فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (7)

ڈاکٹر اختر علی سید

سیاسیات کی امریکی فلسفی ہینا آرینڈٹ (Hanna Arendt) نے فینون کے جارحیت یا تشدد (violence) کے تصور پر شدید تنقید کی ہے لیکن اس مقدمے پر اس نے یہ الزام لگایا ہے کہ سارتر نے فینون کے تشدد کے فلسفے کو عظمت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ یہ تنقید شاید بے جا نہیں ہے۔ سارتر کے مطابق استعمار زدہ معاشروں میں تشدد اور جارحیت صرف محکوم کو ایک حکمت عملی کے تحت اپنے سے دور رکھنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا مقصد اس کو بے عزت کرنا اور انسان کی حیثیت سے اس کو بے توقیر کرنا بھی ہوتا ہے۔ تشدد کا مقصد محکوموں کی روایات، سماجی ادارے، زبان، اور کلچر کو اس طرح تباہ کرنا ہوتا ہے کہ محکوموں کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ بچے۔ صرف ہر شے کا خالی ڈھانچہ رہ جائے

جب محکوموں پر تشدد حد سے گزر گیا اور آتش فشاں پھٹ پڑا تو ہم نے کہا کہ یہ تو صرف تشدد ہی کی زبان سمجھتے ہیں۔ ایسے میں آئینہ میں ہمارا عکس آگے بڑھ کر ہم سے ملاقات کرتا ہے۔ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ ان کی نہیں بلکہ ہماری جارحیت ہے جو پلٹ کر واپس آ رہی ہے۔ فینون محکوموں کو یہ بتاتا ہے کہ ان کی جارحیت نہ تو خوف کا نتیجہ ہے نہ ان کی بربریت کی علامت ہے بلکہ یہ محکوم انسانوں کی تخلیق نو ہے۔ تشدد کا شکار اور اس کا مشاہدہ کرنے والا بچہ اس میں اپنی انسانیت ڈھونڈتا ہے۔ کیونکہ اگر استحصال اور استبداد بغیر تشدد اور جارحیت شروع ہوتا تو عدم تشدد کا فلسفہ ایک ممکنہ حل فراہم کر سکتا تھا۔ لیکن اگر عدم تشدد کے فلسفے سمیت سارا کاروبار ہی استبداد اور استحصال کے ہزاروں سال پرانے نظام پر چل رہا ہو تو ایسے میں تمھارا (اے یورپ کے باشندو) چپ رہنا تو تمھیں صرف اور صرف استحصالی گروہوں کی صفوں میں کھڑا کرتا ہے۔ اور کہیں نہیں

جیسا کہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ فینون جب محکوموں کی جانب سے پرتشدد حکمت عملی اختیار کیے جانے کی وکالت کرتا ہے تو وہ بھی اس کا سبب استعماریت کو ہی قرار دیتا ہے۔ مگر سارتر کا یہ کہنا کہ محکوم تشدد کے نتیجے میں اپنی تخلیق نو کرتا ہے تو وہ گو شدت ہی سہی مگر ان کے تصور کو ایک نئی سطح، زور، جواز اور طاقت عطا کرتا ہے

سارتر کا یہ مقدمہ ”افتادگان خاک“ کے تمام انگریزی ترجمہ میں شامل ہے تاہم فینون کی شریک حیات کے کہنے پر 1967ء کے بعد شائع ہونے والے کسی فرانسیسی ایڈیشن میں اسے شامل نہیں کیا گیا۔ ترکی زبان میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں جوزی فینون سے پوچھا گیا کہ سارتر کا یہ مقدمہ ”افتادگان خاک“ کے فرانسیسی ایڈیشن سے کیوں نکالا گیا تو اس نے کہا

”ایسا میرے کہنے پر کیا گیا مغرب کے نقطۂ نظر سے یہ ایک عمدہ تحریر تھی۔ سارتر نے“ افتادگان خاک ”کو بالکل ٹھیک سمجھا۔ لیکن جب اسرائیل نے عربوں کے خلاف1967ء میں جنگ چھیڑی تو فرانس کے دانشوروں نے اسرائیل اور صیہونیت کے حق میں مہم شروع کی۔ سارتر نے اس مہم میں بھرپور شرکت کی۔ میرے خیال میں صہیونیت کے لیے ہمدردی رکھنے والے کے خیالات“ افتادگان خاک ”سے میل نہیں کھاتے۔ سارتر کے ماضی کے خیالات کی وجہ سے مسئلہ فلسطین کو نہ سمجھ سکنے کی غلطی معاف نہیں کی جا سکتی۔ اس نے مزید کہا سارتر کی فینون کے لیے غیر مشروط اور جذباتی حمایت صرف استعماریت کی مخالفت کے سبب نہیں تھی۔ اس حمایت کے اسباب میں فلسفیانہ حوالوں سے نظریات کا اشتراک بھی شامل تھا۔ (Gordon، 2010)

