چند گھنٹوں کی دوری پر بھارت کا چاند مشن، سانسیں روکے بیٹھے خلائی ماہرین اور دہشت کے آخری 15 منٹ۔۔

ویب ڈیسک

بھارت کا تاریخی خلائی مشن چندریان-3 چاند پر اترنے کے قریب ہے، جہاں عالمی طاقتوں کی خلائی مشن کی دوڑ میں بھارت بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے

یوں بھارت کا چاند پر روانہ ہونے والا مشن چندریان-3 تاریخ رقم کرنے سے صرف چند گھنٹوں کے فاصلے پر ہے۔ شیڈول کے مطابق 23 اگست کو شام پانچ بجے کے بعد بھارت کی خلائی تحقیق کی ایجنسی ’اسرو‘ چندریان 3 کے لینڈر ماڈیول کو چاند کے جنوبی قطب کی سطح پر اُتارنے کی کوشش کرے گی

چاند پر اترنے کی کوشش بھارت کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے، کیونکہ یہ عالمی خلائی طاقتوں کی طرف سے طے کیے گئے سنگ میلوں کو تیزی سے پورا کر رہا ہے

بھارت کی طرف سے چندریان 3 نامی خلائی جہاز گزشتہ ماہ چاند پر روانہ کیا گیا تھا، چندریان لفظ کا مطلب سنسکرت زبان میں ’مون کرافٹ‘ ہے جو کہ بھارتی وقت کے مطابق آج شام 6 بجے جنوبی قطب کے قریب پہنچنے والا ہے

بھارتی نشریاتی ادارے ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے تو آج صفحہ اول پر یہ سرخی شائع بھی کر دی ہے ’بھارت چاند پر پہنچ گیا۔‘

ایک اور نشریاتی ادارے ’ہندوستان ٹائمز‘ نے لکھا ہے ’یہ چاند مشن کے لیے ڈی ڈے ہے‘

چالیس دنوں کے طویل سفر کے بعد چندریان 3 کا لینڈر سطح پر اترنے کی تیاری کرے گا۔ یہ لینڈنگ کا عمل بہت نازک اور پیچیدہ ہے

اس میں سب سے اہم آخری پندرہ منٹ ہوتے ہیں۔ یہ پندرہ منٹ چندریان-2 کی لینڈنگ میں بھی اہم ثابت ہوئے تھے، اُس وقت کے اسرو کے سربرا نے مشن کی ناکامی کو ’آخری پندرہ منٹ کی دہشت‘ قرار دیا تھا

خیال رہے کہ بھارت کی طرف سے 2019 میں بھی چاند پر خلائی جہاز بھیجنے کی کوشش کی گئی تھی جو کہ ناکام ہوئی جبکہ حالیہ کوشش تقریباً 50 برسوں میں روس کا پہلا چاند مشن چاند کی سطح پر گر کر تباہ ہونے کے چند دن بعد ہوئی ہے

سنہ 2019ع میں چندریان 2 کے لانچ میں لینڈر ماڈیول چاند کی سطح سے 2.1 کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ گیا تھا۔ اس وقت تک سب کچھ ٹھیک تھا لیکن اس کے بعد لینڈر ماڈیول معمولی تکنیکی خرابی کی وجہ سے کریش ہو گیا

اسرو کے موجودہ چیئرمین ایس سومناتھ نے کہا ہے کہ چندریان 3 لینڈر ماڈیول کے ساتھ اس طرح کے حادثے کو روکنے کے لیے تمام انتظامات کیے گئے ہیں اور اگر حساب میں معمولی سی بھی غلطی ہو جائے تو بھی سائنسدانوں نے چندریان 3 لینڈر کو سطح پر اتارنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں

چاند پر اترنا کتنا مشکل ہے؟

زمین پر کسی ہوائی جہاز یا چیز کے اترنے کے منظر کا تصور کریں۔ طیارہ اونچائی سے آہستہ آہستہ آگے اور نیچے کی طرف جاتا ہے اور رن وے پر اترتا ہے۔ اسکائی ڈائیور جو ہوائی جہاز سے چھلانگ لگاتے ہیں پیراشوٹ کی مدد سے بحفاظت زمین پر اتر آتے ہیں

