م سے مرد (افسانہ)

نشاط یاسمین خان

”ف سے فوارہ، ق سے قلم، ل سے لٹو، م سے مرد۔۔۔“ بانو کی نظریں قاعدے میں بنے مرد کے اوپر ٹک گئیں۔۔ سوٹ پہنے، ٹائی لگائے، سلیقے سے جمے ہوئے بال بنائے، م سے مرد۔۔۔۔ اس کی زبان بار بار ’م سے مرد‘ کی گردان کرتی رہی۔

”بانو بیٹا، آگے سبق یاد نہیں ہے؟“ استانی کی آواز پہ اس نے چونک کر انہیں دیکھا اور آگے سبق پڑھنے لگی مگر جب دوبارہ وہ اسی سبق پر پہنچی تو پھر وہی گردان۔۔۔۔

استانی کے ٹوکنے پہ وہ سبق آگے بڑھا دیتی مگر زندگی کے محور پر م سے مرد ہر جگہ موجود رہتا۔ دادی اور ماں کے موقع بے موقع حکم۔۔۔ دروازہ جلدی بند کر دو، گھر میں کوئی مرد نہیں ہے۔۔۔۔ سر شام باہر مت نکلو، گھر میں کوئی مرد نہیں ہے۔۔۔۔ کبھی گھر میں کیل بھی ٹھونکنی ہو تو دادی ہائے کر کے کہتی، گھر میں کوئی مرد نہیں ہے۔۔۔۔

گھر میں مرد نہ ہونے کا یہ احساس اس وقت اور قوی ہو گیا، جب وہ دادی کے ساتھ بازار سودا لینے گئی تو سودا زیادہ ہونے پر دکاندار نے کہا ”اماں، تم کیوں آئی ہو، کیا گھر میں کوئی مرد نہیں ہے؟“

ایک بار مردم شماری والے آئے تو دادی نے دروازے کے پیچھے سے اپنا نام بتایا تو وہ کہنے لگے ”اماں جی گھر کے سربراہ کا نام بتائیے۔“

تب دادی کی آواز میں سارے زمانے کے دکھ سمٹ آئے، وہ اپنی نحیف آواز میں بولیں ”ہمارے گھر میں کوئی مرد نہیں ہے۔۔“

گھر میں مرد نہ ہونے کی جو کمی تھی، وہ ایک خوف کی طرح ان تینوں پر مسلط ہو گئی تھی۔ دادی اور ماں نے تو بڑے ہونے کی وجہ سے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا تھا مگر بانو کے ننھے سے ذہن پر اس احساس نے اس طرح قبضہ کرلیا تھا کہ وہ ہر وقت اسی سوچ میں رہتی کہ ہماری زندگی کس قدر خوب صورت ہوتی اگر ہمارے گھر میں بھی کوئی مرد ہوتا۔۔۔ گھر کے چھوٹے موٹے کام چٹکیوں میں ہوجاتے۔ کیل ٹھونکنی ہو، چارپائی کسنی ہو، بازار سے سودا لانا ہو یا دروازے پر کوئی آ کر پوچھے کہ بیٹا جاؤ گھر سے کسی مرد کو بھیجو تو وہ فوراً بھاگ کر اندر سے مرد کو بلا لاتی۔۔۔ مردم شماری والے آتے تو سربراہ والے خانے میں بھی مرد کا نام لکھا جاتا اور وہ کیسے فخر سے مرد کے ساتھ کھڑے ہوکر انہیں نام لکھتے ہوئے دیکھتی۔

عدم تحفظ کا یہی احساس تھا کہ وہ گلی کے بچوں کے ساتھ کبھی باہر نہیں کھیلتی تھی مگر جب بڑی ہوئی اور اسکول جانے لگی تو یہ احساس اور شدید ہو گیا۔ اکثر لڑکیوں کو ان کے والد چھوڑنے اور لینے آتے تھے۔ وہ اپنے ساتھ لائی ہوئی چھوٹی موٹی چیزیں اسے دکھاتیں۔ یہ چیزیں میرے ابا لے کر آئے ہیں۔ کبھی بتاتیں کہ کل ہم ابا کے ساتھ گھومنے گئے تھے یا بازار جاکر چیزیں خرید کر لائے ہیں۔ چھوٹی بچیوں کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ بانو کے ننھے سے دل پر کیا گزر رہی ہے۔۔ وہ جھینپ کر چپ ہوجاتی، جیسے اس سارے معاملے میں قصور سراسر اسی کا ہے۔

