افغانستان: بچھوؤں کے زہر سے برص اور مرگی کے علاج کا دعوے دار شیرزاد، جن کے فارم میں 49 ہزار بچھو ہیں!

ویب ڈیسک

افغانستان کے صوبے پروان میں ایک خود ساختہ ہومیو ڈاکٹر حاجی محمد شیرزاد نے بچھوؤں کا ایک منفرد فارم بنا رکھا ہے، جس میں ان کے مطابق تین قسموں کے انچاس ہزار بچھو موجود ہیں

اکسٹھ سالہ ڈاکٹر محمد شیرزاد نے جب اس فارم کی شروعات کی تھی، تو ان کے پاس صرف پانچ سو بچھو تھے

خود ساختہ ہومیوپیتھک ڈاکٹر دعویٰ ہے کہ انہوں نے سانپ اور بچھو کے زہر کے استعمال سے کئی بیماریوں کا علاج دریافت کر لیا ہے

مرگی کے دوروں اور جلد کے امراض میں مبتلا سیکڑوں مریض اس کے کلینک پر آتے ہیں، جن کا علاج اس رینگنے والی مخلوقات کے ذریعے کیا جاتا ہے

محمد شیرزاد مرگی اور برص سے بیمار لوگوں کے علاج کے لیے قدرتی جڑی بوٹیوں کے ساتھ زہر ملاتے ہیں، جس کی وجہ سے جلد پر سفید، داغ دار دھبے پڑ جاتے ہیں

سانپ یا بچھو سے زہر نکالنا خطرناک کام نہیں تو نازک ضرور ہے لیکن تین دہائیوں سے زائد عرصے سے اس کام کو انجام دینے کے بعد شیرزاد اس مخلوق سے مانوس ہو چکے ہیں

"میں بہت خوش محسوس کرتا ہوں کیونکہ وہ (سانپ اور بچھو) میرے دوست ہیں۔ میں ان سے پیار کرتا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ میں ان کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔ ہم سانپوں اور بچھووں کے زہر کو مرگی کی بیماری اور جلد سے متعلق دیگر بیماریوں کی دوا بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں“ وہ کہتے ہیں

شیرزاد نے سانپ کو اپنی گود میں بٹھایا اور اس کے منہ سے زہر نچوڑ لیا

وہ اپنے بچھو کی دموں کے سروں سے زہر نکالنے کے لیے ایک سرنج کا استعمال کرتے ہے، جو ان کی پیٹھ پر گھمایا جاتا ہے

اس کے بعد وہ زہر پر عمل کرتے ہیں، نقصان دہ مادوں کو نکالنے کے لیے اسے پاک کرتے ہیں، اور پھر اسے پہاڑوں میں پائی جانے والی جڑی بوٹیوں کے ساتھ ملا دیتے ہیں

ڈاکٹر شیرزاد نے بتایا کہ بچھو دن بھر فارم کی پتھریلی زمین کے نیچے رہنے کے بعد رات کو نکلتے ہیں

ان بچھوؤں کی خوراک کے لیے وہ مزار شریف سے ایک خاص قسم کا کیڑا منگواتے ہیں۔ ایک کیڑا ایک بچھو کا دو دن کا کھانا ہوتا ہے، یوں وہ کل تیرہ کلو کیڑے ڈالتے ہیں

ڈاکٹر شیرزاد بتاتے ہیں ”بچھوؤں کی نسل بڑھانے کا ایک خاص موسم ہوتا ہے۔ اب تو سردی کا موسم ہے، لیکن اپریل، مئی، جون اور جولائی کے مہینوں میں ان کی نسل بڑھتی ہے اور ان سے زہر بھی حاصل ہوتا ہے“

ڈاکٹر شیر زاد کے مطابق فارم کا خرچہ زیادہ ہے، لیکن ان کی آمدنی بھی اچھی ہوتی ہے

فارم میں کالے، پیلے اور ان دونوں رنگوں کے مکس قسم کے بچھو پائے جاتے ہیں، جن میں سے کالے بچھو کا زہر زیادہ مہنگا ہوتا ہے