یہ دونوں عمل زمین پر تو ممکن ہیں لیکن چاند پر ممکن نہیں۔ چونکہ چاند پر کوئی ہوا نہیں ہے اس لیے لینڈر کو ہوا میں اڑا کر نہیں بلکہ صرف پیراشوٹ کی مدد سے لینڈ کرانا ممکن ہے

اس کے لیے چندریان-3 کے لینڈر میں راکٹ نصب کیے گئے تھے۔ ان کو اگنائٹ کرنے کے بعد لینڈر کی رفتار کو کنٹرول کر کے سائنسداں سست رفتاری کے ساتھ سافٹ لینڈنگ کی کوشش کرتے ہیں

لاکھوں میل دور ’منگلیان‘ کو بھی زمین پر موجود وسیع خلائی نیٹ ورک سے منسلک سائنسدانوں کے ہاتھوں کنٹرول کیا جاتا ہے

چندریان-3 کے لانچ سے لے کر چاند کی سطح پر اترنے تک اسرو کے سائنسدان بوسٹر جلا کر اس کی سمت اور رفتار کو کنٹرول کر رہے ہیں

تاہم لینڈنگ کے دوران اسے اس طرح کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اس میں خودکار خود بخود اترنے کا پروگرام نصب ہے۔ چندریان 2 میں بھی ایسا ہی انتظام کیا گیا تھا

چندریان 3 کا لینڈر چاند کے گرد ایک لمبے گول مدار میں چکر لگا رہا ہے۔ چاند کی سطح سے سو کلومیٹر اوپر سے گزرنے کے بعد، یہ چاند کی کششِ ثقل میں جانے کے لیے اپنے بوسٹر کو بھڑکاتا ہے۔ اس کے بعد یہ تیزی سے چاند کی سطح کی طرف گرنا شروع ہو جاتا ہے

جب یہ گرنے لگتا ہے تو اس کی رفتار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ زمین سے چاند تک ریڈیو سگنل بھیجنے میں تقریباً 1.3 سیکنڈ لگتے ہیں۔ اسی سگنل کو دوبارہ زمین تک پہنچنے میں 1.3 سیکنڈ لگتے ہیں

اس طرح چندریان لینڈر زمین کو ایک سگنل بھیجتا ہے اور اس کے جواب میں دوسرا سگنل اس تک پہنچنے میں 1.3 سیکنڈ کا وقت لیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس عمل کو مکمل ہونے میں تقریباً ڈھائی سیکنڈ لگتے ہیں۔ یعنی کئی سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چاند پر گرنے والے لینڈر کو کنٹرول کرنے میں ڈھائی سیکنڈ لگتے ہیں۔ اس اضافی وقت کی وجہ سے لینڈر کو ایسا بنایا جاتا ہے کہ لینڈر اپنے فیصلے خود کرتا ہے

ایسی کوششوں میں سب کچھ تکنیکی طور پر درست ہونا چاہیے ورنہ تھوڑا سا فرق بھی مسائل کا باعث بن سکتا ہے

چندریان 3 پہلے اپنے بوسٹر کو فائر کرکے 100 کلومیٹر کی بلندی پر چکر لگاتا ہے تاکہ یہ چاند کی سطح کی طرف گر سکے۔ وہاں سے یہ تیزی سے چاند کی سطح پر گرے گا

اسی طرح لینڈر ماڈیول کو لینڈنگ کے وقت چاند کی سطح سے 90 ڈگری کے زاویے پر ہونا چاہیے۔ چندریان 3 کی چار ٹانگیں چاند کی سطح کو عمودی طور پر نہیں چھو سکتیں، چاہے وہ کنارے کی طرف کتنا ہی جھک جائے

اس کے بعد چندریان کے الٹے یا گرنے کا خطرہ ہوگا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو روور اس سے باہر نہیں نکل سکے گا

چاند کی سطح پر سافٹ لینڈنگ کے بعد لینڈر ماڈیول زمین کو سگنل بھیجے گا۔ تھوڑی دیر بعد اس میں نصب ریمپ کھل جائے گا۔ اس کے ذریعے روور ’پرگیان‘ چاند کی سطح پر اترے گا اور وہاں سے تصاویر لے کر بنگلورو کے قریب انڈین ڈیپ اسپیس نیٹ ورک کو بھیجے گا