سارتر کی ایک اور کتاب یہود دشمنی اور یہودی کا ذکر ہم کر چکے ہیں۔ تاہم فینون کے لیے سارتر کی اہمیت کا سبب اس کی کتاب Critique of Dialectical Reason بھی تھی۔ سارتر نے انسانی شعور ( consciousness) پر اس کتاب سمیت دیگر اور کتابوں مثلاً Being and Nothingness اور Outline of the Emotions میں گفتگو کی ہے۔ سارتر کا انسانی شعور کا تصور جسم سے الگ کوئی وجود نہیں رکھتا۔ نفسیات میں یہ تصور پاکستانی ماہر نفسیات ڈاکٹر اختر احسن کے نقطۂ نظر سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔ سیاہ فامی کا شعور (Black Consciousness) بھی حقیقت میں جسم، جلد کی رنگت، اور نسل سے الگ نہیں ہے۔ فینون کا اس بات پر اصرار hay کہ محکوم کا مسئلہ صرف محکوم ہی کے نقطۂ نظرکے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے۔ کوئی باہر سے آ کر نہ اس مسئلہ کو سمجھ سکتا ہے اور نہ کوئی حل تجویز کر سکتا ہے۔ فینون کی یہ پوزیشن اس کو موجودیت (existentialism) کے قریب لے جاتی ہے۔ ژاں پال سارتر فلسفے کے اس مکتبہ فکر کے اہم فلسفیوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سارتر نے جس طرح موجودیت اور اشتراکیت کو اپنے کام میں اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے فینون پر اس کے اثرات بھی واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں

اس کتاب کے پہلے باب کا عنوان ”تشدد کے بارے“ میں ہے۔ یہ فینون کی سب سے زیادہ متنازعہ اور زیر بحث آنے والی تحریر ہے۔ فینون کے نقطۂ نظرپر ہونے والے اعتراضات کا ہم آگے چل کر جائزہ لیں گے لیکن وہ اس باب کے آغاز ہی میں ایک ایسی بات کرتا ہے جس سے اختلاف رائے کا پیدا ہونا یقینی تھا۔ ”ترک استعماریت (decolonisation) ہمیشہ پرتشدد ہوتی ہے“ یہ ایک ایسا بیان ہے جس سے بیک وقت اتفاق اور اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ برصغیر سے برطانوی استعمار یت کی رخصتی کا فیصلہ کسی بڑی پرتشدد کارروائی کے بغیر کیا گیا۔ لیکن تقسیم ہند کا پورا سلسلہ بہت ہی پر تشدد ثابت ہوا۔ الجیریا کی حد تک فینون کی بات تاہم درست ثابت ہوئی۔ فینون کا اصرار ہے کہ محکوم اصل میں استعمار گرد کی تخلیق کردہ شناخت ہے۔ استعماریت جیسے ہی کسی سرزمین پر قدم جماتی ہے وہ وہاں کے رہنے والوں کی شناخت سوائے ایک ”محکوم“ colonised کے کچھ اور باقی نہیں رہنے دیتی۔ اس لیے استعماریت کا ترک اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک محکوم اپنی تخلیق نو نہ کر لیں۔ ایک ”محکوم“ کی بطور ”محکوم“ شناخت ہی استعماریت کا اصل سرمایہ ہے۔ یہیں وہ ترک استعماریت کا نسخہ بتلاتا ہے۔ فینون کے مطابق استعماریت کے سامنے کھڑے ہو جانا اصل میں کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ اس دعوے کی بنیاد پر ہے کہ محکوم کی دنیا استعمار سے ایک مختلف دنیا ہے۔ فینون نے دو دنیاؤں کے اس فرق کو اپنی مشہور اصطلاح مانویت (Manicheanism) کے ذریعے واضح کیا ہے۔ یہ اصطلاح اس نے ”سیاہ جلد، سفید نقاب“ میں بھی استعمال کی تھی۔ ”اچھائی، برائی، خوبصورتی، بدصورتی، سیاہ اور سفید جیسی خصوصیات جن کو ایک ساتھ استعمال کیا جاتا ہے ان کا اس طرح ایک ساتھ استعمال مانوی اضطراب کا ایک اظہار ہے“ ۔ ”افتادگان خاک“ کے اس باب میں فینون مانویت کی عملی مثالیں دیتا ہے۔ اس کے خیال میں استعماری دنیا ایک مانوی دنیا ہے۔ کیونکہ استعمار محکوموں پر صرف عملی تصرف نہیں چاہتا بلکہ وہ ان کو ہر طرح کی برائی میں تبدیلی کر دینا چاہتا ہے۔ محکوموں کی دنیا کو ایک ایسی دنیا بنا دینا چاہتاہے جس کی اپنی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی۔ محکوم حقیقت میں بدی کے ہم معنی کوئی (انسان نہیں بلکہ) چیز ہے۔ ان کے معاشرے میں اخلاقیات صرف ناپید ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ معاشرے اصل میں اخلاقیات کی عملاً نفی ہوتے ہیں۔ صرف اخلاقیات ہی نہیں بلکہ انسانیت، علم اور تہذیب، محکوم معاشرے اس طرح کی ہر اچھائی سے مکمل طور پر محروم ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس استعماری معاشرے اخلاقیات، تہذیب، انسانیت اور علم کے جواہر سے مالا مال ہوتے ہیں۔ اس لیے استعماریت اصل میں بے تہذیبوں کو تہذیب، جاہلوں کو علم، اور وحشیوں کو تمدن سکھلانے کا مشن ہے۔ برطانوی مؤرخ نائل فرگوسن (Niall Ferguson، 2004 ) نے برطانوی راج کی ان نو نعمتوں کا ذکر کیا ہے جن سے اس نے ہندوستان کی عوام کو فیض یاب کیا۔ اس سے پہلے جان اسٹورٹ مل (1984ء) جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین بھی برطانوی راج کو اعلی تہذیب یافتہ قوم (برطانیہ) کا وحشی ہندوستانیوں کو تہذیب سکھانے کا نیک نیتی پر مبنی ایک مشن قرار دے چکے تھے۔ ہیرالڈ فیشر ٹائن (Harold Fisher۔ Tine) اور مائکل مان ( Michael Mann) کی کتاب Colonialism: A Civilising Mission میں اس مشن کے کئی پہلوؤں مثلاً تعلیم، نظام انصاف، مذہبی رواداری، تعمیرات، کھیل، ذہنی مریضوں کے شفاخانے، طب اور اقتصادیات جیسے موضوعات پر برطانوی کارگزاریوں کا جائزہ لیا گیا ہے

