مامتا (افسانہ)

ساحل احمد لون

”کھٹ کھٹ کھٹ، کھٹ کھٹ کھٹ۔۔۔“ ٹائپ رائٹر پر انگلیاں چلاتے وقت جو ں ہی یہ آواز عمر رسیدہ قدرت اللہ خان کی سماعت سے ٹکراتی تو اسے ایک عجیب سرور محسوس ہوتا تھا۔ کئی لوگوں کے لیے یہ آواز شور ہے، لیکن اُس کے لیے یہ اطمنانِ قلب کا باعث تھی اور یہ اُس کے کانوں میں رس گھولتی تھی۔ وہ اس آواز سے نہ جانے کس دنیا میں کھو جاتا تھا۔ اس کے گھر میں کمپیوٹر بھی موجود تھا لیکن وہ خال خال ہی اسے کبھی ہاتھ لگاتا تھا۔

وہ ایک مشہور اور ہر دلعزیز قلمکار تھا۔ اس کے قلم میں نہ جانے کون سا جادو تھا کہ اس کی ساری کتابیں ہاتھوں ہاتھ بکتی تھی۔ مسودے کو ٹائپ کرنے کے لیے کمپیوٹر کے بجائے وہ ایک پرانے ٹائپ رائٹر کا ہی استعمال کرتا تھا۔ٹائپ رائٹر کی آواز اُسے زیادہ سے زیادہ لکھنے پر مائل کرتی تھی۔ اس پر انگلیاں چلاتے وقت وہ پرانی دنیا میں پہنچ جاتا تھا، جہاں کوئی ہنگامہ تھا نہ شور، نئی ٹیکنالوجی تھی اور نا ہی لوگ سکونِ قلب سے محروم تھے۔ اُسے یوں محسوس ہوتا کہ بڑے بڑے ادیب مثلاً چارلز ڈکنز، ٹالسٹائی، جارج اورویل، ڈی ایچ لارینس، ایچ جی ویلز وغیرہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور وہ بھی اسی طرح اپنے ٹائپ رائٹر پر انگلیاں چلا کر اپنی شاہکار تخالیق کو اُس کے سپرد کر رہے ہیں۔

ٹائپ رائٹر اُسے اس لئے بھی پسند تھا کہ ایک بار اس پر کچھ لکھ دیا پھر اسے مٹا دینا بہت مشکل ہے۔ وہ مانتا تھا کہ اسی طرح ایک انسان کو بھی غلطیوں اور گناہوں سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ ایک بار کوئی خطا سرزد ہوئی پھر ٹائپ رائٹر کی تحریر کی طرح اسے مٹانا بہت مشکل بن جاتا ہے۔

قدرت اللہ خان کا آبائی وطن کشمیر تھا، لیکن نامساعد حالات کے باعث اس نے وہاں سے ہجرت کر کے مدھیا پردیش کے ضلع راج گڑھ کے ایک گاؤں میں چھوٹی سی کوٹھی خرید لی اور اپنی شریک حیات اور دو جوان بیٹوں کے ہمراہ یہی آباد ہو گئے۔ اسے اپنی جان کی پروا نہ تھی، جیسے تیسے اس کے دن گزر چکے تھے۔ لیکن اپنے جوان بیٹوں کی فکر اُسے کھائے جارہی تھی۔ وہ اُن کے تابناک مستقبل کا متمنی تھا اور اس سے بھی زیادہ وہ ان کی سلامتی چاہتا تھا کیونکہ ایک بوڑھے باپ کے لیے کوئی بوجھ اس قدر بھاری نہیں ہوتا، جتنا ایک جوان بیٹے کا جنازہ۔ اس لیے اس نے کشمیر سے راج گڑھ ہجرت کر لی اور کشمیر میں اپنی ساری زمین جائیداد بیچ دی۔ دونوں بیٹے ہلال اور فاروق ابھی برسر روزگار نہ تھے لیکن اسے کبھی مالی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ اسے اپنی کتابوں سے اچھی خاصی آمدنی ہوتی تھی۔

