ہمدردی کی علامت بننے والی نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم اقتدار کیوں چھوڑ رہی ہیں

ویب ڈیسک

پندرہ مارچ 2019 نیوزی لینڈ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا جب ایک سفید فام نسل پرست نے کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں 51 افراد کو بے دردی سے گولیوں سے بھون ڈالا تھا

اس دن نیوزی لینڈ سمیت دنیا بھر میں بلا تفریقِ رنگ و نسل ہر آنکھ اشکبار تھی۔ لیکن اسی سیاہ ترین دن ایک چہرہ دنیا کے سامنے ہمدردی کی تصویر بن کر سامنے آیا۔ وہ چہرہ تھا جیسنڈا آرڈرن کا

کرائسٹ چرچ میں دل پر زخم کھانے والوں کے لیے جیسنڈا اشکبار آنکھوں کے ساتھ مرہم رکھنے پہنچیں تو دنیا بھر میں انہیں ایک دردمند حکمران کے طور پر احترام ملا۔ جب انہوں نے نفرت انگیزی، نسلی منافرت اور انسانی جان کی بے توقیری کے ہر تصور سے غیر مشروط بیزاری کا اظہار کیا تو دنیا نے ان کے اس دوٹوک مؤقف کو قابلِ تقلید مثال تسلیم کیا

آج جیسنڈا کی آنکھوں میں پھر آنسو ہیں۔ ان کی پذیرائی کرنے والے لوگوں کے لیے تشکر کے آنسو! کیوں کہ ساڑھے پانچ برس کے عرصے کے دوران کرائسٹ چرچ جیسے سانحے اور کرونا جیسے بحران سے نمٹنے والی یہ وزیرِ اعظم اپنے منصب سے سبکدوشی کا اعلان کر چکی ہیں

یہ اعلان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’’میں اس عہدے کے اپنے چھٹے برس میں داخل ہو چکی ہوں اور ان تمام برسوں کے دوران جو کچھ میرے پاس تھا، سب میں نے اس ذمے داری کے لیے وقف کر دیا‘‘

نیوزی لینڈ کے شہر نیپئر میں یہ کہتے ہوئے جیسنڈا آرڈرن آبدیدہ ہوگئیں کہ سات فروری بطور وزیرِ اعظم ان کا آخری دن ہوگا

جیسنڈا آرڈرن 2017 میں پہلی بار دنیا بھر کی خواتین کے لیے ایک حوصلہ افزا مثال کے طور پر سامنے آئی تھیں، جب انہوں نے محض سینتیس برس کی عمر میں انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی

جیسنڈا آرڈرن جب سنہ 2017 میں سینتیس سال کی عمر میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں تھیں تو اس وقت وہ دنیا کی سب سے کم عمر خاتون سربراہ حکومت بنی تھیں

انہیں جدید نسل سے ابھرنے والی قیادت کی نمایاں مثال قرار دیا گیا۔ وہ پارٹ ٹائم ڈی جے کے طور پر بھی مشہور ہوئیں۔ روایتی سیاسی رہنماؤں کی طرح انہوں نے شادی نہیں کی۔ سن 2018ع میں وہ دنیا کی دوسری خاتون وزیر اعظم تھیں، جو اسی منصب پر رہتے ہوئے ماں بنیں۔ اس سے قبل یہ اعزاز پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کو حاصل تھا

ماں بننے کے بعد وہ اگلے برس اپنی شیر خوار بیٹی کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنے ساتھ لائیں۔سن 2019ع میں کرائسٹ چرچ کے سانحے پر جس طرح جیسنڈا نیوزی لینڈ کے مسلمانوں اور سانحے میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کے لیے سراپا ہمدردی بن کر سامنے آئیں، وہ اپنی مثال آپ تھا، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں انہیں سراہا گیا

کرائسٹ چرچ کے زخم ابھی تازہ تھے کہ نو ماہ بعد ہی نیوزی لینڈ کے وائٹ آئی لینڈ میں آتش فشاں پھٹنے سے بائیس غیر ملکی سیاحوں کی ہلاکت کا واقعہ پیش آ گیا

جیسنڈا ان چیلنجز کا سامنا کرتی رہیں اور پھر جب 2020ع میں دنیا کو کرونا وائرس کی وبا نے اپنی لپیٹ میں لیا، تو انہوں نے اپنے ملک میں وائرس کو داخل ہونے سے روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے۔ لیکن انہیں شدید دباؤ کے بعد اپنی پالیسیوں میں نرمی کرنا پڑیں اور اس دوران وائرس سے بچاؤ کی ویکسین بھی عام ہو گئی

جیسنڈا آرڈرن کو اپنے ملک میں کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے بنائے گئے کڑے قوانین اور ضوبط کی وجہ سے عوام کی برہمی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ گزشتہ برس ویکسین لگوانے کے حکومتی احکامات پر سختی سے عمل کرانے کے اقدامات کی وجہ سے پارلیمنٹ میں شروع ہونے والا احتجاج عوامی احتجاجی لہر میں تبدیل ہو گیا، جس میں پتھراؤ اور جلاؤ گھیراؤ تک نوبت جا پہنچی۔ رواں برس جیسنڈا آرڈرن کو ان مظاہروں کی وجہ سے اپنی سالانہ بار بی کیو پارٹی بھی منسوخ کرنا پڑی

گزشتہ ماہ جیسنڈا نے کرونا وائرس سے مقابلے کے لیے بنائی گئی حکومتی پالیسویں کا جائزہ لینے کے لیے رائل انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسنڈا آرڈرن کے خلاف پھیلنے والے غم و غصے کے محرکات میں صنفی امتیاز کے رویے کا کردار بھی ہے، تاہم ان کی حکومت کو اس بنا پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ بڑے آئیڈیاز تو لے کر آتی ہے لیکن ان پر عمل درآمد ناقص ہوتا ہے