محکومین کے بارے میں فرانسیسی استعمار کے اسی نوعیت کے نظریات فینون یہاں وضاحت سے بیان کرتا ہے۔ اس طرح کے نظریات کے جواب میں محکومین یا تو ان نظریات کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں یا قبول۔ ترک استعماریت کے لیے فینون کی تجویز یہ ہے کہ استعمار کے ساتھ اس طرح کے نظریات کے ذیل میں کسی بھی طرح کا تعلق (یا مکالمہ) مفید نہیں ہے۔ استعمار کے اس استدلال کو نہ قبول کرنا چاہیے اور نہ رد۔ بلکہ جواب میں محکومین کو اپنی تخلیق نو کرنی چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ تخلیق نو اپنی تفہیم نو کے بغیر ممکن نہیں ہے

مانویت کا یہ نقطۂ نظر وہ فاصلہ پیدا کرتا ہے، جو استعمار محکوموں سے قائم و برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ یہ فاصلہ استعمار زدہ معاشرے میں طاقت کے توازن کو محکوم کے خلاف رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں فینون اپنا بنیادی نقطۂ نظر پیش کرتا ہے۔ اس کے مطابق کیونکہ طاقت استعماریت کا بنیادی استدلال ہے اس لیے استعماریت طاقت کے انتہائی بہیمانہ استعمال یعنی تشدد کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے اور تشدد ہی کی بنیاد پر قائم رہتی ہے۔ فینون پولیس اور فوج کے اداروں کی بابت بات کرتا ہے۔ بعد از استعماریت قائم ہونے والی ریاستوں کی فوج اور پولیس کی کارگزاری دور استعماریت سے زیادہ مختلف ثابت نہیں ہوتی۔ کیونکہ بعد از استعماریت تشکیل پانے والا ریاستی ڈھانچہ استعماری ریاست کے نظری اصولوں پر کھڑا کیا جاتا ہے۔ محکومین کے پاس ترک استعماریت کے لیے تشدد اختیار کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہیں چھوڑا جاتا۔ اسی لیے ترک استعماریت کے حصول کی خاطر فینون محکومین کو تشدد کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دو وجوہات کی بنیاد پر دیتا ہے۔ ایک تو استعمار صرف طاقت کی زبان بولتا اور سمجھتا ہے اس لیے جب تک محکوم اسی زبان میں بات نہیں کریں گے استعمار ان کی بات نہیں سمجھے گا۔ دوسرے محکوم اپنی محکومیت کے سبب اپنے بارے میں شدید کمزوری اور بے کراں بے بسی کے جس احساس کا شکار ہوتا ہے تشدد (طاقت کی زبان) اختیار کیے بغیر اس احساس سے چھٹکارا پانا ناممکن ہوتا ہے