یہاں کے لوگوں سے ابھی جان پہچان نہ تھی اور ایسے میں بازار سے خود سودا سلف لانا اُسے مناسب نہ لگا، اس لیے اُس نے اسی گاؤں سے ایک نوکر رکھ لیا، جس کا نام عبد الصمد تھا۔ گھر کے کام کاج کے علاوہ وہی بازار خریداری کرنے جاتا تھا۔

نئے مسکن میں قدرت اللہ کا اکثر وقت کتابوں کے مطالعہ اور نئے نئے شاہکار تخلیق کرنے میں صرف ہوتا تھا۔ دن کا بیشتر حصہ گھر میں ہی گزر جاتا تھا لیکن شام کو نمازِ مغرب ادا کرنے کے بعد وہ مرکزی بازار تک چہل قدمی کرنے جاتا۔ یہ اُس کے روز کا معمول تھا۔ بازار اُس کے گھر سے زیادہ دور نہ تھا۔ یہی کوئی ایک آدھ میل کا سفر۔۔راستے میں کہیں کہیں پر اسٹریٹ لائٹس بھی نصب تھیں، لیکن زیادہ تر یہ راستہ سنسان ہی تھا اور دائیں بائیں جھاڑیوں سے گھرا۔۔

چہل قدمی کے دوران اُسے زیادہ لوگ نہ ملتے تھے۔ ہاں،ایک پندرہ سولہ سالہ لڑکا روز اُسے راستے میں ملتا تھا۔ اُس کے خدوخال دیکھ کر قدرت اللہ کو پہلے ہی اندازہ ہوا تھا کہ یہ لڑکا کسی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ بازار کی طرف جارہے ہوتے تو وہ لڑکا مخالف سمت سے گاؤں کی طرف آتا۔ اجنبی شہر تھا، اس لیے اُس نے اُس لڑکے سے کبھی بات چیت نہیں کی۔ ہاں چند ماہ کے بعد ناآشنائی کے باوجود بھی شناسائی سی ہوگئی تھی اور اب جب راستے میں اُن کا ملن ہوتا تو وہ آپس میں مسکرا دیتے۔ پھر ایک دن قدرت اللہ نے اُس سے اُس کا نام بھی پوچھا تو اُس نے جواباً کہا، ”وِکی۔۔۔وکی نام ہے میرا صاحب“

اُسے یہ بھی پتہ چلا کہ وِکی اپنے گھر کا اکلوتا کمانے والا ہے۔ دن بھر اسکول جاتا ہے اور پھر اسکول سے لوٹنے کے بعد وہ ایک ورک شاپ میں کام کرتا ہے اور وہاں سے واپس لوٹتے ہوئے دیر ہوتی ہے

”کہاں رہتے ہو وِکی؟“

”آپ کے ہی گاؤں میں صاحب، پر آپ نئے آئے ہیں اس لیے مجھے نہیں جانتے۔“

اُس کے بعد پھر اُنہوں نے کبھی بات چیت نہیں کی۔۔۔بس ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیتے اور اپنی اپنی منزلوں کی جانب چلے جاتے۔

