دو ہفتے قبل اسرائیل کے ماہرین آثار قدیمہ نے دعویٰ کیا کہ انہیں وادیِ اردن میں کھدائی کے دوران سات ہزار سال قدیم ایسی کپاس ملی ہے، جس کا تعلق سندھ کی ایک وادی سے ہے
حیفہ یونیورسٹی سے منسلک محقق پروفیسر ڈینی روزن برگ کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں اس سے پہلے کپاس کی موجودگی کے کوئی شواہد نہیں پائے جاتے تھے، کیونکہ یہاں کپاس کی جگہ پودوں اور درختوں کے مواد سے کپڑا بنایا جاتا تھا
ان کے بقول پھر اس کے ہزاروں سال بعد جانوروں کی اون سے کپڑا بنایا جانے لگا کیونکہ یہ لوگ کپاس سے آشنا نہیں تھے
انہوں نے کہا کہ یہ کپاس اس وقت صرف وادیِ سندھ میں کاشت ہوتی تھی، جو آج کل پاکستان میں ہے۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ وادیِ اردن اور وادیِ سندھ کے آپس میں تجارتی تعلقات قائم تھے
جس مقام پر ماہرین قدیمہ کو یہ دریافت ملی، اس جگہ کا نام ’تل تصف‘ ہے، جو دریائے اردن کے ساتھ 4700 سے 5200 قبل مسیح کا شہر بتایا جاتا ہے
اس سے قبل ماہرین یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ وادیِ سندھ کے قدیم ترین شہروں مہر گڑھ، موئن جودڑو اور ہڑپہ کے تجارتی روابط میسو پوٹامیہ کے ساتھ تھے، جو اس وقت عراق، شام اور اردن کے علاقوں پر مشتمل تھی
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق مہر گڑھ 5500 سے 7000 جبکہ موئن جو دڑو 4500 سال پہلے کا شہر ہے، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ ماہرین کو اسرائیل میں وادیِ سندھ کے ساتھ تجارتی تعلقات کے عملی شواہد ملے ہیں
اس دریافت کے بعد ایک بار پھر ماہرین یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک ساتھی سینٹ تھامس واقعی ٹیکسلا آئے تھے کیونکہ کئی ماہرین اسے مفروضہ ہی خیال کرتے رہے ہیں
کیتھڈرل ہائر سکینڈری اسکول لاہور کے پرنسپل اور بشپ آف حیدر آباد ایس کے داس نے اپنی کتاب ’تاریخ کلیسائے پاکستان‘ میں سینٹ تھامس کے ٹیکسلا آنے کا واقعہ بڑی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، جبکہ اس سے قبل یہ داستان ٹیکسلا کی اساطیری روایات میں بھی ملتی ہے
واضح رہے کہ سینٹ تھامس کو بائبل میں ’توام‘ کہا گیا ہے جو بیتِ صیدا کے باشندے تھے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے بڑھئی اور اس دور کے نامور ماہر تعمیرات تھے۔ ایک روز وہ جھیل کنارے جا رہے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا گزر وہاں سے ہوا۔ پیغمبرِ خدا علیہ السلام نے سینٹ تھامس کو دعوتِ حق دی اور فرمایا کہ میں ’تجھے آدم گیر بناؤں گا‘
سینٹ تھامس خوشی سے نہال ہو گئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے مختلف حواریوں کو تبلیغی مشن پر دنیا بھر میں بھیجا۔ سینٹ تھامس کے حصے میں ہندوستان آیا
سینٹ تھامس کیسے ہندوستان آئے، اس حوالے سے مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں، لیکن انیس بیس کے فرق کے ساتھ وہ تقریباً ایک ہی جیسی ہیں
ان دنوں ٹیکسلا کے حکمران راجہ گونڈو فارس تھے، جن کی سلطنت کابل اور قندھار تک پھیلی ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنی راج دہانی ٹیکسلا کے شہر سرکپ میں ایک عالی شان محل بنانے کی خواہش کی اور اپنے ایک تاجر، جس کا نام ہین تھا، کو یہ مشن دیا کہ وہ یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس) سے ایک ماہر کاریگر لے کر آئیں، جو فنِ تعمیر میں یکتا ہو کیونکہ اس زمانے میں میسو پوٹامیہ کو تعمیرات میں ایک اہم مقام حاصل تھا
