دمشق میں عوامی تحریکیں

ڈاکٹر مبارک علی

موجودہ زمانے میں تاریخ نویسی میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔ مورخ حکمرانوں کی شان و شوکت اور طاقت کے مظاہروں کو چھوڑ کر عوامی طاقت کو دریافت کر رہے ہیں، جو اگرچہ بےبس اور غریب ہیں جب یہ آپس میں مل جاتے ہیں تو ایک ایسی طاقت بن کر اُبھرتے ہیں کہ جو ریاستی طاقت کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔

دو مورخین کرونین اور سٹیفانی نے Sabalterns and Social Protest یعنی ’محکوم طبقے اور سماجی احتجاج‘ میں مشرقی وسطیٰ میں ہونے والی عوامی تحریکوں کا جائزہ لیا ہے۔

عوام کے احتجاج کے بارے میں دو آرا ہیں۔ فرانس کے سماجی مفکر گوستاو لیبوں (وفات: 1931) کے مطابق ایک ہجوم اچانک اکٹھا ہوتا ہے۔ اس کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی، یہ جذباتی طور پر پرجوش ہوتا ہے اور جس طرح اچانک جمع ہوتا ہے، اسی طرح سے اچانک منتشر بھی ہو جاتا ہے اور اپنے کوئی دیرپا نشانات نہیں چھوڑتا ہے۔

اس کے مقابلے میں جارج روڈ (وفات 1993) نے اپنی کتاب Crowd in History یعنی تاریخ میں ہجوم کا کردار میں یہ رائے دی ہے کہ ہجوم سیاسی طور پر باشعور ہوتا ہے اور منصوبہ بندی کے تحت عمل کرتا ہے۔

عوامی تاریخ لکھتے وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ ان کے بارے میں معلومات کیسے اکٹھی کی جائیں کیونکہ عام لوگوں نے تو اپنی کوئی تاریخ نہیں لکھی ہے۔ اشرافیہ کے جن مورخوں نے تاریخیں لکھی ہیں ان میں تو عوامی تحریکوں کا کوئی ذکر نہیں ہے یا اگر ہے تو اس میں ان کے لیے نفرت اور حقارت کے جذبات ہیں۔ اس مقابلے میں مندرجہ بالا کتاب 1500 سے لے کر 1800 کے واقعات کو لے کر ہجوم کی سرگرمیوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

1815 میں عثمانی سلطنت نے مملوکوں کو شکست دے کر شام کے دارالحکومت دمشق پر قبضہ کر لیا تھا اور دمشق میں عثمانی اور مملوک انتظامی اصول قائم رہے۔ ان میں سب سے اعلیٰ عہدہ گورنر کا تھا۔ اس کے بعد قاضی تھا جس کا کام مقدموں کی کارروائی کرنا اور مارکیٹ میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا تعین کرنا اور لوگوں کو انصاف مہیا کرنا تھا۔ تیسرا عہدہ مفتی کا تھا جو سماجی معاملات پر فتوے دیا کرتا تھا۔

دمشق کے معاشرے میں طبقاتی فرق کافی تھا۔ غریب لوگوں کی بڑی تعداد تھی۔ اس کے علاوہ دوسرے شہروں سے آنے والے لوگ جن میں ایرانی، ترک اور مختلف قبائل تھے، ان کے علیحدہ علیحدہ محلے تھے۔ ان میں رہنے والے نوجوانوں کے گروہ تھے۔

غریب عوام کو مطمئن رکھنے کے لیے دو طریقے تھے۔

صدقہ خیرات:

ایک تو یہ کہ گورنر اور سلطان عوام میں صدقہ اور خیرات تقسیم کرتے تھے، تاکہ ان کو خوش رکھا جائے۔

مثلاً جب سلطان سلیم قاہرہ کی فتح کے بعد دمشق آیا اور مسجد میں نماز پڑھنے گیا تو اس کے گرد فقیروں اور گداگروں کا مجمع اکٹھا ہو گیا جن میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ اس نے ان سب میں خیرات تقسیم کی اور اس طرح غریبوں کو مطمئن کیا۔

زور زبردستی:

دوسرا طریقہ یہ تھا کہ اگر ہجوم مظاہرہ کرتا اور احتجاج کرتا تو اس کو سختی سے کچل دیا جاتا تھا۔ دمشق کی تاریخ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہجوم اس وقت مظاہرہ کرتا تھا۔ جب قاضی کی عدالت سے کوئی انصاف نہیں ملتا تھا یا سلطنت کے عہدیدار ان کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے۔

