ابراہیم حیدری کا شمار کراچی کے مضافات میں ہوتا ہے اور یہاں کے مقامی لوگوں کا بنیادی پیشہ ماہی گیری ہے۔ لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے، جو سہولیات کی کمی کے باعث کچرا چننے پر مجبور ہے
ابراہیم حیدری میں ساحلِ سمندر پر ایک خاتون کچرے کے ڈھیر میں سے لوہا چُن کر ایک ٹوکری میں رکھ رہی ہیں، ساتھ ہی بیٹھا اُن کا کم عمر بچہ رو رہا ہے
بظاہر دیکھنے میں یہ عام سا کچرا لگتا ہے، مگر یہ ’الیکٹرانک کچرا‘ یا پھر ای ویسٹ ہے، جو ناکارہ ہونے کے باعث سمندر کے پاس پھینک دیا جاتا ہے۔ اس سے بہت سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ اس خاتون کو بھی امید ہے کہ اِسی کچرے کے ڈھیر سے انہیں کوئی استعمال شدہ فون بھی مل سکتا ہے
اس لوہے کو چُن کر کباڑی مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے، جہاں سے پراسیسنگ کے بعد یہ استعمال شدہ موبائل فون اور لیپ ٹاپ کی مشینری میں لگنے کے کام آتا ہے۔ اسی طرح اس کچرے سے بعض اوقات ملنے والے استعمال شدہ موبائل فونز کو صفائی کے بعد کباڑی مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے، جس کے عوض پندرہ سولہ سو روپے تک مل جاتے ہیں
ابراہیم حیدری میں اس کچرے کے ساتھ کیا ہوتا ہے یہ آگے چل کر پڑھیں گے، مگر اس سے پہلے سوال یہ ہے کہ یہ ’الیکٹرانک کچرا‘ سمندر کے کنارے کیسے پہنچتا ہے اور پاکستان میں اس کا کاروبار کیسے چلتا ہے؟
رواں سال جولائی میں پاکستان کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی نے اپنے ایک اجلاس میں رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ کے مطابق برطانیہ سے چالیس ہزار ٹن کچرا پاکستان پہنچتا ہے، جبکہ پچیس ہزار ٹن کچرا ایران سے آتا ہے اور اسے ’امپورٹڈ کچرا‘ کہا جاتا ہے
تاہم پاکستان کے پاس عام اور خطرناک خیال کیے جانے والے کچرے جیسا کہ الیکٹرانک سامان اور ہسپتالوں سے آنے والے کچرے کو علیحدہ کرنے کا نظام موجود نہیں ہے
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019ع میں کچرے کے چھ سو چوبیس کنٹیرز کراچی کے سمندر میں پھینکے گئے تھے
اس امپورٹڈ کچرے کو ری سائیکل کرنے کے لیے کراچی، لاہور، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ بھیجا جاتا ہے، جہاں پر اس کچرے سے سونا، لوہا، تانبہ اور دیگر قیمتی دھاتیں علیحدہ کی جاتی ہیں
امپورٹڈ کچرے کی مارکیٹ
دیکھنے میں یہ جگہ کسی کوڑے دان سے کم نہیں لگتی، لیکن آپ کو سُن کر حیرانی ہو گی کہ اسی جگہ پر ہر ماہ کروڑوں کا کاروبار ہوتا ہے اور وہ بھی کچرے کی خرید و فروخت کے ذریعے
یہ کراچی کی شیر شاہ کباڑی مارکیٹ ہے، جہاں ہر روز کنٹینرز ’امپورٹڈ کچرے‘ کو لا کر مختلف دکانوں پر مشتمل کمپاؤنڈز میں کھولتے ہیں۔ اس سامان میں ایسا کچھ نہیں، جو کام کا نہ ہو۔ چاہے وہ استعمال شدہ موبائل فون ہوں یا پھر لیپ ٹاپ، یا آئی پیڈ، یا پھر اس میں استعمال ہونے والی گولڈن چِپ، ہر چیز استعمال کے اور بیچنے کے قابل ہوتی ہے۔ اور جو چیز بالکل قابلِ استعمال نہیں رہتی، اسے مزید توڑ پھوڑ کے بعد سمندر کنارے پھینک دیا جاتا ہے
ڈجیٹل زمانے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شیر شاہ کباڑی مارکیٹ کے دکانداروں نے بھی امپورٹڈ سامان کی تشہیر سوشل میڈیا جیسا کہ یوٹیوب وغیرہ پر بھی شروع کر رکھی ہے۔ شیر شاہ کباڑی مارکیٹ میں کھڑے ایک خریدار کے موبائل فون سے ایسی ہی ایک تشہیر کی آ آواز آ رہی تھی ”برطانیہ کا آئی فون صرف بیس ہزار روپے میں، اَن لاک لے لو۔ اگر وہ نہیں تو کورین کمبل لے لو“
مارکیٹ کے ایک دکاندار نے بتایا کہ وہ سارا سامان کوئٹہ سے لاتے ہیں، لیکن شیر شاہ کباڑی مارکیٹ میں امپورٹڈ کچرے کے ٹرک سے بھی بہت سامان مل جاتا ہے۔ ”یہ فیوجی فِلم کیمرہ ہے اور میری ضرورت کا ہے۔ تو ہوتا یہ ہے کہ ہر دکاندار آنے والے کنٹینر سے اپنی مرضی کا سامان چُن کر اس کی بولی لگاتا ہے۔ یہ بولی پانچ ہزار سے پچاس ہزار کے درمیان لگتی ہے۔ خریدنے کے بعد اسے ہم لوگوں کو بیچتے ہیں“