روایت کے مطابق یہ تاجر یہاں غلامی کے بازار میں پہنچے تو ان کی ملاقات حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہوئی، انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا تو حضرت عیسیٰ نے ہندوستانی تاجر کو اشارہ کیا کہ اس کام کے لیے سینٹ تھامس ہی موزوں ترین ہیں۔
بعض روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سینٹ تھامس کو ہندوستانی تاجر کے ہاتھ فروخت کر دیا
دوسری جانب سینٹ تھامس کو خوشی ہوئی کہ ان کی دلی مراد پوری ہونے والی ہے کیونکہ وہ پہلے ہی ہندوستان پہنچنے کی سبیل ڈھونڈ رہے تھے۔ یوں وہ ہندوستانی تاجر کے ساتھ اسکندریہ کی بندرگاہ سے سوار ہوئے
ان دنوں ہندوستانی مصنوعات سیاہ مرچ، سوتی کپڑا، مصالحے اور ہیرے جواہرات کی سلطنت روم میں بڑی مانگ تھی اور اکثر تجارت اسکندریہ سے ہوتی تھی
روایات ہیں کہ سینٹ تھامس بھی اسی راستے سے پہلے عدن پہنچے، پھر سقوطرہ (یمن) سے سندھ ندی پہنچے اور اٹک میں موجود دریائی بندرگاہ پر اترے۔ غالب امکان ہے کہ یہ بندرگاہ مکھڈ میں تھی، جو کالا باغ سے بیس کلومیٹر اوپر کی جانب واقع ہے۔ یہی بندرگاہ ٹیکسلا کو اس وقت باقی دنیا سے ملاتی تھی اور کپڑا بننے والی کھڈیوں کے حوالے سے مشہور تھی (آج بھی یہاں کے پراچے پاکستان اور بھارت میں کئی بڑی ٹیکسٹائل ملوں کے مالک ہیں)۔
راویت کے مطابق سینٹ تھامس مکھڈ سے ٹیکسلا پہنچے۔ سرکپ سے ملنے والے سکوں کے مطابق گونڈو فارس کا عہد بارہ قبل مسیح سے 130 قبل مسیح کا ہے، اس لیے امکان ہے کہ سینٹ تھامس 48 قبل مسیح میں ٹیکسلا پہنچے
کہا جاتا ہے کہ ان دنوں ٹیکسلا میں کچھ یہودی تاجر بھی قیام پذیر تھے جنہیں حضرت عیسیٰ کی نبوت کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ سینٹ تھامس کو جب پتہ چلا تو وہ ان سے ملنے گئے اور انہیں پیغمبرِ خدا علیہ السلام کا پیغام پہنچایا اور بتایا کہ وہ ان کے بارہ خصوصی حامیوں میں سے ہیں
سینٹ تھامس کو پہلے ٹیکسلا کی سیر کروائی گئی اور اس کے بعد گونڈو فارس نے ان سے محل کی تعمیر کی بابت ملاقات کی اور کہا کہ وہ ایک ایسا محل تعمیر کریں جس کی مثال کہیں اور نہ ہو۔ جس پر انہوں نے گونڈو فارس سے ایک خطیر رقم معاوضے کے طور پر طلب کی جس پر بادشاہ نے آمادگی ظاہر کر دی
سینٹ تھامس کو ایڈوانس کے طور پر جو رقم دی گئی، انہوں نے وہ رقم بادشاہ سے ملنے کے بعد محل کے باہر موجود بھکاریوں میں تقسیم کر دی
بادشاہ کو جب معلوم ہوا تو وہ بہت غصے میں آیا۔ اس نے سینٹ تھامس کو سزائے موت سناتے ہوئے عقوبت خانے میں ڈال دیا۔ رات کو بادشاہ کے بھائی جس کا نام جاوا تھا، نے ایک خواب دیکھا کہ جنت میں ایک بہت ہی خوبصورت محل ہے، جب اس نے پوچھا کہ یہ کس کا ہے؟ تو اسے بتایا گیا کہ یہ گونڈوفارس کا محل ہے جو اسے سینٹ تھامس نے بنا کر دیا ہے
جاوا نے صبح اٹھتے ہی یہ خواب بادشاہ کو سنایا، جس پر بادشاہ نے نہ صرف سینٹ تھامس کو رہا کر دیا بلکہ ان سے ان کے اعتقادات اور ان کے پیغمبر کے بارے میں دریافت کیا
روایات کے مطابق گونڈوفارس نے مسیحیت قبول کر لی اور ان کے دربار اور رعایا کے بہت سارے لوگ جو پہلے زُرتشت مذہب کے پجاری تھے، وہ بھی مسیحی بن گئے
