواست میں گل محمد نے کہا ”قاتل کے اہل خانہ نے مجھ سے مجرم کو معاف کرنے کی درخواست کی تھی۔ آج میں قصاص (سزا) کو چھوڑ رہا ہوں اور اسے معاف کرتا ہوں۔‘‘
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب ابھی چند روز پہلے ہی قتل کے ایک مجرم کو سرِعام پھانسی دی گئی تھی۔ گزشتہ برس اگست میں اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ افغانستان میں پہلی سرعام پھانسی تھی۔ یہ پھانسی 7 دسمبر کو مغربی صوبے فرح میں دی گئی تھی
اہم بات یہ ہے کہ اسے مقتول کے والد نے خود انجام دیا تھا۔ اس کیس میں مجرم پر ایک شخص کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی موٹر سائیکل اور موبائل فون چرانے کا الزام ثابت ہو گیا تھا
طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ ابھی تک قندھار میں کسی نامعلوم مقام پر رہائش پذیر ہیں اور وہیں سے اپنے احکامات جاری کرتے ہیں
یاد رہے کہ جب طالبان نے گزشتہ سال دوبارہ اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو انہوں نے ایک نرم حکومت کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اب جرائم اور بدامنی کے سدباب کے لیے سخت سزاؤں کو لاگو کیا جا رہا ہے عائد کرتے جا رہے۔ جبکہ مختلف حکومتوں کی جانب سے اس بارے میں تشویش کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