ترک استعماریت کے لیے تشدد اختیار کرنے کا محکومین کو دیا جانے والا یہ فارمولا نظری طور پر بہت سے متنازعہ مباحث کا سبب بنا ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والی مزاحمت اور دہشت گردی کو فینون کے نظریات کے تناظر میں دیکھا گیا ہے۔ (Fairchild، 1994 ; Seshadri، 2002 ; Hansen، 2013 ; et al۔)

مختلف ماہرین نے فینون کے موقف کے حق اور خلاف لکھا مگر جو مخالفت امریکی ماہر سیاسیات ہینا آرینڈٹ نے کی وہ بلاشبہ نہ صرف سب سے زیادہ مدلل تھی بلکہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تنقید بھی تھی۔ آرینڈٹ نے اصطلاحات میں فرق کر کے اپنی بات پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ وہ طاقت (power) ، مضبوطی (strength) ، قوت (force) ، اتھارٹی (authority) اور تشدد (violence) میں فرق کرتی ہے

طاقت سے آرینڈٹ کی مراد انسان کی وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے وہ ایک گروہ کی سرگرمی میں حصہ لیتا ہے۔ یہ گروہی سرگرمی اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک گروہ متحد اور متحرک رہے۔ جبکہ مضبوطی ایک انفرادی کردار کی مظہر ہوتی ہے۔ قوت کا اظہار آرینڈٹ کے مطابق فطری اور سماجی عوامل کے ردعمل کے طور پر ہوتا ہے۔ اتھارٹی ایک فرد میں بھی مرتکز ہو سکتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اتھارٹی ہی کی مثالیں ہیں۔

تشدد کو آرینڈٹ قوت سے جوڑتی ہے تشدد ہمیشہ طاقت کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بندوق کا استعمال فوری اور مکمل تابعداری حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ تشدد طاقت کو ختم کر کے رکھ دیتا ہے تشدد کے طاقت سے مقابلے کا نتیجہ انسانی صلاحیت کے خاتمے کے علاوہ کچھ اور نکلنا ممکن ہی نہیں ہے۔ (Arendt، 1970)

بعض ماہرین فینون کی تشدد کی حمایت کا موازنہ استعماریت کے خلاف ہندوستان میں کامیاب جدوجہد کرنے والے موہن داس گاندھی سے کرتے ہیں۔ گو یہ موازنہ انتہائی پیچیدہ ہے مگر ہندوستان کی آزادی کے 74 اور الجیریا کی آزادی کے 59سال بعد یہ موازنہ کرنا شاید آج آسان ہو۔ ایک خطے کی مخصوص سیاسی صورت حال میں جدوجہد کرنے والے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں، اس کا انحصار اس کی تاریخ میں کامیاب اور ناکام سیاسی اورعسکری تحریکوں پر بھی ہوتا ہے

الجیریا پر فرانس نے 1830ء میں قبضہ کیا تھا۔ جس کے فوراً بعد فرانس کے خلاف فوجی مزاحمت کا آغاز ہو گیا تھا۔ امیر عبد القادر الجزائری (1808ء۔ 1883ء) وحدت الوجودی سلسلے سے تعلق رکھنے والے ایک صوفی تھے جنھوں نے عوام کی کامیاب سیاسی اور فوجی قیادت کی۔ تاہم ان کی یہ مہم آخرکار ناکامی سے دوچار ہوئی۔ مذاکرات کے نام پر ان کو دھوکے سے قید کر کے بالآخر شام پہنچا دیا گیا جہاں ان کی وفات ہوئی۔ مگر ایک تو انھوں نے ابتدائی طور پر نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، متفرق قبائل کو متحد کیا۔ فرانسیسی فوج کو کئی مواقع پر بدترین شکست سے دوچار کیا۔ دوسرے ان کی اس تحریک نے الجیریا کی مزاحمت کی نوعیت کا رخ ابتدا ہی میں متعین کر دیا تھا۔ امریکی محقق فوزی سلسلی (2008ء) کے مطابق امیر عبدالقادراور اس طرح کے دیگر مجاہدین کی مسلسل انتھک اور کامیاب مزاحمت کے فینون کے بالخصوص تشددکے بارے میں اس کے خیالات پر اثرات کا جائزہ لینا بہت اہم ہے