بشپ ولیب جی ینگ نے اپنی کتاب ’رسولوں کے نقش قدم پر‘ میں لکھا ہے کہ بادشاہ کا بھائی جاوا مر گیا تھا اور جب وہ آسمانوں پر اٹھایا گیا تو اس نے وہاں ایک محل دیکھا، جب اس نے وہاں جانا چاہا تو اسے روک دیا گیا کہ یہ محل گونڈوفارس کا ہے جو سینٹ تھامس نے اس کے لیے بنایا ہے
جاوا نے کہا کہ اسے زمین پر دوبارہ بھیجا جائے تاکہ وہ اپنے لیے بھی سینٹ تھامس سے ایک محل بنوائے، یوں وہ دوبارہ زندہ ہوا تو اس نے یہ واقعہ بادشاہ کو سنایا، جس پر بادشاہ اپنے کیے پر بہت پشیمان ہوا اور سینٹ تھامس کو عزت و تکریم کے ساتھ رہا کیا اور ان کے ہاتھ پر مسیحیت قبول کر لی
سینٹ تھامس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ٹیکسلا کے بعد وہ تبلیغ کے لیے مالا بار چلے گئے اور پھر مدراس میں انہیں قتل کردیا گیا
گونڈو فارس نے جو محل بنایا وہ آج بھی سرکپ شہر میں موجود ہے، جہاں دنیا بھر سے سینٹ تھامس کے ماننے والے آتے ہیں اور یہاں موم بتیاں جلا کر اپنی عبادات کرتے ہیں
حیرت کی بات ہے کہ سینٹ تھامس اور گونڈو فارس سے ملتا جلتا ایک واقعہ اسلامی تاریخ میں بھی ملتا ہے، جو ٹیکسلا کے واقعے کے ساڑھے سات سو سال بعد عباسی خلیفہ ہارون الرشید (786-809) کے دور میں پیش آیا
روایت کے مطابق جب دریائے دجلہ کے کنارے ایک مجذوب بہلول دانا، بچوں کے ساتھ مل کر ریت کے گھروندے بنا رہے ہوتے ہیں تو یہاں سے بادشاہ کی سواری کا گزر ہوتا ہے۔ ملکہ زبیدہ بہلول کے پاس رک جاتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ بہلول کیا بنا رہے ہو؟ بہلول بتاتے ہیں کہ جنت میں گھر بنا رہا ہوں، آپ نے خریدنا ہے؟
ملکہ فرماتی ہیں کہ کتنے کا ہے؟ بہلول کہتے ہیں: چالیس درہم۔ ملکہ زبیدہ اسی وقت بہلول کو یہ رقم دیتی ہیں اور بہلول یہ رقم بچوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ خلیفہ ہارون الرشید ملکہ کا مذاق اڑاتے ہیں کہ ریت کا گھروندہ چالیس درہم میں خرید لیا۔ رات کو وہ خواب دیکھتے ہیں کہ جنت میں ایک بہت خوبصورت محل ہے۔ وہ محل کے دربان سے پوچھتے ہیں کہ یہ کس کا ہے؟ تو دربان بتاتا ہے کہ یہ ملکہ زبیدہ کا ہے جو کل انہوں نے بہلول سے چالیس درہم میں خریدا تھا۔ صبح اٹھتے ہی وہ اسی جگہ پر جا کر بہلول کو چالیس درہم سے زیادہ کی رقم ادا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک گھر مجھے بھی دے دو
بہلول فرماتے ہیں کہ ’یہ عشق کے سودے ہیں جو بغیر دیکھے ہوتے ہیں۔‘
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ مکہ اور مدینہ میں اسلام کے احیا کے تقریباً سو سال بعد اس وقت یہ پیغام ہندوستان پہنچا، جب محمد بن قاسم 712 میں سندھ پر حملہ آور ہوئے، لیکن اس کے بعد پھر اگلے تین سو سال محمود غزنوی کے حملوں تک ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ کے آثار نہیں ملتے
دوسری جانب آج سے کم و بیش دو ہزار سال پہلے سینٹ تھامس یروشلم سے ہندوستان پہنچ جاتے ہیں اور آج ماہرین آثار قدیمہ بھی سات ہزار سال پہلے وادی اردن اور وادیِ سندھ کے درمیان تجارتی روابط کے شواہد منظر عام پر لے آتے ہیں
بہرحال یہ سوال بھی اہم ہے کہ ہندوستان جیسے اہم خطے کو طویل عرصے تک مسلم مبلغین نے کیوں نظرانداز کیے رکھا؟
(نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں سجاد اظہر کی انڈپینڈنٹ میں شائع تحریر اور نیوز ایجنسیوں کی رپورٹس سے مدد لی گئی ہے۔)