احتجاج کی سب سے بڑی وجہ مہنگائی ہوتی تھی اور جب سلطنت کی جانب سے نئے نئے ٹیکس لگائے جاتے تھے تو لوگوں کے لیے ان کی ادائیگی مشکل ہو جاتی تھی یا اگر قحط اور خشک سالی ہوتی تھی اور تاجر ذخیرہ اندوزی کرتے تھے تو اس پر بھی لوگ احتجاج کرتے تھے۔

جب لوگ احتجاج کرتے تھے تو یہ احتجاج سلطان کے خلاف نہیں ہوتا تھا، بلکہ ان کی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہوتا تھا۔ احتجاج کا ایک طریقہ یہ تھا کہ لوگوں کا ہجوم مسجد بنو امیہ میں جمع ہو جاتا تھا اور یہاں وہ امام مسجد کو مجبور کرتے تھے کہ ان کے مطالبات گورنر تک پہنچائیں۔

امام مسجد اکثر فرار ہو جاتا تھا۔ اس پر احتجاج کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ لوگ مسجد کے مینار پر چڑھ کر موذن کو اذان سے روک دیتے تھے اور یہاں سے تقاریر کر کے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے تھے اور اپنے مطالبات میں انہیں شریک کرتے تھے۔

اس طریقہ کار کی وجہ سے ہجوم کے مطالبات شہریوں تک پہنچتے تھے اور حکمران بھی ان کی آواز سنتے تھے۔

جب بھی مارکیٹ سے اشیائے خوردو نوش غائب ہو جاتی تھیں اور روٹی دستیاب نہیں ہوتی تھی تو عوام کا ہجوم قاضی کی عدالت میں جا کر اس کا گھیراؤ کرتا تھا۔ اکثر قاضی ہجوم کا سامنا کرنے کے بجائے راہ فرار اختیار کرتا تھا۔

ایک مرتبہ وہ چھت پر چڑھ کر دوسرے مکانوں کی چھتوں سے ہوتا ہوا اپنے گھر جا سکا جہاں اس نے پناہ لی۔ لیکن ہجوم کے اس احتجاج کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ تاجر طبقہ اشیائے خوردو نوش مارکیٹ میں لے آتا تھا اور روٹی بھی سب کو دستیاب ہو جاتی تھی۔اکثر عوام کا ہجوم عدالت پر ہلہ بول دیتا تھا اور جب یہ شبہ ہو کہ مجرم کو سزا نہیں دی گئی تو ہجوم خود مجرم کو پکڑ کر اسے سزا دیتا تھا یا قتل کر دیتا تھا۔

دمشق میں ہونے والی ان عوامی تحریکوں سے یہ ثابت کرتا ہے کہ لوگوں میں سیاسی شعور تھا اور وہ اپنے حقوق کے لیے متحد ہو جاتے تھے اور جب بھی سلطنت کی جانب سے ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا تو وہ پیچھے نہیں ہٹے اور مقابلہ کیا۔

اکثر یہ بھی ہوا کہ ٹیکس جمع کرنے والا عہدیدار ان کے محلوں میں گیا تو انہوں نے نہ صرف ٹیکس ادا کرنے سے انکار کیا بلکہ بعض حالات میں اسے مارا پیٹا اور قتل بھی کیا۔

ہمیں موجودہ دور میں ہجوم کی سرگرمیوں میں جمہوری آزادی کے اثرات ملتے ہیں، لیکن عہد وسطیٰ کے مشرق وسطیٰ میں جہاں بادشاہت تھی، فوج تھی اور عوام سیاسی طاقت سے محروم تھے، لیکن ان میں یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ اگر وہ متحد ہو کر طاقتور بنے تو اپنے بنیادی حقوق حاصل کر سکیں گے۔

ان کے لیے سلطنت کے اداروں سے مقابلہ کرنا اگرچہ مشکل تھا لیکن یہ سلطنت کے عہدیدار بدعنوان اور راشی تھے اور اکثر نااہل بھی تھے۔ اس لیے لوگوں میں ان کی کوئی عزت نہیں تھی اور لوگ اس بات کو سمجھتے تھے کہ وہ دباؤ اور طاقت کے ذریعے سرکاری عہدیداروں کو مجبور کریں گے کہ ان کے مطالبات کو تسلیم کریں۔ اس میں انہیں کامیابی بھی ہوئی۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close