الجیریا کے برعکس ہندوستان میں استعمار کے خلاف فوجی مہم نہ تو منظم تھی نہ طویل اور نہ کامیاب۔ 1857ء کی جنگ آزادی بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی۔ جان مال اور اقتدار کے ضیاع کے علاوہ اس سے اور کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ دوسرے الجیریا کے برعکس ہندوستان میں وہ سماجی ہم آہنگی بھی نہیں تھی جو ایک منظم فوجی مہم جوئی کے لیے عموماً درکار ہوتی ہے۔ جنگ آزادی میں شکست کی بنیادی وجوہات میں سے ایک یہ وجہ بھی تھی۔ ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی قوموں کے مختلف دھڑے استعمار سے نجات کے لیے مختلف نقطۂ نظر اور حکمت عملی کے قائل تھے۔ ایسے میں گاندھی جیسے رہنماؤں کے پاس عدم تشدد کے فلسفے کے کچھ اور باقی بھی نہیں بچتا تھا۔ تیسری شاید سب سے اہم بات۔ گو الجیریا کی آزادی مسلح جدوجہد اور ہندوستان کی آزادی عدم تشدد کے نتیجے میں حاصل ہوئی مگر نصف صدی سے زائد گزر جانے کے بعد تشدد کی صورت حال دونوں ممالک میں قابل غور، لائق توجہ اور باعث تشویش ہے

فینون کی تجویز کردہ تشدد کی پالیسی کو 1962ء میں ملنے والی آزادی کے بعد ترک کر دیا جانا چاہیے تھا۔ مگر آزادی کی لڑائی لڑنے والی ایف ایل این1980ء کی دہائی میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں اسی طرح شریک تھی جس طرح وہ فرانسیسی استعمار کے خلاف لڑ رہی تھی۔ گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے پر بننے والے آزاد ہندوستان میں 1946ء میں کلکتہ میں ہونے والی خوں ریزی، 1947ء میں پنجاب میں ہونے والے فسادات، خود گاندھی جی کا قتل اور آج کے ہندوستان میں مسلح جتھوں کی کارروائیاں اس عدم تشدد کی پالیسی کی نفی کرتی نظر آتی ہیں جس کا گاندھی جی پرچار کرتے رہے۔ اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے شاید یہ کہنا مناسب ہو کہ استعماریت ایک غالب بیانیہ تشکیل دیتی ہے۔ یہ بیانیہ اثر انگیزی، قبولیت، اور زندگی کی طوالت کے حوالے سے محکوموں کے بیانیے پر بھاری ہوتا ہے۔ فینون نے تشدد کی جس صورت کو ترک استعماریت کے لیے ضروری خیال کیا تھا استعمار نے بیس سال کے اندر اندر اسی تشدد کا رخ الجیریا کی عوام کی جانب موڑ دیا۔ الجیریا میں مختلف گروہ اسی تشدد کا نشانہ دوسرے گروہوں کو بنا رہے ہیں۔ ایسا ہی ہندوستان اور پاکستان میں ہوا۔ 11 ستمبر 2001ء کے بعد عالمی استعمار کے خلاف مسلمانوں کی تشدد کی حکمت عملی کا انجام بھی یہی ہوا۔ یہ ساری تحریک استعمار کی بجائے محکوموں کی اپنی تباہی اور بربادی پر منتج ہوئیں۔ یہاں یہ بات کہے بغیر چارہ نہیں ہے کہ محکومین کے مختلف گروہ چاہے انھوں نے آزادی مسلح جدوجہد ( تشدد) کے ذریعے حاصل کی ہو یا عدم تشدد کے فلسفے پر عمل پیرا ہو کر، آزادی کے بعد یکساں طور پر مائل بہ تشدد نظر آتے ہیں۔ یہ سارے گروہ اپنی صفوں میں موجود تشدد کے پیچھے استعمار کی عمل گزاری کو بالعموم دیکھنے سے قاصر رہے ہیں۔ استعماریت کی بنیاد میں چھپا تشدد فینون نے کمال مہارت سے واضح کیا ہے۔ الجیریا کی آزادی کے لیے ایک حکمت عملی کے طور پر بھی اس کی بات درست ثابت ہوئی لیکن طاقت جس طرح انسانی صلاحیت کو تباہ کرتی ہے ایک وسیع تناظر میں آرینڈٹ کی فکر کے درست ہونے کے ثبوت ہمارے آس پاس بکھرے ہوئے ہیں۔ (جاری ہے)

بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)


  1. فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (1)

  2. فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (6)


 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close