ایک دن وہ حسبِ معمول شام کے وقت محوِ سفر تھا کہ اُسے دور سے کسی کی پرچھائی نظر آئی۔ اُسے معلوم تھا کہ یہ وِکی ہی ہے۔پرچھائی قریب آتی گئی اور آہستہ آہستہ اُس نے واقعی وِکی کی شکل دھار لی۔ چاروں طرف اندھیرے کا راج تھا۔ ابھی اُن کے بیچ سو میٹر سے زائد کا فاصلہ نہ تھا کہ اچانک ایک موٹر سائیکل برق رفتاری سے وکی کے سامنے نمودار ہوئی۔ اُس پر دو لوگ سوار تھے اور دونوں کے چہرے نقاب سے ڈھکے تھے۔وِکی کے پاس پہنچ کر موٹر سائیکل رُک گئی اور پچھلی سیٹ پر براجمان شخص نیچے اُترا اور جیب سے چاقو نکال کر وِکی کو دھر لیا۔
قدرت اللہ نے جوں ہی یہ منظر دیکھا تو اُس کے اوسان خطا ہوگئے۔ وہ جلدی سڑک کے دائیں جانب اُگی جھاڑیوں میں چھپ گیا۔ اُس کے انگ انگ پر تھرتھراہٹ طاری ہو گئی۔ ایک جانب دل مچل رہا تھا کہ کسی طرح وِکی کو بچالوں۔ نہ جانے اس معصوم بچے کے ساتھ کیا انہونی ہونے والی تھی۔ دوسری جانب اپنی شریک حیات اور دو بیٹوں کی تصاویر اُس کی آنکھوں کے سامنے تیر رہی تھی۔

اُس کے ذہن میں خیالات کا طلاطم تھا، ”معصوم بچہ ہے، مجھے غیرت مندی کا ثبوت دے کر اسے بچا لینا چاہیے۔۔۔نہیں نہیں،اگر اُنہوں نے مجھے ہی مار ڈالا تو گھر والوں کا کیا ہوگا۔۔ نہیں نہیں۔۔ میں نہیں جاؤں گا۔۔۔ اور بوڑھی ہڈیوں کے سہارے میں وہاں جاکر کروں بھی تو کیا؟“

”جان کی عافیت چاہتے ہو تو سارا مال نکال کر ہمارے حوالے کردو“ چاقو والے شخص نے وِکی سے کہا

”میر۔۔۔ میرے۔۔ پاس۔۔۔ کو۔۔۔کوئی مال نہیں ہے۔۔ میں بہت غریب ہوں صاحب۔۔ چند سو روپے جیب میں ہیں۔۔۔ اور اُن سے گھر کا سامان خریدنا ہیں۔“ وِکی اتنا ہی کہہ سکا۔ خوف و دہشت کی وجہ سے اُس پر غشی طاری ہوگئی اور وہ زمین پر گر پڑا

چاقو والے ڈاکو نے جھک کر اُس کی نبض دیکھی اور دوسرے ساتھی کی طرف دیکھ کر کہنے لگا، ”بے ہوش ہوا ہے حرامی۔“

”جیب میں جو کچھ کام کا ہے، وہ باہر نکالو اور جلدی سے سوار ہوجاؤ“ دوسرے ڈاکو نے جواباً کہا

اُس نے وِکی کی جیب میں ہاتھ ڈالا ہی تھا کہ یکایک اُسے پیچھے سے کسی نے دبوچ لیا اور زمین پر پٹخ دیا۔ وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔اُس کے ہاتھ سے چاقو بھی گر گیا۔ اُس شخص نے چاقو اُٹھایا اور منہ کے بل پڑے ڈاکو کے بازوؤں پر کئی ضربیں مار دیں۔

اُس کے منہ سے کئی پر درد چیخیں نکلیں ”کووووووون ہو تم؟“

”میں۔۔میں وِکی کی ماں ہوں۔“ اُس نے دہاڑ کر کہا

جھاڑیوں میں چھپا قدرت اللہ عورت کی آواز سُن کر حواس باختہ ہوگیا۔ اُسے اپنے کانوں پر جیسے یقین ہی نہیں آیا۔
سب کچھ اس قدر تیزی سے ہوا تھا کہ موٹر سائیکل پر سوار دوسرے شخص کو اپنے ساتھی کو بچانے تک کی مہلت نہ ملی۔ وہ عورت اب چاقو لے کر اُس پر حملہ کرنے گئی۔ اُس نے بجلی کی رفتار سے موٹر سائیکل بھگادی اور بازار کی جانب جانے والے راستے سے بھاگ کیا۔