ڈاکٹر شیرزاد کے مطابق ”ہر بوتل میں سات گرام زہر ہوتا ہے جبکہ پیلے بچھو سےحاصل کردہ ایک گرام زہر کی قیمت 350 ڈالر ہے“

ڈاکٹر شیرزاد بنیادی طور پر زہر کے ایکسپورٹر نہیں ہیں، بلکہ اپنے کام کے لیے بچھو پالتے ہیں اور ان کے بقول اپنے فارم کے بچھوؤں سے حاصل کردہ زہر سے برص (جلد پر سفید دھبوں) کا علاج کرتے ہیں

ان کے بقول ”چار ممالک میں میرے مریض ہیں۔ مجھ سے دبئی، ترکی، جرمنی اور چین سے لوگوں نے رابطہ کر کے زہر مانگا لیکن میں نے سب کو یہی کہا کہ یہ فروخت کے لیے نہیں“

مریضوں کا استقبال سانپوں کے شیشے کے کیس اور میز پر بیٹھنے والے بچھوؤں کے شیشے کے ڈھکے ہوئے ڈش سے کیا جاتا ہے۔ مریض مختلف کیپسول، پاؤڈر اور اس کی ہومیو پیتھک دوائیوں کی دوسری شکلوں کے ساتھ رخصت ہوتے ہیں

ڈاکٹر شیرزاد نے بتایا ”ہمارے علاقے میں بہت زیادہ بچھو پائے جاتے تھے اور میں بچپن میں انہیں پکڑ کر اسکول میں لڑکوں کو ڈراتا تھا۔ پھر جب میں شعبہ طب میں گیا تو پتہ لگا کہ ہم بچھو کے زہر سے کیا کیا دوائیاں تیار کر سکتے ہیں“

ڈاکٹر شیر زاد کے مطابق انہوں نے گیارہ کتابیں لکھ رکھی ہیں، جس میں سے ایک کتاب کا نام ’نیش و نوش‘ (ڈنک اور دوا) ہے

اگرچہ شیرزاد مکمل طور پر خود پڑھے ہوئے ہیں اور ان کی کوئی باقاعدہ طبی تربیت نہیں ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایک دن وہ اپنے علم کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے کی امید کرتے ہیں

انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان میں کوئی بچھوؤں کا فارم بنانا چاہے تو وہ اس کی مدد کریں گے کیونکہ ’یہ کام انسانوں کی خدمت کے لیے ہے

ڈاکٹر شیرزاد کہتے ہیں ”میں شاید کچھ عرصہ ہی زندہ رہوں تو میرے بعد دوسروں کو یہ کام جاری رکھنا چاہیے“

"میں آج اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ افغانستان میں اس بیماری (مرگی اور برص) کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ اور ہم دنیا کو کہہ سکتے ہیں کہ اب ہم اس بیماری کا علاج کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔” شیرزاد کہتے ہیں۔

تاہم ان کے ان دعوے کا ہر کوئی قائل نہیں ہے

صوبہ پروان میں محکمہ صحت کے ڈائریکٹر رہنے والے ڈاکٹر قاسم سعیدی کہتے ہیں کہ افغان حکومت ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کو ریگولیٹ نہیں کرتی، لیکن کچھ غیر رسمی نگرانی کرتی ہے

مقامی محکمہ صحت نے ایک بار ایران سے واپس آنے والے ایک افغان شہری شیرزاد سے اپنی تعلیم کے دستاویزات فراہم کرنے کو کہا

”ان کے پاس ایران کی کچھ وڈیو اور تصاویر کے علاوہ کوئی دستاویز نہیں تھی، جس میں انہیں سانپ اور بچھو دکھایا گیا“ سیدی کہتے ہیں، جنہیں شک ہے کہ شیرزاد کا علاج واقعی کارآمد ہے

جبکہ شیرزاد کا کہنا ہے کہ ان کے مریضوں کے تجربات ان کی کامیابی کا ثبوت ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close