جب بانو کے ابا کا انتقال ہوا تھا، وہ سال بھر کی بھی نہیں ہوئی تھی۔ اس کے ذہن میں ان کا ہلکا سا ہیولا بھی نہ تھا، بس ایک تصویر تھی جو سیاہ اور سفید رنگ کی تھی اور جو شاید شناختی کارڈ کے لئے کھنچوائی گئی تھی اور وہ بھی بیماری کے زمانے کی تھی، نقاہت اور کمزوری چہرے سے عیاں تھی۔ وہی تصویر بڑی کر کے دیوار پر لگادی گئی تھی۔ اسی تصویر کو دیکھ کر اماں اور دادی آہیں بھرا کرتی تھیں اور بانو کو یہی تصویر احساس دلاتی تھی کہ کبھی اس گھر میں بھی کوئی مرد رہا کرتا تھا مگر یہ تصویر قاعدے والی تصویر سے بالکل مختلف تھی۔ بانو کا دل چاہتا تھا کہ قاعدے والی تصویر جیسا کوئی مرد اس گھر میں آئے، مسکراتا ہوا، کوٹ پہنے، ٹائی لگائے، سلیقے سے بال جمائے۔۔۔ وہ قاعدہ اس نے ابھی بھی بہت سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ اماں سے کہہ کر اس نے پلاسٹک کا کور چڑھوا لیا تھا اور اسے اپنے کپڑوں والے بکسے میں رکھا ہوا تھا۔

ابھی اس نے سمجھداری کی عمر میں قدم ہی رکھا تھا کہ دادی ساتھ چھوڑ گئیں۔ دادا سرکاری ملازم تھے، دادی کو جو پنشن ملتی تھی، وہ بھی آنی بند ہو گئی۔ ابا کی ملازمت ایسی نہ تھی کہ پنشن آتی۔ دادی کے چالیسویں کے ایک دن بعد ہی اس کی پھوپھیوں نے گھر میں اپنا حصہ حاصل کرنے کی خاطر جھگڑا شروع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا چونکہ بھائی کا انتقال ماں کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا، اس لیے ماں کی جائیداد میں بھابی اور بچی کا کوئی حق نہیں بنتا ہے۔ بڑے پھوپا نے حلق میں ق کو گول کر کے بولتے ہوئے بڑے بڑے حوالے دے کر حق ثابت نہ ہونے کے ثبوت پیش کئے۔ وہ قانونی اور شرعی طور پر اپنا حق ثابت کرنے پر تلے بیٹھے تھے، تب بانو کی ماں نے پہلی بار اپنی زبان کھولی۔
”آپ یہ ش ق رہنے دیں بھائی صاحب، اور یہ بتائیں کہ آپ لوگ چاہتے کیا ہیں؟ کیونکہ اگر آپ لوگوں نے ہمیں بے دخل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو قانون اور شریعت کا رخ اپنی طرف موڑ لیں گے۔ ایک ایسی عورت، جس کے سر پر کسی مرد کا سایہ نہ ہو، وہ اور کیا کر سکتی ہے، سوائے اس کے کہ چپ چاپ یہاں سے چلی جائے۔“

یوں وہ ماں بیٹی ایک کرائے کے مکان میں آگئیں۔ ماں نے مشین سنبھال لی اور بانو دوبارہ اسکول جانے لگی۔ اکیلے پن، محنت اور غربت نے ماں کو چڑچڑا بنا دیا تھا۔ وہ ہر وقت کہتی ”کاش بانو تیری جگہ میرا کوئی بیٹا ہوتا تو کوئی مجھے آسانی سے گھر سے بے دخل نہیں کر سکتا تھا۔“

بانو دن بہ دن جوان اور خوبصورت ہوتی چلی جا رہی تھی۔ گھر میں ٹھیکرے آتے، پتھر آتے۔ خط اور پرزے آتے مگر رشتے نہ آتے۔۔۔ ماں کے پاس دینے کے لیے کیا تھا جو رشتے آتے۔۔۔ مگر بانو کا دل پڑھنے میں لگا رہتا تھا۔ گلی کے نکڑ پہ کھڑے اوباش لڑکے آتے جاتے فقرے کستے مگر وہ نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھتی۔۔ اسے ہر وقت ماں کی تنبیہ یاد رہتی ”بانو بیٹا، سنبھل سنبھل کر قدم رکھنا، ہمارے سر پر کوئی مرد نہیں ہے۔“