وہ عورت اُس کا پیچھا کرنے لگی اور گرجدار آواز سے چلانے لگی، ”میرے وِکی پر حملہ کرے گا۔۔۔ میرے کلیجے کے ٹکڑے کو لوٹے گا۔۔ آج اگر تمہارا خون نہ پیا تو میرا نام سرلا دیوی نہیں۔“

کچھ دیر بعد دونوں نظروں سے اوجھل ہوئے تو قدرت اللہ جھاڑیوں سے باہر آیا اور دُم دبا کر گھر کی طرف بھاگ نکلا۔۔۔۔

”صاحب جی! کیا ہوا، کیا ہوا۔۔آپ اتنا ہانپ کیوں رہے ہیں“ وہ اپنے گھر کی بالکونی میں پہنچ چکا تھا جب عبد الصمد نے اُس کی حالتِ زار دیکھ کر یہ سوال کیا

اتنے میں گھر کے سارے افراد اُس کے ارد گرد جمع ہوئے اور یہی سوال دہرایا مگر وہ جواب دینے کی حالت میں نہ تھا۔ خوف و دہشت ابھی بھی اُس پر طاری تھا۔ وہ یہ کہہ کر سیدھے اپنے کمرے میں چلا گیا کہ ”مجھے کچھ دیر کے لیے اکیلا چھوڑ دو“ اور دروازہ بند کر دیا۔ کسی کو اُس کے کمرے میں گھسنے کی ہمت نہ ہوئی

ایک آدھ گھنٹے کے بعد وہ کچھ سنبھلا تو وہ اپنے سب سے قریبی ساتھی کے پاس چلا گیا۔۔۔ ٹائپ رائٹر۔

’کھٹ کھٹ کھٹ، کھٹ کھٹ کھٹ۔۔۔‘ ٹائپ رائٹر پر تیزی سے انگلیاں چلا کر اُس نے سارا معاملہ اُس میں درج کر لیا۔ وہ اسے بہت عزیز تھا، شائد اسی لیے اُس نے اپنے اہل خانہ سے پہلے سارا معاملہ ٹائپ رائٹر کو سنانا ہی بہتر سمجھا۔ اپنے ہمراز پر سب کچھ افشاء کرنے کے بعد وہ کچھ ہلکا ہوا اور اتنے میں اُس کا نوکر عبد الصمد پانی کا ایک گلاس لے کر سہمے قدموں سے اُس کے پاس آیا۔
اُس نے قدرت اللہ سے ڈرتے ڈرتے پوچھا، ”صاحب۔۔۔آخر ہوا کیا ہے؟“

گھر کے باقی افراد دروازے پر کھڑے تھے کہ کہیں کوئی سبیل بن پڑے اور وہ بھی اندر گھس آئے

قدرت اللہ نے نوکر کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا اور نا ہی اُسے جھڑکا۔ بس ٹیبل پر پڑے ٹائپ شدہ کاغذات کی جانب اشارہ کیا۔ اُس نے ٹیبل سے کاغذ تو اُٹھائے مگر اُسے پڑھنا نہ آتا تھا۔ اُس نے بے بسی سے دروازے پر کھڑے افراد خانہ کی طرف دیکھا۔ اب ہلال کمرے میں داخل ہوا اور اُس کے پیچھے پیچھے باقی لوگ۔۔

ہلال نے نوکر کے ہاتھوں سے کاغذات لیے اور بلند آواز سے اُنہیں پڑھنے لگا۔ سارے لوگ مبہوت ہوکر سُن رہے تھے۔۔

اُس نے ایک دو منٹوں بعد ختم کیا تو عبدالصمد حیرانگی سے کہنے لگا، ”وِکی کو تو میں اچھے سے جانتا ہوں۔۔ مگر صاحب۔۔۔ اُس کی ماں۔۔۔ اُس کی ماں سرلا دیوی تو تین سال پہلے مر چکی ہے۔۔!!!“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close