مقتولہ قرۃ العین کا تعلق صوبہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد سے تھا۔ قرۃ العین کو گذشتہ برس ان کے خاوند محمد عمر نے تشدد کے بعد قتل کر دیا تھا
شوہر کے ہاتھوں بے رحمانہ تشدد کے بعد قتل ہونے والی چار بچوں کی ماں قرۃ العین کے بھائی ثناءاللہ بلوچ کہتے ہیں ”میں بہن کی لاش پر نہیں رویا، سوچا بہن کو انصاف مل جائے تو پھر رو لوں گا۔ جب عدالت فیصلہ سنا رہی تھی تو میرے بھائی اور سب رشتہ دار رو رہے تھے مگر میں نے پھر بھی اپنے آنسو اس لیے ضبط کر لیے کہ ابھی پہلی کامیابی ملی ہے۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ بہن کے بے رحمانہ قتل پر دل میں لگی ہوئی آگ ٹھنڈی پڑ جائے“
قرۃ العین کے قتل کا مقدمہ حیدر آباد پولیس نے درج کیا تھا، جس میں انکشاف ہوا کہ قتل سے قبل مجرم قرۃ العین پر بچوں کے سامنے ان پر چار گھنٹے تک بے رحمانہ تشدد کرتا رہا تھا
اس قتل کے مقدمہ میں حیدرآباد کی عدالت نے قرۃ العین کے مجرم شوہر محمد عمر کو سزائے موت کا حکم دیا ہے۔ عدالت میں دی گئی گواہی کے مطابق مجرم قرۃ العین کو کرسی پر باندھ کر تشدد کا نشانہ بناتا رہا
حیدر آباد ہسپتال کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مقتولہ کے جسم پر تشدد کے نشانات کے علاوہ ناک، جبڑے اور آنکھ سمیت جسم کی کئی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں
ثناءاللہ بلوچ بتاتے ہیں ”جب بہن کی تشدد شدہ لاش دیکھی تو اس وقت ہی عہد کیا کہ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے۔ بھلے کچھ بھی ہو جائے بہن کے قاتل کے خلاف بھرپور قانونی جنگ لڑنی ہے اور قانون کے ہاتھوں اس کو نشان عبرت بنانا ہے“
ثناءاللہ نے بتایا کہ قرۃ العین نے فنانس میں ایم بی اے کر رکھا تھا۔ وہ سات بھائی اور تین بہنیں ہیں اور قرۃ العین کا نمبر آٹھواں تھا۔ ان کی اپنی بہن سے سب سے زیادہ دوستی تھی
قرۃ العین کی شادی دس سال قبل ہوئی تھی۔ شادی کے وقت وہ بینک میں انٹرنشپ کر رہی تھیں۔ شادی کے بعد انہوں نے ملازمت نہیں کی تھی
شادی کے بعد میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑے معمول تھے لیکن قرۃ العین خود ہی گزارا کرنا چاہتی تھیں، جس وجہ سے ان کے اہل خانہ کچھ نہ کہتے تھے
ثناءاللہ بلوچ اور ان کے خاندان نے انصاف حاصل کرنے کے لیے حیدر آباد میں درجنوں احتجاجی مظاہرے منعقد کیے
عدالت میں مقدمے کے سماعت کے دوران مقتولہ قرۃ العین کی سب سے بڑی بیٹی نے بھی گواہی دی۔ واقعے کے وقت ان کی عمر نو سال تھی اور عدالت نے رمیم زہرہ کی گواہی کو تسلیم کیا ہے
انہوں نے عدالت میں گواہی دیتے ہوئے بتایا ”وقوعہ والے روز امی ہمارے ساتھ بات چیت کر رہی تھیں کہ پاپا آئے اور انہیں پکڑ کر دوسرے کمرے میں لے گئے۔ اس کمرے کے دروازے کا لاک ٹوٹا ہوا تھا جس سے میں نے دیکھا کہ پاپا نے ماما کو تولیے کے ساتھ کرسی پر باندھ کر ان سے چیک پر دستخط کروائے“
گواہی میں ان کا کہنا تھا ”میں ڈر کی وجہ سے دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ اسی کمرے میں آئی، جہاں میرے والد میری والدہ پر تشدد کر رہے تھے۔ تشدد کے کچھ دیر بعد میرے والد نے امی کا گلا دبانا شروع کر دیا اور انییں اٹھا کر پلنگ پر پھینک دیا، جس سے ان کے سر سے خون بہنے لگا تھا“
انہوں نے عدالت کو بتایا ”میری والدہ پر تشدد کرنے کے بعد پاپا نے ایک انکل کو فون کیا، جس کے تھوڑی دیر بعد انکل آئے اور انہوں نے پاپا کے ساتھ مل کر میری والدہ کو اٹھا کر ایمولینس میں ڈالا“