جیسنڈا کے حامیوں کو یہ تشویش تھی کہ مکانات کی بڑھتی ہوئی طلب پوری کرنے اور غربت کی کمی کے لیے ان کے اقدامات خاطر خواہ نہیں ہیں، جبکہ حکومت کی جرائم اور معاشی مشکلات میں ناکامی مخالفین کی تنقید کا محور تھے

گائے کی ڈکاروں سے گرین گیس کے اخراج پر ’گائے ٹیکس‘ عائد کرنے کے مںصوبے کی وجہ سے جیسنڈا کی حکومت کو کسانوں کے احتجاج کا بھی سامنا کرنا پڑا

انہی وجوہات کی بنا پر آرڈرن کے لیے تیسری بار انتخابات جیتنا بہت مشکل ہوچکا تھا۔ ان کی قدرے دائیں بازو کی جماعت لیبر پارٹی نے 2020ع میں دوسری بار بھاری اکثریت سے الیکشن جیتا تھا۔ لیکن رائے عامہ کے حالیہ جائزوں میں ان کی جماعت کی مقبولیت میں کمی دیکھنے میں آئی

اس سیاسی صورتِ حال میں جب جیسنڈا آرڈرن نے اقتدار سے کنارہ کشی کا اعلان کیا تو یہ ان کے چاہنے والوں کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ انہوں نے اپنے فیصلے کے بارے میں بدھ کو بہت تفصیل سے بات کی

ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے اور یہ فیصلہ انہوں نے اس لیے نہیں کیا کہ یہ مشکل کام ہے۔ کسی ملک کو چلانا دنیا کا سب سے بڑا کام ہے، جس کی کوئی آرزو کر سکتا ہے لیکن یہ اتنا ہی بڑا چیلنج بھی ہے

انہوں نے کہا: ’’آپ یہ کام اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک آپ کا ٹینک ایندھن سے بھرا نہ ہو۔ ساتھ ہی آپ کو غیر متوقع چیلنجز کے لیے بھی کچھ بچا کر رکھنا پڑتا ہے۔ اب میرا ٹینک یہ کام کرنے کے لیے ناکافی ہے‘‘

انہوں نے کہا ”امن کے وقت میں اپنے ملک کی رہنمائی کرنا ایک چیز ہے، یہ ایک اور چیز ہے کہ بحرانوں کے دوران ملک کی رہنمائی کی جائے“

انہوں نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا ”مجھے امید تھی کہ میں اس چیز کی تلاش کر پاؤں گی، جو مجھے اپنا کام جاری رکھنے کی تحریک دے پائے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ اس صورتحال میں اپنا کام جاری رکھنے کا فیصلہ نیوزی لینڈ کی خدمت نہیں ہوگا“

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ اس فیصلے کے بعد اس کی ’اصل وجہ‘ پر بہت چہ مگوئیاں ہوں گی

ان کا کہنا تھا ”آپ کو اس فیصلے میں صرف یہ دل چسپ زاویہ نظر آئے گا کہ ان چھ برسوں میں کئی بڑے چیلنجز کا سامنا کرنے کے بعد بھی، آخر کار میں انسان ہوں۔ سیاستدان انسان ہی ہوتے ہیں۔ ہم، جب تک ممکن ہوتا ہے، اپنی بساط بھر کوشش کرتے ہیں لیکن پھر وقت آن پہنچتا ہے اور میرے لیے یہ وقت آ پہنچا ہے“

انہوں نے خاندان کے لیے زیادہ وقت نکالنے کو بھی اس فیصلے کے اسباب میں شامل کیا۔ ان کا کہنا تھا ”میری بیٹی اب اسکول جانے کی عمر کو پہنچ چکی ہے اور اس برس میں اپنے دیرینہ ساتھی کلارک گیفورڈ سے شادی بھی کرنے والی ہوں“

جیسنڈا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اکتوبر 2023 میں ہونے والے الیکشن تک اسمبلی کی رکن رہیں گی۔ ان کی سبک دوشی سے قبل ہی اتوار تک ان کی پارٹی نئے لیڈر کا انتخاب کر لے گی

نیوزی لینڈ کے اپوزیشن لیڈر کرسٹو فر لکسن کا کہنا تھا کہ آرڈرن دنیا کے اسٹیج پر نیوزی لینڈ کی توانا آواز رہیں گی

جیسنڈا آرڈرن کی اپنے ملک کے لیے خدمات کو سراہتے ہوئے آسٹریلیا کے وزیر اعظم نے انہیں طاقتور، دانشور اور ہمدردی سے بھرپور رہنما قرار دیا ہے۔ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انہوں نے لکھا ”جیسنڈا نیوزی لینڈ کا مؤقف دنیا کے سامنے لانے والی بے باک رہنما، بے شمار لوگوں کے لیے قابل تقلید مثال اور میرے لیے ایک بہترین دوست ثابت ہوئی ہیں“

جیسنڈا آرڈرن نے موسمیاتی تبدیلیوں،رہائش کے مسائل اور بچوں میں غربت میں کمی کے حوالے سے اپنے دور حکومت میں کیے جانے اقدامات کو اپنی حکومت کی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات ان کے اپنے لیے بھی قابل فخر ہیں

تاہم انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ”نیوزی لینڈ انھیں ہمیشہ ایک ایسی شخصیت کے طور پر یاد رکھے گا جو ہمیشہ اُن کے لیے مہربان ثابت ہوئی“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close