اسی دکان پر صدر بازار سے آئے ایک اور دکاندار بھی موجود تھے۔ انہوں نے بتایا ”میں پہلی بار یہاں آیا ہوں۔ اور آنے کی وجہ یہی ہے کہ الیکٹرانکس کا سامان جو ویسے بہت مہنگا ملتا ہے، یہاں سستا مل جاتا ہے اور اب اس کی ڈیمانڈ بھی بہت ہے“
ایک خریدار نے بتایا ”میں شیر شاہ اپنے بچوں کے لیے استعمال شدہ آئی پیڈ خریدنے آتا ہوں۔ میرا کام ہی یہی ہے آج کل۔۔ پرانے یا استعمال شدہ آئٹم بچوں کے لیے بہتر رہتے ہیں اور کم قیمت میں بھی مل جاتے ہیں۔ میں نے یوٹیوب پر دیکھنے کے بعد یہاں آنے کا سوچا ورنہ آپ کو پتا ہے کہ شیر شاہ تک آنے کے لیے پورا دن نکالنا پڑتا ہے“
ان یوٹیوب اشتہارات کے نیچے ان دکانداروں کے واٹس ایپ نمبرز موجود ہوتے ہیں، جس پر خریدار اس سامان کی تصاویر اور مول تول فون پر کر کے پھر کباڑی مارکیٹ کا رُخ کرتے ہیں
اس امپورٹڈ کچرے کے پاکستان پہنچنے کی بھی ایک اپنی ہی کہانی ہے۔ یورپ، برطانیہ، متحدہ عرب امارات، ایران اور سعودی عرب سے پورٹ کے ذریعے آنے والے اس سامان کو پاکستان پہنچانے کے لیے پاکستان کی حکومت سے این او سی لی جاتی ہے۔ جس کے بعد یہ سامان کراچی کے انٹرنیشنل ٹرمنِل پورٹ پر پہنچتا ہے
ٹرمِنل سے کنٹیرز کے ذریعے یہ سامان شیرشاہ کباڑی مارکیٹ اور پھر وہاں سے شہر کے مختلف کونوں میں بنے بازاروں تک پہنچتا ہے۔
اب ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ یہ این او سی کون جاری کرتا ہے؟
سینیٹ قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی کے جوائنٹ سیکریٹری سید مجتبٰی حسین نے قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کو رواں سال جولائی میں بتایا تھا ”2021ع میں چالیس این او سی ’پرائیوٹ پارٹیوں‘ کو جاری کیے گئے تھے تاکہ وہ پاکستان میں اپنا الیکٹرانک کچرا پھینک سکیں“
ان کے مطابق ”اس تمام تر کچرے کے پاکستان آنے سے پہلے این او سی تمام تر ریویو ہونے کے بعد دی جاتی ہے۔ اور یہ بھی کہ موسمیاتی تبدیلی کی وزارت صوبائی ماحولیاتی اداروں پر انحصار کرتی ہے تاکہ این او سی جاری کرنے سے پہلے وہ کچرے کی جانچ کر سکیں۔ قائمہ کمیٹی کو جن ممالک کی پاکستان میں کچرا پھینکنے سے متعلق نشاندہی کی گئی تھی، ان میں امریکہ، بیلجیئم، اسپین، جرمنی، کینیڈا اور اٹلی شامل ہیں“
سینئیر جوائنٹ سیکریٹری سید مجتبیٰ حسین کا کہنا ہے ’2022ع میں ہم نے نیشنل ہیزرڈییس ویسٹ مینجمنٹ پالیسی بنائی ہے، جس کے تحت ہر اس کچرے پر نظر رکھی جائے گی، جو پاکستان کی بندرگاہوں کے ذریعے پاکستان پہنچایا جاتا ہے۔ جب قومی سطح پر یہ کام مکمل ہو جائے گا، تب اس تمام تر کچرے کی آمد کے طریقہ کار کو ریگولیٹ کر دیا جائے گا“
اس حوالے سے وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان بتاتی ہیں ”ہم اب بلا جواز این او سی جاری نہیں کر رہے اور اب سے جن صوبوں میں یہ کچرا پہنچے گا، ان کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ اسے ری سائیکل کریں۔ ویسے بھی نئی پالیسی کے مطابق ہیزرڈئیس ویسٹ (ضرر رساں کچرے) پر اب مکمل پابندی لگ چکی ہے“
ابراہیم حیدری اور امپورٹڈ کچرا
ابراہیم حیدری میں موجود خاندانوں میں سے چند کا کام ہی ساحل کے پاس پہنچنے والے کچرے میں سے لوہا اور تانبہ ڈھونڈنا ہے، جس کے ذریعے ان کا گھر چلتا ہے
لوگوں کا کہنا ہے کہ علاقے میں جِلد کی بیماریاں پھیل چکی ہیں۔ جن میں چہرے، ہاتھوں اور پیروں پر لال نشان ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی جلد پھٹ جاتی ہے یا پھر خارش کی وجہ سے نشان رہ جاتے ہیں
ان میں سے ایک محمد کاظم نے بتایا ”میرے گھر کا خرچہ اسی کچرے کو جمع کرنے سے چلتا ہے اور یہاں ہسپتال نہ ہونے کی وجہ سے بیماریوں کی وجہ سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے“
کچرے کے ڈھیر سے لوہا ڈھونڈ کر نکالنے والی نجمہ خاتون نے اپنے بیٹے کے پاؤں پر ہونے والے زخم دکھاتے ہوئے کہا ”میں اپنے بچپن سے یہی کام کرتی آئی ہوں اور اب بچوں کو ساتھ لے جا کر سکھا رہی ہوں تاکہ انہیں سمجھ آئے کہ انہیں بھی یہی کام کرنا ہے۔ ہمارا اس کے علاوہ گزارا نہیں ہے۔ جو آپ کے لیے کچرا ہے، وہ میرے لیے بہت قیمتی ہے“