سائنٹیفک پریس آرگنائزیشن کے ماسٹر سائنٹسٹ ڈاکٹر ٹی وی وینکٹیشورن نے بی بی سی کو بتایا کہ لینڈر کو ایک سو کلومیٹر کی بلندی سے چاند کی سطح پر اتارنے کا 15 منٹ کا عمل آٹھ مراحل میں مکمل ہوگا

سافٹ لینڈنگ کا عمل اس وقت شروع ہو گا جب یہ 100 کلومیٹر سے 30 کلومیٹر کی بلندی تک پہنچے گا۔ اس وقت تک لینڈر کے پاؤں چاند کی سطح کی افقی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ اس کے بعد رفتار کو مزید کم کرنے کے لیے لینڈر میں راکٹ فائر کیے جائیں گے

جب لینڈر 30 کلومیٹر کی بلندی پر ہوتا ہے تو اس کی رفتار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس رفتار کو کنٹرول کرتے ہوئے یہ چاند کی سطح سے 7.4 کلومیٹر کی بلندی تک پہنچ جاتا ہے۔ 100 کلومیٹر کی بلندی سے یہاں تک پہنچنے میں دس منٹ لگتے ہیں۔ اسے پہلا قدم کہا جا سکتا ہے۔

لینڈنگ کا دوسرا مرحلہ

7.4 کلومیٹر کی بلندی سے یہ قدم بہ قدم 6.8 کلومیٹر کی بلندی تک آئے گا۔ اس وقت لینڈر کی ٹانگیں جو افقی تھیں وہ چاند کی سطح کی طرف 50 ڈگری مڑ جائيں گی

اس کے بعد لینڈر پر موجود آلات اس بات کی تصدیق کریں گے کہ آیا یہ اس جگہ جا رہا ہے جہاں اسے اترنا ہے یا نہیں۔ تیسرے مرحلے میں لینڈر کو 6.8 کلومیٹر کی اونچائی سے 800 میٹر کی بلندی تک آنا ہے

اس مرحلے پر لینڈر چاند کی سطح پر 50 ڈگری کے زاویہ سے افقی سطح پر کھڑا ہو گا۔ اس کے علاوہ راکٹ کی رفتار بھی کم ہو جاتی اور وہاں سے یہ چوتھے مرحلے میں 150 میٹر کی بلندی تک اتر آئے گا

اس اونچائی پر لینڈر اس بات کو یقینی بنائے گا کہ لینڈنگ سائٹ مکمل طور پر مسطح ہو۔ وہاں سے یہ پانچویں مرحلے میں 150 میٹر سے 60 میٹر تک نیچے آ‏ئے گا۔ وہاں سے لینڈر کی رفتار مزید کم ہو جائے گی۔ چھٹے مرحلے میں اونچائی 60 میٹر سے کم ہو کر 10 میٹر رہ جائے گی

اس بار اسرو نے لینڈر میں لیزر ڈوپلر ویلوسیمیٹر نامی ایک نیا آلہ نصب کیا ہے جو چاند کی سطح پر لیزر پلس بھیجتا ہے۔ یہ اس کے پاس واپس جائے گا اور پھر یہ لمحہ بہ لمحہ حساب لگاتا ہے کہ یہ وہ کتنی رفتار سے نیچے جا رہا ہے

لینڈر میں موجود کمپیوٹر مطلوبہ رفتار سے لینڈنگ کا خیال رکھتا ہے۔ چھٹا مرحلہ اسے 60 سے 10 میٹر کی اونچائی پر لانا ہے۔ اگلا مرحلہ دس میٹر کی بلندی سے چاند پر لینڈر کی سافٹ لینڈنگ کرنا ہے

اس مرحلے پر راکٹ جلنا بند ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر جلتے ہوئے راکٹوں کی وجہ سے چاند کی سطح پر اڑتی دھول لینڈر پر لگے سولر پینلز پر پڑتی ہے تو اس سے ان کے بجلی پیدا نہ کرنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا

10 میٹر کی بلندی سے نیچے اترنے پر لینڈر ماڈیول کی رفتار 10 میٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے۔ یعنی آخری مرحلہ ایک سیکنڈ میں مکمل ہو جائے گا

یہاں تک کہ اگر کوئی تکنیکی خرابی واقع ہوتی ہے اور لینڈر 100 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گرتا ہے، تو آلے کی ٹانگوں کو کام جاری رکھنے کے لیے کافی مضبوط بنایا گیا ہے۔ لینڈر کو 800 میٹر کی بلندی سے 10 میٹر کی بلندی تک پہنچنے میں ساڑھے چار منٹ لگتے ہیں