یوں بانو سنبھل سنبھل کر قدم رکھتی بی اے پاس کر گئی اور اسے ایک چھوٹے سے پرائیویٹ اسکول میں ٹیچر کی نوکری مل گئی۔ تب بڑی پھوپھی نے اپنے اُباش بیٹے کے لیے ان گھر کے چکر لگانے شروع کر دیے۔ ان کا لڑکا دوبار جیل جا چکا تھا اور پکا چرسی تھا۔ پھوپھی کا خیال تھا کہ بانو سے اگر اس کی شادی ہوجائے گی، تو وہ سنبھل جائے گا۔ اس طرح ٹوٹے رشتے بھی بحال ہو جائیں گے مگر اس کی اماں نے انکار کر دیا۔ پھوپی کا بیٹا تو پاگل ہو گیا تھا، اس نے دروازے پر آ کر باآواز بلند بانو کے چال چلن پر اتنی کیچڑ اچھالی کہ محلے والوں کو مداخلت کرتی پڑی۔ محلے کا کونسلر اپنے ساتھ پولیس کو لے کر آیا اور لڑکے کو موبائل میں ڈال کر لے گیا۔ دونوں پھوپیاں آگئیں، جوان بچوں کی مائیں تھیں۔ اتنا بڑا کنبہ تھا، ان سب نے مل کر بانو کی ماں پر اتنا دباؤ ڈالا کہ مجبوراً اس نے کونسلر سے لڑکے کو چھوڑنے کی درخواست کردی

کونسلر شریف آدمی تھا، کہنے لگا ”اماں جی، سوچ لیں، لڑکا پکا بدمعاش ہے، آپ جوان بیٹی کی ماں ہیں، سر پر کوئی مرد نہیں ہے، اگر لڑکے کو سزا نہ ملی تو اور شیر ہو جائے گا۔ آئے دن تنگ کرے گا۔“

بانو کی اماں کہنے لگیں ”کونسلر صاحب، یہی تو مشکل ہے، گھر میں کوئی مرد نہیں ہے، سسرال والے گھر میں بیٹھے ہیں، جینا حرام کر رہے ہیں، اگر میں نے لڑکے کو سزا دلوا دی تو نہ جانے میری بیٹی کے متعلق خاندان میں اور کیا باتیں پھیلا دیں گے۔ ہم نے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھا ہے۔ میں نہیں چاہتی میری شریف بیٹی بدنام ہو جائے۔ میری سسرال والے وعدہ کر رہے ہیں کہ لڑکا اب محلے میں یا بانو کے آس پاس نہیں پھٹکے گا۔“

”اماں جی، آپ کی مرضی ورنہ ہم تو لڑکے کو ایسی سزا دلواتے کہ یاد رکھتا۔“

بانو کی اماں سمجھ رہی تھی کہ لڑکا اب تنگ نہیں کرے گا، انہوں نے مکان مالک کی بیوی اور ایک دو لوگوں سے رشتے کے لئے کہہ دیا، خود بھی تگ و دو میں لگ گئی۔ اب تو بانوکی نوکری بھی لگ گئی تھی شاید اسی لالچ میں کوئی رشتہ لے کر آجائے۔ اماں کو بانو کی نوکری کی وجہ سے آرام ملا تھا، وہ کہتی ”بانو تو میرا بیٹا ہے۔۔۔“ مگر بانو کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اس معاشرے میں بیٹیاں چاہیں کتنا بھی پڑھ لکھ لیں اور ماں باپ کا سہارا بن جائیں، بیٹا ہر گز نہیں بن سکتیں۔

اسکول کے مالک اچھی خاصی عمر کے آدمی تھے مگر وہ بھی خوامخواہ بانو کو دفتر میں بلا کر بٹھانے لگے تھے۔ جب بانو پوچھتی ”سر، آپ نے مجھے کیوں بلایا ہے؟بچوں کی پرھائی کا حرج ہوتا ہے“۔ تو وہ کہنے لگے۔ ”آپ کو میں نے ملازمت دی ہے، آپ بچوں کو پڑھائیں یا میرے دفتر میں بیٹھی رہیں، اس سے آپ کو کیا فرق پڑتا ہے؟“

اسکول کی ٹیچریں آپس میں کھسر پھسر کرتیں اور زیر لب مسکراتیں تب بانو کی سمجھ میں آیا، وہ نوکری چھوڑ کر آ گئی۔ اماں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ کیا قصہ ہوا ہوگا جو بانو نے لگی بندھی نوکری پر لات ماری ہے۔ اب دونوں ماں بیٹیوں نے مشین سنبھال لی۔

