کیا ایسا کوئی طریقہ ہے کہ پاکستان میں امپورٹد گاڑیوں کے خریدار خود گاڑی درآمد کر سکیں؟

ویب ڈیسک

پاکستان میں امپورٹڈ گاڑیوں کی ایک بڑی مارکیٹ ہے، جو متعدد ٹیکسوں اور نئی عائد ہونے والی ڈیوٹیوں کے باوجود کم نہیں ہو رہی کیونکہ یہ گاڑیاں استعمال کرنے والوں کا ماننا ہے کہ معیار اور آرام میں بیرون ملک سے منگوائی گاڑیاں مقامی طور پر تیار کی گئی گاڑیوں سے کئی درجے بہتر ہیں

مگر ان گاڑیوں کی پاکستان میں درآمد پر جہاں ایک طرف بہت زیادہ ٹیکس عائد ہے، تو دوسری طرف ان کو درآمد کرنے والے کار ڈیلرز بے پناہ منافع لیتے ہیں، جس کی وجہ سے عام آدمی کو امپورٹد گاڑی بہت مہنگی پڑتی ہے

ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ پاکستان میں امپورٹد گاڑیوں کے خریدار خود گاڑی درآمد کر سکیں؟

یوں تو حکومت پاکستان کی جانب سے باہر سے گاڑیاں منگوانے کے لیے متعدد ایسی شرائط عائد کی گئی ہیں، جن کی وجہ سے صرف مخصوص افراد، جو درآمد اور برآمد کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں یا سرکاری محکموں اور بیرون ملک رابطہ کاری میں ماہر ہیں، وہی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں

لیکن ایک عام شہری بھی اگر تھوڑی توجہ دے تو وہ دنیا کے کسی بھی ملک، جہاں ان کے ہم وطن پاکستانی مقیم ہیں، وہاں سے گاڑی منگوا سکتے ہیں

واضح رہے کہ حکومت کی پالیسی کے مطابق دنیا کے کسی بھی کونے میں مقیم کوئی بھی پاکستانی وہاں سے دو سال میں ایک بار پاکستان گاڑی بھجوا سکتا ہے، تاہم یہ درآمد ذاتی استعمال کے لیے ہو سکتی ہے تجارتی کے لیے نہیں

اوور سیز پاکستانیز گاڑی پاکستان کیسے بھجوا سکتے ہیں؟

اس برے میں کار ڈیلرز ایسوسی ایشن کراچی کے سربراہ محمد کامران خان کا کہنا ہے کہ اوورسیز پاکستانی جو ملک سے باہر رہ رہے ہیں، ورکنگ ویزا پر کام کرنے والے یا پھر دیگر ممالک میں مستقل رہنے والے ہر دو سال بعد ایک گاڑی تحفے کے طور پر اپنے اہل خانہ کو بھیج سکتے ہیں

انہوں نے بتایا ’اگر وہ پاکستان واپس آرہے ہیں تو بیگیج سکیم کے تحت لاسکتے ہیں یا پھر ٹرانسفر آف ریزیڈینس کے تحت لا سکتے ہیں۔ لہٰذا کسی شہری کا بھی کوئی عزیز بیرون ملک پاکستانی گاڑی خرید کر اپنے پاسپورٹ پر اس کو پاکستان بھیج سکتا ہے۔‘

کاروباری افراد جو غیر ملکی گاڑیاں بیچنے کے لیے پاکستان منگواتے ہیں، وہ بھی اوورسیز پاکستانیوں کے ذریعے ہی گاڑیاں خریدتے ہیں اور انہی کے پاسپورٹ پر درآمد کرتے ہیں

گاڑی کی خریداری کا عمل کیسے شروع ہوتا ہے؟

کامران خان کے مطابق جاپان میں گاڑیوں کی نیلامی کے لیے آن لائن ویب سائٹس موجود ہیں جہاں گاڑیوں کی نیلامی کی تفصیل فراہم کی جاتی ہے۔ گاڑی کی خریداری کے لیے نیلامی میں شامل ہونے کے لیے سب سے پہلے آئی ڈی بنا کر رجسٹریشن ہوتی ہے اور لاگ ان کرنا ہوتا ہے

