اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کی گاڑی کو بلااجازت استعمال کرنے پر اس کے گھر کے ملازم کو جبری ریٹائر کر دیا گیا ہے
جبری طور پر ریٹائر کیے جانے والا گریڈ ٹو کا ملازم محمد اسحاق اسلام آباد ہائی کورٹ کی جج جسٹس ثمن رفعت امتیاز کے گھر میں بطور ویٹر کام کر رہا تھا
محمد اسحاق پر الزام تھا کہ انہوں نے مذکورہ جج کی گاڑی ان کی اجازت کے بغیر نہ صرف استعمال کی بلکہ اس گاڑی کو ایک سو کلومیٹر سے زائد چلا لیا، جس کی وجہ سے پیٹرول استعمال ہوا اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچا
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار نے ویٹر محمد اسحاق کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں جبری طور پر ریٹائر کرنے کا حکم دیا تھا، جبکہ محمد اسحاق نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایڈمن جج جسٹس محسن اختر کیانی کی عدالت میں اس حکم کے خلاف اپیل دائر کر رکھی تھی
محمد اسحاق نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ چونکہ ان کی بیٹی بیمار تھی اور ان کو علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا تھا اور ان کے پاس اس وقت نہ کوئی ذاتی سواری تھی اور نہ ہی وہ کسی سواری کا انتظام کر سکتے تھے، اس لیے انہوں نے جج کی گاڑی کو استعمال کیا
اس معاملے کی انکوائری کا حکم دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار نے محمد اسحاق کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا، جس کا محمد اسحاق نے جواب دینے کے بجائے اس نوٹس کو چیلنج کر دیا
اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس کے حکام نے ان حالات کو دیکھتے ہوئے محمد اسحاق، جن کو سروس میں چودہ سال ہو گئے تھے، کو جبری ریٹائر کرنے کا فیصلہ کیا
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار کی طرف سے عدالت میں جو ریکارڈ جمع کروایا گیا، اس کے مطابق گزشتہ دس برس کے دوران محمد اسحاق اس سے پہلے بھی چار مرتبہ مس کنڈکٹ کے مرتکب پائے گئے ہیں
جن میں ایک مرتبہ وہ تین دن بغیر بتائے چھٹی پر چلے گئے جبکہ دوسری مرتبہ انہیں ججز ریسٹ ہاوس پر تعینات کیا گیا تو وہاں سے بھی بتائے بغیر چھٹی پر چلے گئے
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایڈمن جج جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اپیل کی سماعت کے دوران محمد اسحاق نے تسلیم کیا کہ انہوں نے گاڑی جج کی اجازت کے بغیر استعمال کی
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ”محمد اسحاق جس عہدے پر کام کر رہے تھے، ان کا یہ عہدہ تو انھیں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں دیتا“
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے ”ملازم کی اس حرکت سے متوقع خطرناک نتائج کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا“
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ رجسٹرار آفس نے ملازم کو جبری ریٹائر کر کے پینشن دینے کا فیصلہ دیا، اس لیے رجسٹرار ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ملازم محمد اسحاق کی اپیل خارج کی جاتی ہے۔