ٹائٹن آبدوز: روانگی سے ملبہ ملنے تک، کب کیا ہوا؟

ویب ڈیسک

1912ء میں ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر سمندر برد ہو جانے والے شہرہ آفاق بحری جہاز ٹائٹینک کا ملبہ دیکھنے کے لیے جانے والے پانچ افراد اپنی جانوں سے گئے، جن میں ایک پاکستانی کاروباری خاندان کا باپ بیٹا بھی شامل تھے

16 جون، جمعے کے روز کینیڈین آئس بریکر بحری جہاز پولر پرنس نیو فاؤنڈ لینڈ سے روانہ ہوا۔ یہ جہاز تجرباتی ٹائٹن آبدوز کو ٹو کر کے اور سمندر کی تہہ پر قریب چار کلومیٹر کی گہرائی پر موجود ٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے کے لیے جانے والی پانچ رکنی ٹیم کو لے کر اس مقررہ مقام پر پہنچا، جہاں سے اس آبدوز نے غوطہ لگانا تھا۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے گزشتہ چار ہفتوں میں خراب موسم کی وجہ سے دیگر ٹیموں پر مشتمل تین مشن منسوخ کر دیے گئے تھے۔ لیکن اس دن اس مہم جوئی کے لیے اس سفر کا انتظام کرنے والی کمپنی اوشن گیٹ ایکسپیڈیشنز گروپ پرامید تھی

معروف ایڈونچرر ہمیش ہارڈنگ، جو اس آبدوز میں موجود تھے، نے ہفتہ کے روز انسٹاگرام پر لکھا کہ موسم کی صورتحال کچھ بہتر ہوئی ہے اور اگلے روز روانہ ہونے کی کوشش کی جائے گی ’’اگر موسم کی یہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو مزید اپ ڈیٹس کا انتظار کیجیے!‘‘

اور پھر وہ لمحہ آن پہنچا، آبدوز کی روانگی کا لمحہ۔۔ سفر پر روانہ ہونے والی ٹیم کو ٹائٹن کے لانچ اور ریکوری پلیٹ فارم پر ربڑ کی کشتی کے ذریعے لے جایا گیا۔ اندر آبدوز میں داخل ہونے کے بعد، اس کے فرش میں یا تو آلتی پالتی مار کر بیٹھا جا سکتا تھا یا پھر ٹانگیں سیدھی کی جا سکتی تھیں

امریکی کوسٹ گارڈ کے مطابق ٹائٹن نے اتوار 18 جون کی صبح سمندر میں غوطہ لگایا۔ سمندر کی سطح سے تہہ تک اترنے میں اندازاً دو گھنٹے لگتے ہیں، لیکن صبح 10 بج کر 45 منٹ پر ٹائٹن آبدوز کا سطح سمندر پر موجود بحری جہاز پولر پرنس سے رابطہ منقطع ہو گیا

ٹائٹن کے دوبارہ سطح سمندر پر نمودار ہونے کے متوقع وقت کے قریب تین گھنٹے بعد یعنی شام 5:40 پر پولر پرنس نے امریکی کوسٹ گارڈ کو آبدوز کی گمشدگی کے بارے میں مطلع کیا۔ اس وقت ٹائٹن سے رابطہ منقطع ہوئے تقریباً آٹھ گھنٹے گزر چکے تھے۔ اس کے بعد بین الاقوامی سطح پر تلاش اور بچاؤ کی کوششیں شروع کر دی گئیں

جہاز کے غائب ہونے کی اطلاع ملنے کے بعد امریکی بحریہ نے اپنے ایکوئسٹک ڈیٹا یعنی صوتی معلومات کا تجزیہ کیا اور ایک ایسی غیر معمولی تبدیلی نوٹ کی جو ٹائٹن آبدوز کی ممکنہ موجودگی کے علاقے میں ہونے والے کسی دھماکے سے مطابقت رکھتی تھی۔ یہ وہی وقت تھا، جب مواصلاتی رابطے منقطع ہو گئے تھے

بحریہ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اگرچہ اس وقت اس معلومات کو عام نہیں کیا گیا تھا، لیکن بحریہ نے اتوار کو یہ معلومات کوسٹ گارڈ کو فراہم کر دی تھیں، جس نے اپنی تلاش جاری رکھی

پیر کی سہ پہر تک شمالی کیرولائنا سے ایک سی 130 ہرکولیس طیارہ اور زیر آب سونار آلات کا حامل ایک کینیڈین پی 8 طیارہ تلاش میں شامل ہو گیا۔ منگل کے روز موسم بہتر ہوا اور حد نگاہ میں اضافہ ہوا اور اس صبح تک چھبیس ہزار مربع کلومیٹر کی تلاش کی جا چکی تھی

اس دن امریکی ایئر نیشنل گارڈ کا ایک گروپ وہاں پہنچا، اس کے علاوہ بہاما کا ایک تحقیقی بحری جہاز، ڈیپ انرجی بھی۔۔ جس نے کیمرے سے لیس، ریموٹ سے چلنے والے روبوٹ تلاش کے اس کام کے لیے استعمال کیے

دریں اثنا، سونار آلات نے منگل کی رات اور بدھ کی صبح بینگ کرنے یا زور سے کھٹکٹانے جیسی آوازوں کا پتہ لگایا، جس سے یہ امید پیدا ہوئی کہ ٹائٹن پر سوار افراد تب بھی زندہ تھے

مگر وقت تیزی سے ختم ہو رہا تھا کیونکہ آبدوز میں صرف اتنی آکسیجن موجود تھی، جو اس سے اگلی صبح تک چل سکتی تھی

اب امیدیں دم توڑ چکی تھیں۔۔ اور پھر جمعرات 22 جون کی صبح ایک روبوٹک گاڑی نے سمندر کی تہہ پر ٹائٹن کی دم کا کونہ دریافت کیا، جس کے بعد ٹائٹن کی باڈی کے اگلے اور پچھلے سرے بھی مل گئے

جمعرات کے روز ہی کمپنی نے ایک بیان جاری کیا، جس میں کمپنی کے سی ای او اور پائلٹ اسٹاکٹن رش سمیت ہلاک ہونے والے دیگر افراد کے لیے افسوس کا اظہار کیا گیا۔ اس آبدوز میں رش اور ہارڈنگ کے علاوہ ٹائٹینک کے ماہر پال ہنری نارجیولیٹ اور ایک معروف پاکستانی خاندان کے دو افراد شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان داؤد بھی سوار تھے

اس آبدوز کی تباہی کے بارے میں ابھی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، مگر ماہرین کا اندازہ ہے کہ ٹائٹن آبدوز سمندر کی تہہ میں موجود بہت زیادہ دباؤ کو برداشت نہ کر پائی اور پھٹ گئی۔ اسی سبب امکان یہی ہے کہ اس آبدوز کے اندر موجود افراد کی فوری طور پر ہی موت واقع ہو گئی

افسوسناک بات یہ ہے کہ اس آبدوز حادثے میں مارے جانے والے پانچوں افراد کی باقیات ملنے کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close