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے والد نے انکل سے کہا کہ وہ والدہ کو لے کر ایمبولینس میں ہسپتال جائیں اور مجھے، بھائی اور چھوٹی بہن کو اپنے ساتھ کار میں بیٹھا کر ہسپتال لے آئے تھے
قرۃ العین کے قتل کے مقدمے کی سماعت ماڈل کریمنل کورٹ کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جسٹس غلام مرتضی بلوچ کی عدالت نے کی
عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے ’پیش کیے جانے والے ثبوتوں اور گواہوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ملزم نے قرۃ العین کا قتل کیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک و شہبہ نہیں ہے کہ ملزم نے قرۃ العین کا قتل بے رحمانہ، ظالمانہ اور سفاکانہ انداز میں کیا ہے۔ جس کے بعد اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ملزم کو کم سزا دی جائے۔‘
عدالت نے ان کے شوہر محمد عمر کو مجرم قرار دیتے ہوئی سزائے موت دی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف ملزم قانونی حق استعمال کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر سکتے ہیں
ثناءاللہ بلوچ کہتے ہیں ’جب میں لاش کا پوسٹ مارٹم کروا رہا تھا تو اس وقت پولیس نے کہا کہ نماز جنازہ کر لیں۔ مجھے پوسٹ مارٹم کرواتے وقت ہی کئی رشتہ داروں نے کہا کہ ہمیں یہ معاملہ ختم کر دینا چاہیے کہ ملزم کا خاندان طاقتور اور با اثر ہے۔ جس پر میں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوگا، ملزم اپنے انجام تک پہنچے گا۔‘
ان کا کہنا تھا ’نماز جنازہ اور تدفین کے بعد جب ہم پولیس سٹیشن گئے تو اس وقت پولیس نے ہمیں ہی ڈرانا شروع کر دیا تھا کہ مقدمے میں یہ بات درج کرو گے تو ہمیں نقصان ہو گا ہمارے ہی خلاف مقدمہ ہو جائے گا۔
’ہمیں ملزم کے خاندان کی جانب سے بھی کہا گیا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے ہم ملزم کو دو دنوں میں چھڑوا لیں گے۔
ثناءاللہ بتاتے ہیں کہ اس موقع پر جب ہم نے ہر صورت میں مقدمہ درج کروانے کا فیصلہ کیا تو ہمارے نوے فیصد رشتہ دار کسی انتقامی کارروائی کے ڈر سے ہمارا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔
’پولیس ہماری درخواست پر مقدمہ درج کرنے کو تیار نہیں تھی۔ اس موقع پر میں نے معاملے کو سوشل میڈیا پر اٹھایا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر معاملہ آنے کے بعد پولیس نے بچی کا بیان لیا تو انھیں یقین ہوا کہ یہ تو بہت ہی بے رحمانہ واقعہ ہے اور اس کا مقدمہ درج کیا گیا لیکن مقدمے کے اندراج کے بعد ہم پر دباؤ ڈال کر صلح کی کوشش کی گئی
ثناءاللہ نے بتایا کہ وہ محکمہ جنگلات میں سرکاری ملازم ہیں۔ ان کے والد بھی سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہیں۔ واقعے کے وقت والد ملازمت پر تھے۔ اور بہن کے قتل کے مقدمے کے بعد ان پر اور ان کے والد پر افسران کے ذریعے صلح کی پیش کش کی گئی تھی
’میں نے ان سے کہا کہ کیا میری بہن کا کوئی نعم البدل ہو سکتا ہے۔ اگر ہوسکتا ہے تو بتا دیں، جس پر خاموشی چھا گئی تھی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ صلح کی کوششوں کے بعد ملزم کے خاندان کی طرف سے پیسوں کی پیش کش کی گئی۔
