عمران خان کا ’جیل بھرو تحریک‘ کا اعلان: ’جیل بھرو تحریک‘ کی تاریخ کیا بتاتی ہے؟

ویب ڈیسک

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں ’جیل بھرو تحریک‘ کا اعلان کیا تو سیاسی تجزیہ کار یہ سوال کرنے پر مجبور ہوئے کہ اس حکمت عملی سے عمران خان کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

عمران خان کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب ایک جانب تحریک انصاف پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے بعد جلد از جلد انتخابات منعقد کروانے کا مطالبہ کر رہی ہے تو دوسری جانب تواتر سے اس کے مختلف رہنماؤں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے

ان گرفتاریوں کے بعد ہی عمران خان نے اس حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اس طرح کا تشدد کرتے رہیں گے اور ہم چپ کرکے بیٹھے رہیں گے تو بہتر یہ ہے کہ بجائے سڑکوں پر نکلنے اور توڑ پھوڑ کرنے کے، ہماری جماعت تیاری کرے جیل بھرو تحریک کی۔۔ اور ہم انشا اللہ پاکستان کی تمام تر جیلوں کو بھر دیں گے تاکہ ان کا شوق پورا ہو جائے۔‘

تحریک کی حکمت عملی کے بارے میں تحریک انصاف سے کے ایک رہنما نے بتایا ’اس تحریک کے پہلے فیز میں جماعت کے سینیئر ارکان، پارلیمانی لیڈر خود جیل جائیں گے جبکہ دوسرے فیز میں 500 پارٹی ورکر مختلف صوبائی حلقوں سے سرینڈر کریں گے۔‘

جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت تحریک انصاف کے کسی بھی رکن یا رہنما کو بنا کسی مقدمے یا وارنٹ گرفتاری حراست میں نہیں لے گی۔‘

ماہرین کے مطابق عمران خان اس وقت اپنی مزاحمت کے تیسرے دور میں داخل ہو چکے ہیں

جیل بھرو تحریک پر قانون کیا کہتا ہے؟

سابق جج شاہ خاور سے جب سوال کیا گیا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے کارکنان اور رہنما گرفتاری دینے جائیں گے تو قانون اس پر کیا کہتا ہے، بغیر مقدمات کے پولیس کیسے گرفتاری کرے گی؟ تو انہوں نے کہا ”اگر گرفتاری دینے والے افراد پر پہلے سے مقدمات درج نہیں ہیں تو گرفتاری دینے کے لیے قابل دست اندازی جرم کا ہونا ضروری ہوگا، ورنہ پولیس بغیر وجہ کے گرفتار نہیں کرے گی۔ قانونی نکتہ یہ ہے کہ جیل جانے کے لیے ایف آئی آر یا مقدمے کا ہونا ضروری ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ لانگ مارچ کے دوران جن کارکنان کے خلاف جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے درج ہوئے تھے، اس میں ان تمام نامزد افراد کو اپنی ضمانتیں واپس دینا ہوں گی تاکہ پولیس گرفتار کر سکے۔“

”تیسری صورت یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جن پر کوئی مقدمہ نہیں ہے لیکن وہ گرفتاری دینا چاہیں تو کار سرکار میں مداخلت یا جہاں دفعہ 144 کی خلاف ورزی کریں تو پولیس گرفتاری کر سکتی ہے“

انہوں نے کہا ”اس کا ایک نقصان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر سیاسی رہنما گرفتاری دینے کے لیے قابل دست اندازی جرم کرتے ہیں اور گرفتاری کے بعد عدالت فوری ٹرائل کر کے سزا دے دیتی ہے تو وہ سزا یافتہ ہو جائیں گے اور اس صورت میں وہ الیکشن بھی نہیں لڑ سکیں گے، اس لیے بھی رسک ہے“

جیل بھرو تحریک کی تاریخ

جیل بھرو تحریک بنیادی طور پر احتجاج کا ایک طریقہ ہے، جس میں لوگ اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے رضاکارانہ طور پر گرفتاری دیتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ جیلوں میں جمع ہو جائیں کہ ریاست کے لیے ان کا انتظام سنبھالنا مشکل ہو جائے۔ لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ماضی میں عملی طور پر جیلیں بھرنے کی کوئی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکی

واضح رہے کہ ’جیل بھرو تحریک‘ برصغیر میں سیاسی حکمت عملی کا پرانا حربہ رہا ہے، جسے پاکستان اور بھارت کی آزادی سے قبل مقامی طور پر آزمایا جاتا رہا۔ پاکستان میں بھی ماضی میں مختلف سیاستدان جیل بھرو تحریک کے اعلانات کرتے رہے ہیں

برصغیر کی تاریخ میں جیل بھرو تحریک اور اس کے ساتھ ہی سول نافرمانی تحریک کا موجد انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما موہن داس گاندھی کو سمجھا جاتا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں اس تحریک کو ’ہندوستان چھوڑو تحریک‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے

اس تحریک کو ناکام بنانے اور اپنے قبضے کو نیا جواز دینے کے لیے سر اسٹیفورڈ کرپس کی سربراہی میں انگریزوں نے ’کرپس مشن‘ انڈیا بھیجا، جس نے قائد اعظم محمد علی جناح، مون داس گاندھی، جواہر لعل نہرو سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر کے انگریزوں کے انخلا اور انڈیا کو دولت مشترکہ کی ایک ریاست بنانے کی تجویز دی۔ تمام رہنماؤں نے کرپس مشن کی تجاویز کو مسترد کر دیا

اس مشن کی ناکامی کے بعد انگریز سرکار نے گاندھی سمیت انڈین نیشنل کانگریس کی تمام قیادت اور رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ کانگریس کے کچھ رہنما بھی اس کی مخالفت کر رہے تھے تو دوسری جانب انگریز سرکار بھی اسے کچلنے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔ اس تحریک میں 60 ہزار سے زائد افراد گرفتار ہوئے جن میں سے اکثریت بغیر کسی مقدمے کے تقسیم ہند تک قید رہی۔ یوں یہ تحریک فوری طور پر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی

سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ چونکہ یہ تحریک اس وقت کی آزادی کی تحریک کا ایک حصہ تھی اس لیے اسے کچلے جانے کے باوجود اس نے لوگوں کو شعور دینے اور ان میں نیا جذبہ بھرنے میں کردار ادا کیا تھا

سیاسی امور کے ماہر رسول بخش رئیس کا کہنا ہے ’جیل بھرو تحریک کی ایک تاریخ ہے کہ جب یہاں پر آزادی کی تحریک چل رہی تھی تو مہاتما گاندھی کی قیادت میں یہ تحریک شروع کی گئی تھی جس کا مقصد انگریزوں کو ہندوستان سے واپس بھیجنا تھا۔ اس تحریک سے برطانیہ واپس نہیں گیا تھا اور نہ ہی ان کی حکومت کو کوئی فرق پڑا تھا۔ تاہم اس تحریک میں آزادی کے لیے قومی سطح پر آزادی کا جذبہ پیدا کرنے میں مدد ملی ہے۔‘

ماضی قریب یعنی 2011 میں انڈیا میں کرپشن کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے انا ہزارے نے لوک پال بل میں اپنی تجاویز شامل کرانے کے لیے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا تھا۔ حکومت نے ان کی تجاویز مانتے ہوئے اسے بل کا حصہ بنا لیا تھا جس وجہ سے انہوں نے اپنا اعلان واپس لے لیا تھا

پاکستان میں جیل بھرو تحریک اور اس کے نتائج

’پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتیں جیل بھرو تحریک کا اعلان ضرور کرتی ہیں لیکن اسے صرف دباؤ بڑھانے کے لیے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مارشل لا کے ادوار میں بھی جیل بھرو تحریک کی آوازیں اُٹھیں تھیں۔‘

سابق جج شاہ خاور نے بتایا کہ ’جیل بھرو تحریکیں عمومی طور پر ڈکٹیٹر شپ کے خلاف ہوتی ہیں جیسے کہ اگست 1983 میں ضیا کے دور میں تمام سیاسی جماعتوں نے یکجا ہو کر تحریک شروع کی تھی

انہوں نے کہا ’میں خود گواہ ہوں مارشل لا کے وقت دفعہ 13/33 ایم ایل آر لاگو کی جاتی تھی۔ مارشل لا کے دوران اگر کوئی بھی جلسہ جلوس ہوتا تھا یا حکومت کے خلاف نعرے بازی ہوتی تھی۔ تو اُن پر یہ دفع لاگو ہو جاتی تھی تو پولیس اُن کو گرفتار کر لیتی تھی۔ اور یہ اجتماعات کمیٹی چوک راولپنڈی میں ہوتے تھے۔‘

پاکستان میں باضابطہ طور پر ایک ہی جیل بھرو تحریک کا آثار ملتے ہیں، جو ضیاءالحق کے خلاف بننے والے سیاسی جماعتوں کے اتحاد ایم آر ڈی (تحریک بحالی جمہوریت) نے شروع کی تھی

اس بحالی جمہوریت تحریک کے بنیادی مطالبات میں ضیاء الحق کا استعفیٰ، آئین کی بحالی، سیاسی اسیروں کی رہائی اور فوجی عدالتوں کے ذریعے دی گئی سزاوں کی منسوخی شامل تھی۔ ایم آر ڈی نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا تو بیگم نصرت بھٹو نے لاہور میں گرفتاری پیش کی۔ انہیں بعد ازاں کراچی منتقل کر دیا گیا جبکہ بے نظیر بھٹو کے پنجاب میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی

اس دوران الذولفقار نامی تنظیم نے کراچی سے پشاور جانے والا پی آئی اے کا طیارہ اغوا کر لیا۔ جسے پہلے کابل اور بعد ازاں دمشق لے جایا گیا۔ طیارے میں 146 مسافر سوار تھے جن کی جان کے بدلے میں 55 سیاسی اسیروں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔
ہائی جیکروں نے طیارے میں سوار میجر طارق رحیم کو قتل کر کے لاش طیارے سے باہر پھینک دی۔ ضیاء حکومت نے اس واقعے کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کے خلاف وہ کارروائیاں کیں کہ اس کے کارکنان کو جیلوں میں ڈالا گیا، کچھ کو پھانسیاں دی گئیں۔ جس وجہ سے ایم آر ڈی کی یہ تحریک دم توڑ گئی

تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے ’جنگ آزادی اور سیاسی تحریکوں میں یہی ایک فرق ہے کہ ایسی تحریکیں ملک کی آزادی کے لیے کامیاب نہ بھی ہوں تب بھی لوگوں میں بیداری اور شعور پیدا کر دیتی ہیں، لیکن سیاسی تحریکوں میں جیل بھرو تحریک جیسے اقدامات کو کامیابی نہیں ملتی۔‘
ان کے مطابق ’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسی تحریکوں میں اجتماعی طور پر ریاستی قوانین کی خلاف ورزی کرنا پڑتی ہے تاکہ ریاست آپ کے خلاف ایکشن لینے پر مجبور ہو جائے۔ اگر ریاست ایکشن نہیں لیتی تو اس کی رٹ ختم ہو جاتی ہے جیسے بھٹو دور میں ہوا کہ رٹ ختم ہوئی اور فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ اور اگر ایکشن لیتی ہے تو پھر اسے بڑے پیمانے پر لوگوں کو گرفتار کرنا پڑتا ہے۔‘

عمران خان کی جیل بھرو تحریک کامیاب ہوگی؟

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عمران خان کی جانب سے ایسی کسی تحریک کال دی گئی ہو۔ اکتوبر 2022 میں میانوالی میں ایک جلسے سے خطاب میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد ہی جیل بھرو تحریک کال دیں گے۔
اس سے قبل 2014 کے دھرنے کے ابتدائی دنوں میں عمران خان نے اسٹیج پر کھڑے ہوکر بجلی کا بل جلاتے ہوئے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا

اب جب وہ جیل بھرو تحریک کا اعلان کرنے والے ہیں تو تجزیہ کار مجب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ ایسی تحریکیں ماضی میں کامیاب نہیں ہوئیں تو اب بھی اس کی کامیابی کے امکانات نہیں ہیں

ان کا کہنا ہے ’تحریک آزادی کے وقت اور ضیاء دور میں جو لوگ بھی جیلوں میں گئے انھوں نے اعلانیہ ریاست کے جبری قوانین کو ماننے سے انکار کیا۔ مارشل لاء نے جلسے جلوسوں سے منع کیا تو لوگ باہر نکلے جنہیں قید کر دیا گیا۔ گاندھی اور ان کے پیروکاروں نے انگریز کے جابرانہ قوانین کو ماننے سے انکار کیا۔ اس وجہ سے ان کو جیلوں میں بند کیا گیا۔‘

انہوں نے کہا ’اب بظاہر عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے سامنے ایسا کوئی قانون نہیں ہے، جسے توڑنے پر وہ گرفتاری کے حقدار بن جائیں اور جیلیں بھر دیں۔ عمران خان اور ان کے ہزاروں ساتھیوں کا ایسے جرائم کا ارتکاب کرنا ہوگا جو ضابطہ فوجداری کے تحت قابل دست اندازی پولیس ہوں، جو بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’اگر عمران خان اور کچھ دیگر رہنما اپنے اوپر درج مقدمات میں ضمانتوں کی درخواستیں واپس بھی لے لیں تو یہ انفرادی عمل ہو گا، جبکہ جیل بھرو تحریک کے لیے کم از کم ہزاروں افراد کی ضرورت ہو گی۔‘

تجزیہ کار رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ ’عمران خان پاکستانی سیاست میں ایسا کردار ہے جو ہمہ وقت اپنے مخالفین کو مصروف رکھنے کی کامیاب حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔‘

انہوں نے کہا ’گاندھی کی تحریک سے انگریز سرکار ختم نہیں ہوئی تھی اور عمران خان کی تحریک سے موجودہ حکومت بھی نہیں گرے گی۔ عمران خان کا واحد مقصد اپنے لوگوں کو متحرک رکھنا ہے تاکہ ملک میں جب بھی انتخابات ہوں اس کا ورکر ان کے لیے تیار ہو اس لیے جیل بھرو تحریک کا ان کا اعلان موبلائزیشن سے زیادہ نہیں ہے اور وہ اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close