اس دن وہ گہری نیند سو رہی تھی کہ اسے کمرے میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا، پھر اس سے پہلے کے وہ چونکتی، بدبو کے احساس کے ساتھ ہی ابکائی سی آئی۔ کسی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا ”بانو، میں نے شرافت سے تیرا ہاتھ مانگا تھا، تیری ماں نے مجھے حوالات میں بند کروا دیا، اب میں تجھے دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔“

بانو نے خود کو چھڑانے کے لئے ادھر اُدھر ہاتھ مارا تو پیتل کا گلاس ہاتھ میں آگیا، اس نے وہ ہی اٹھا کر دے مارا، گلاس سامنے لگے شیشے پر جا لگا، شیشہ ایک چھناکے سے ٹوٹ گیا مگر اس کی عزت پارہ پارہ ہونے سے بچ گئی۔ ماں نے چور چور کا شور مچا دیا تو پھوپھی کا لڑکا دیوار کود کر بھاگ گیا اور بانو پلنگ پر بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی۔

مالکِ مکان کی بیوی ایک ہمدرد عورت تھی، کہنے لگی ”اماں جی، بیٹی کو جاگتی آنکھوں اپنے گھر کا کردو، ورنہ نجانے یہ دنیا تمہارے بعد اس کا کیا حشر کرے کی۔“

”میں رشتہ کہاں سے لاؤں، جو بیٹی کو اس کے گھر کا کروں۔“

”ایک رشتہ ہے تو۔۔۔ مگر آپ کے معیار کا نہیں ہے۔“ مالکِ مکان کی بیوی ہچکچاتے ہوئے کہنے لگی

”تم رشتہ لے کر آؤ، اب جو حالات ہیں، اس میں معیار کیا دیکھنا۔ اب تو لڑکی گھر کی چار دیواری میں بھی محفوظ نہیں رہی ہے۔“

دوسرے دن غفور اماں جی کے سامنے بیٹھا کہہ رہا تھا ”اماں جی، میں ذات کا گجر ہوں۔ چالیس بھینسیں ہیں، دو بیویاں مجھے چھوڑ کر جا چکی ہیں۔۔ اب ذات برادری میں مجھے کوئی بیٹی دینے پر تیار نہیں ہے۔ اماں جی، آپ تو میری ماں کی جگہ ہیں آپ سے کیا چھپانا، حقیقت تو یہ ہے کہ میرے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی، گھر اس لئے بسانا چاہتا ہوں کہ کوئی آگے پیچھے نہیں ہے۔ مروں تو کوئی رونے والا تو ہو۔۔۔ کام سے واپس آؤں تو کوئی ساتھ بیٹھ کر روٹی کھانے والا تو ہو۔۔۔ کوئی دکھ درد کا شریک ہو۔۔۔ میں جانتا ہوں، بانو جی پڑھی لکھی ہیں، میں چٹا ان پڑھ ہوں۔ میں ان کے قابل تو نہیں ہوں پر میرا ذاتی گھر ہے، انہیں چھت سائبان اور تحفظ دے سکتا ہوں۔ مجھے آپ کے بارے میں معلوم ہے، اللہ کی قسم بانو جی کی طرف کوئی نظر اٹھا کر دیکھے تو آنکھیں ہی نکال لوں گا۔“

بانو نے پردے کی جھری سے دیکھا۔ سرخ اور سبز لنگی پر بوسکی کا کرتا پہنے ایک ادھیڑ عمر شخص بیٹھا تھا۔ اس نے پگڑی اتار کر گود میں رکھی ہوئی تھی۔ ”اماں جی، آپ مجھے اپنا بیٹا بنالیں، پھر کسی کی ہمت نہیں ہوگی کہ آپ کو ستائے۔ جن ماؤں کے بیٹے ہوتے ہیں، ان کو محنت کرنے کی کیا ضرورت ہوتی ہے۔ میں آپ کا بیٹا بنوں گا۔“ اب وہ اماں جی کا ہاتھ تھامے بیٹھا تھا

ماں جی کے آنسو ٹپ ٹپ اس کے ہاتھوں پر گر رہے تھے۔
بانو نے پردہ چھوڑ دیا، بکس کھول کر اپنا قاعدہ نکالا اور م سے مرد والا صفحہ کھول لیا۔۔ وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی مسکرا رہا تھا۔
بانو کی آنکھ سے آنسو گرے اور قاعدے والی تصویر دھندلا گئین۔ اب وہاں غفور گجر بیٹھا مسکرا رہا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close