آن لائن نیلامی کی ویب سائٹس پر گاڑیوں کی مختلف اقسام موجود ہوتی ہے۔ کیٹیگری کو دیکھتے ہوئے گاڑی کو پسند کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد گاڑی کی تفصیلات دیکھی جاتی ہیں۔ ویب سائٹ پر گاڑی کی تصاویر موجود ہوتی ہیں اور گاڑی کے بارے میں مکمل تفصیل بتائی جاتی ہے۔
گاڑی جس مقام سے خراب ہوگی، وہ تصویر کے ساتھ بتائی جائے گی۔ گاڑی کی کنڈیشن کے حساب سے اس کا گریڈ دیا جاتا ہے اور گریڈ کے حساب سے گاڑی کی قیمت ہوتی ہے

کن ممالک سے گاڑیوں کی خریداری ہوتی ہے اور کتنے روز میں یہ گاڑیاں پاکستان پہنچ جاتی ہیں؟

گاڑیوں کی کلیئرنگ کا کام کرنے والے ایجنٹ عثمان غنی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’عام طور پر گاڑی کی خریداری کے حوالے سے دبئی اور جاپان کا نام ہی سُننے میں آتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کئی ممالک سے گاڑیاں پاکستان لائی جاتی ہیں۔‘

حالیہ دنوں میں امریکہ، کینڈا، برطانیہ سمیت کئی ممالک سے پاکستان میں گاڑیاں امپورٹ کی گئی ہیں۔ البتہ جاپان اور دبئی سے گاڑیوں کی خریداری سستی اور آسان سمجھی جاتی ہے اس لیے زیادہ گاڑیاں ان ممالک سے آتی ہیں

عثمان غنی کا کہنا ہے ’ایک اندازے کے مطابق جاپان سے گاڑی لوڈ ہونے اور پاکستان میں پورٹ پر پہنچنے میں ڈیڑھ سے دو ماہ لگ جاتے ہیں اس میں اگر سمندر میں موسم کی خرابی ہو تو یہ وقت زیادہ بھی لگ سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی دور دراز ملک سے گاڑی لوڈ کی جاتی ہے تو اس میں مزید وقت لگ جاتا ہے‘

نیلامی میں پیش ہونے والی گاڑیاں

کلیئرنگ ایجنٹ عثمان غنی بتاتے ہیں کہ نیلامی میں سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں ہوتی ہیں، جن میں 660 سی سی سے لے کر 4000 سی سی تک کی گاڑیاں ہوتی ہے

وہ کہتے ہیں ’اس کے علاوہ ٹرک اور بس سمیت دیگر ہیوی وہیکل بھی اسی طرح نیلامی کے لیے موجود ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں صرف تین سال پرانی گاڑیاں ہی بھجوائی جا سکتی ہیں۔‘

گاڑی کی قیمت کا تعین

کامران خان نے بتایا کہ گاڑی کی قیمت ویب سائٹ پر موجود ہوتی ہے۔ آن لائن نیلامی میں سب سے زیادہ بولی لگانے والے کی رقم ویب سائٹ پر موجود ہوتی ہے۔
خریدار اپنی ضرورت اور گنجائش کے حساب سے گاڑی کی بولی لگاتا ہے۔ گاڑی کی خریداری میں شپنگ شامل نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے گاڑی کی خریداری کے وقت اس بات کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ شپنگ اخراجات کے بعد گاڑی کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوگا؟

پاکستان میں گاڑی آنے کے بعد اس کی ڈیوٹی لگتی ہے۔ ایف بی آر نے گاڑی کے ہارس پاور کے حساب سے اس کی ڈیوٹی طے کر رکھی ہے۔ گاڑی کم یا زیادہ نقصان زدہ ہو اس کی ڈیوٹی اور ٹیکسز ویسے ہی لگیں گے۔ ٹیکس کی یہ شرح ویب سائٹس سے بھی چیک کی جا سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close