’ایک ذریعے سے صلح کے بدلے دس کروڑ روپے دینے کی پیش کش تک کی گئی جس پر میں نے پیغام لانے والے مختلف افراد کو جواب دیا کہ دس کروڑ روپے ہم دیتے ہیں اور اپنے بیٹے کو ہمارے پاس بھیج دو۔ میں نے سب سے کہا کہ اگر پوری دنیا کی دولت بھی دے دو تو صلح نہیں ہو گی بلکہ صرف انصاف ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے مقدمہ آگے چلتا گیا ویسے ویسے ان پر دباؤ بھی بڑھتا گیا۔ اس موقع پر کئی لوگ ساتھ چھوڑ گے اگر کسی نے ساتھ نہیں چھوڑا تو وہ صوبائی وزیر شہلا رضا اور سول سوسائٹی تھی۔
اس وقت ملک بھر میں خواتین کے خلاف تشدد پر آواز اٹھائی جا رہی تھی یہ وہی وقت تھا جب اسلام آباد میں نور مقدم کا قتل ہوا تھا۔ جس وجہ سے حیدر آباد کی سول سائٹی بھی فعال تھی
ثناءاللہ بلوچ کہتے ہیں اس دوران انھوں نے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ پہلے احتجاج میں صرف ان کے رشتہ دار شریک تھے مگر جب دوسرا احتجاج کیا گیا تو اس میں سول سوسائٹی اور ہر شعبہ زندگی کے لوگ شامل تھے
ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران سب پر یہ واضح ہو گیا تھا کہ ملزم کے خلاف ثبوت مضبوط ہیں تو دباؤ بھی بڑھا اور لوگ بھی ساتھ چھوڑتے گئے ’اس مقدمے کے دوران ہماری زندگی بدل گئی تھی۔‘
ثناءاللہ نے بتایا کہ ان کی مقتولہ بہن کے بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال بھی ان کے خاندان کے ذمے آ گئی تھی، ان بچوں نے کئی برسوں تک اپنی والدہ پر والد کا تشدد دیکھا تھا۔ وقوعہ والے روز جو کچھ انھوں نے دیکھا اس کے ان کے ذہنوں پر بہت برے اثرات تھے
ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ سب سے پہلا کام تو ان بچوں کو زندگی کی طرف واپس لانا تھا۔ اس کے لیے ان کی باقاعدہ کاؤنسلنگ کی گئی
’اب دوسرا اہم مرحلہ ان بچوں کی تعلیم و تربیت تھی۔ اس میں ہمیں بہت مشکلات پیش آئیں۔ حیدر آباد کے تین بڑے اسکولوں نے یہ کہہ کر بچوں کو داخلہ دینے سے انکار کر دیا کہ ان بچوں سے دوسرے بچوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘
وہ کہتے ہیں ’جب ان اسکولوں کی انتظامیہ سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ بچے مظلوم نہیں ہیں تو جواب ملا ہاں یہ بہت مظلوم ہیں۔ پھر پوچھا کہ کیا کوئی اسکول مظلوموں کی تعلیم و تربیت سے انکار کر سکتا ہے تو وہ چپ ہو گئے مگر داخلہ نہیں دیا۔‘
ثناء اللہ بلوچ کہتے ہیں کہ بوڑھے ماں باپ ہم بہن بھائیوں کے سامنے تو اپنی جوان بیٹی کے قتل پر زیادہ بات نہیں کرتے مگر کئی ماہ گزر جانے کے باوجود اب بھی دونوں چھپ چھپ کر روتے ہیں۔ والدہ قرۃ العین کی قبر پر جاتی ہیں اور وہاں پر گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتی ہیں
ان کا کہنا تھا کہ والدہ شاپنگ کرنے جائیں تو اس دکان اور بازار میں نہیں جاتیں، جہاں پر کبھی وہ قرۃ العین کے ساتھ شاپنگ کرنے کے لیے جایا کرتی تھیں۔ ہمارے زندگی وہ ہی نہیں رہی جو پہلے تھی۔ ہم پہلے خوشحال، ہنستا کھیلتا خاندان تھے۔ اب ہم ہنسی بھول چکے ہیں
قرۃ العین کے بھتیجے سیف اللہ جو قرۃ العین سے چند سال ہی چھوٹے ہیں کہتے ہیں کہ آج بھی وہ سوچتے ہیں تو یقین نہیں آتا کہ کوئی کس طرح ہر ایک سے محبت کرنے والی ان کی پھوپھی کو اس طرح بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنا سکتا ہے
ان کا کہنا تھا کہ قرۃ العین کیس اور اب عدالت سے انصاف ہونے کے بعد اس طرح کے دیگر واقعات میں بھی لواحقیقن اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو انصاف دلانے کے لیے باہر نکل رہے ہیں۔