اس وقت کچھ ہو جائے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ لینڈر کے بحفاظت اترنے کے بعد ریمپ کھل جاتا ہے، روور پرگیان باہر آتا ہے اور چاند پر اترتا ہے، یہ لینڈر کی تصاویر لیتا ہے اور انھیں واپس زمین پر بھیج دیتا ہے۔ یہ آٹھواں مرحلہ ہے۔ وہاں سے، لینڈر وکرم اور روور پرگیان 14 دن تک چاند کے جنوبی قطب پر تحقیق کریں گے۔

ماضی کے تجربے سے سبق

چندریان-2 لینڈنگ کے دوران ناکام ہو گیا تھا اس لیے چندریان-3 ایسی ناکامیوں سے بچنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ یہ لینڈر کو محفوظ لینڈنگ میں مدد دے گا۔ ان میں لینڈر ماڈیول میں نصب سات بنیادی ٹیکنالوجیز شامل ہیں

ان میں سب سے پہلا الٹی میٹر ہے۔ یہ چندریان 3 کی اونچائی کو اس کے اترنے کے دوران کنٹرول کرے گا۔ یہ لیزر اور ریڈیو فریکوئنسی کی مدد سے کام کرتا ہے۔ دوسرا رفتار میٹر ہے۔ وہ چندریان 3 کی رفتار کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس میں لیزر ڈوپلر ویلوسیٹی میٹر اور لینڈر ہوریزونٹل ویلوسیٹی کیمرہ شامل ہے۔ وہ دونوں چاند کی سطح کی تصاویر لیتے ہیں اور ان کا مسلسل معائنہ کرتے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ لینڈر ماڈیول محفوظ طریقے سے لینڈ کر سکے

تیسری ٹیکنالوجی لینڈر انرشیا یا لینڈر کا استمرار یا جمود کے حساب سے متعلق ہے۔ یہ ایکسلرومیٹر کے ساتھ ساتھ لیزر گائروسکوپ پر مبنی ٹیکنالوجی ہے

چوتھا پروپلشن سسٹم ہے۔ اس میں جدید ترین 800 این تھراٹیبل مائع انجن، 58 این ایٹیچیوڈ تھرسٹرس اور تھراٹیبل انجن کنٹرول الیکٹرانکس شامل ہیں۔ یہ کسی بھی بلندی پر لینڈر ماڈیول کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرنے کے لیے دوسرے سینسر سے معلومات حاصل کرکے کام کرتے ہیں

پانچویں نیویگیشن، رہنمائی اور کنٹرول پر مبنی ٹیکنالوجی ہے۔ چھٹی ٹیکنالوجی لینڈر کے لیے خطرے کا پتہ لگانے اور تحفظ سے متعلق ہے، جس میں کیمرے اور پروسیسنگ الگورتھم شامل ہیں

ساتویں لینڈنگ ٹانگ میکانزم ہے۔ ان کا استعمال لینڈر کو آخری لمحات میں مستقل رفتار سے چاند کی سطح پر اترنے کی اجازت دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ سات ٹیکنالوجیز ایک دوسرے کے ساتھ فوری طور پر معلومات کا تبادلہ کرکے اپنے طور پر فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں

اگر مسائل پیدا ہوتے ہیں تو کیا ہوگا

چندریان 2 میں پیش آنے والی تکنیکی خرابیوں کا مکمل تجزیہ کرنے کے بعد لینڈر ماڈیول میں ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ اگر دوبارہ ایسا مسئلہ پیش آتا ہے تو اس کا حل تلاش کیا جا سکے۔

اسرو کے چیئرمین ایس سومناتھ نے کہا کہ جب چندریان 3 لینڈ کرے گا تو یہ ضروری ہوگا کہ افقی پوزیشن سے 90 ڈگری کی عمودی پوزیشن حاصل کی جائے اور نرم لینڈنگ تک اسی پوزیشن کو برقرار رکھا جائے۔

مسٹر سومناتھ نے کہا کہ چندریان-3 لینڈر کی محفوظ سافٹ لینڈنگ کے لیے تمام ضروری انتظامات کیے گئے ہیں حتیٰ کہ انجن کی خرابی یا کچھ سینسر کی خرابی کی صورت میں بھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close