27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ میں جلسے کے بعد پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔ ان کے قتل کے بعد ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور اس وقت بھی پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ ہے مگر اس واقعے کے پندرہ برس بعد بھی ملوث ملزمان ضمانت پر ہیں، جبکہ پانچ ملزمان کو ٹرائل کورٹ نے شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا ہے
دستیاب معلومات کے مطابق جائے وقوعہ کو دھو کر ثبوت ختم کرنے کے الزام میں گرفتار دونوں پولیس افسران اس وقت ضمانت پر رہا ہیں اور ان کو دی گئی سزا کا فیصلہ معطل ہو چکا ہے
31 اگست 2017ع کو قتل کیس کا فیصلہ آنے کے بعد سات ستمبر 2017ع کو پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد کے وکیل نے فیصلہ چیلنج کیا اور عدالت سے استدعا کی کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے شواہد کو نظر انداز کیا ہے، لہذا سنائی گئی سزا غیر قانونی ہے، اس لیے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے
اس کے بعد 11 ستمبر 2017 کو لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے بے نظیر بھٹو قتل کیس میں پولیس افسران کی نظر ثانی اپیلیں سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے ان کی سزائیں معطل کر دی تھیں
لطیف کھوسہ، جو ملزمان کے خلاف اپیلوں میں آصف علی زرداری کے وکیل ہیں، کہتے ہیں ’پرویزمشرف کے حکم پر کرائم سین دھو دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے کیس کا معمہ حل نہیں ہو رہا۔‘
ان سے جب سوال پوچھا گیا کہ پانچ سال سے اپیلیں زیر التوا کیوں ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ’2017 سے اب تک ہائی کورٹ میں کیس سماعت کے لیے مقرر ہوتا ہے، پھر بغیر کارروائی کے طویل تاریخ کے لیے ملتوی ہو جاتا ہے۔ پھر کبھی جج تبدیل ہو جاتا ہے اور کبھی کوئی ملزم پیش نہیں ہوتا۔ بری ہونے والے ملزمان کو نوٹس جاری ہو چکے ہیں لیکن ان کا بھی کچھ علم نہیں ہے اور جو مفرور ہے، وہ بھی واپس نہیں آیا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ضمانت پر دو ملزمان کے وکیل موجودہ وزیر قانون ہیں، تو ظاہر ہے اب پھر وکیل تبدیل ہو جائے گا جو تیاری کے لیے التوا کی درخواست کر دے گا۔ پانچ سالوں سے یہی ہو رہا ہے، اب میں کیا کہہ سکتا ہوں۔‘
لطیف کھوسہ نے بتایا کہ آخری سماعت دو ماہ قبل ہوئی تھی جس کے بعد نئی تاریخ عدالت نے نہیں دی۔
انہوں نے کہا کہ عدالت عالیہ سے التجا ہے کہ اس مقدمے کو سنا جائے اور انصاف دیا جائے۔ اس مقدمے میں اتنا تساہل (سستی) اور طوالت ہو رہی ہے، خود ہمیں شرمندگی ہوتی ہے کیونکہ ہمارا کارکن کہتا ہے بی بی ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں۔‘
بے نظیر بھٹو قتل کیس میں کب کیا ہوا؟
سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹوکے قتل کا کیس نو سال اور آٹھ ماہ چلا۔ اس دوران آٹھ جج تبدیل ہوئے۔ پولیس اور ایف آئی اے نے چھ چالان عدالت میں جمع کروائے۔ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سمیت سات ملزمان پر 20 اگست 2013 کو فرد جرم عائد کی گئی
پرویز مشرف کے خلاف امریکی صحافی مارک سیگل نے وڈیو لنک کے ذریعے بیان بھی ریکارڈ کروایا۔ اس دوران پرویز مشرف مفرور ہو گئے اور اپنی صفائی میں ویڈیو لنک یا سکائپ کے ذریعے بیان ریکارڈ کروانے کی پیشکش کا بھی کوئی جواب نہ دیا، جس پر عدالت کی جانب سے وہ اشتہاری قرار پائے
ٹرائل کے دوران 141 گواہان کی فہرست میں سے 68 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج محمد اصغر خان نے 31 اگست 2017 کو کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پانچ ملزمان رفاقت حسین، حسنین گل، شیر زمان، رشید احمد اور اعتزاز شاہ کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا جبکہ پولیس افسران سی پی او سعود عزیز، ایس پی خرم شہزاد کو مجرمانہ غفلت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے 17، 17 سال قید اور پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی
عدالت نے کہا کہ سکیورٹی کا انتظام بہتر ہوتا تو بےنظیر بھٹو کے قتل کو روکا جا سکتا تھا۔ سزا پانے والے پولیس افسران نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جبکہ آصف زرداری نے بھی عدالت سے بری ہونے والے ملزمان کے خلاف رجوع کر رکھا ہے
پندرہ برس قبل لیاقت باغ میں کیا ہوا تھا؟
آج سے پندرہ برس قبل لیاقت باغ میں پیپلز پارٹی کا جلسہ تھا، جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے عوام سے خطاب کیا تھا۔ بے نظیر بھٹو لیاقت باغ میں عوامی جلسے سے خطاب کرنے کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو رہی تھیں اور لیاقت باغ کے مرکزی دروازے پر پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے کارکن ان کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے
اسی دوران پارٹی کارکنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے وہ گاڑی کی چھت سے باہر نکلی ہی تھیں کہ نامعلوم شخص نے ان پر فائرنگ کر دی۔ فائرنگ کے کچھ لمحات بعد بے نظیر کی گاڑی سے کچھ فاصلے پر ایک زوردار دھماکہ ہوا جس میں ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا
اس دھماکے میں جس گاڑی میں بے نظیر بھٹو سوار تھیں، اس کو بھی شدید نقصان پہنچا لیکن گاڑی کا ڈرائیور اسی حالت میں گاڑی کو بھگا کر راولپنڈی جنرل ہسپتال لے گیا جہاں بے نظیر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئیں
بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں جو پہلی بار 1988 میں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئیں۔ دوسری بار اقتدار انہیں اکتوبر 1993 میں ملا۔ 1997 کے عام انتخابات میں شکست کے بعد وہ بیرون ملک چلی گئیں اور دس برس گزرنے کے بعد 2007 اکتوبر میں پاکستان تشریف لائیں اور دہشت گردی کا نشانہ بن گئیں۔