ایران: ایک گیت کی کہانی، جو احتجاجی تحریک کا نعرہ بن گیا۔۔

ویب ڈیسک

ایرانی گانا ’برائے‘ ملک میں جاری حکومت مخالف احتجاج کا مرکزی ترانہ بن کر سامنے آیا ہے

حال ہی میں برطانوی میوزک بینڈ ’کولڈ پلے‘ نے اپنے ورلڈ ٹوئر کے آغاز پر ارجنٹائن کے شہر بیونس آئرس میں جب یہ گانا گایا تو ایران سے ملک بدر کیے گئے اداکار اور سماجی کارکن گلشیفتہ فرحانی بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ اس پرفارمنس کو اکیاسی ملکوں میں دکھایا گیا، جس کی وجہ سے اسے ایک عالمی شناخت ملی

اس گانے کا اصلی ورژن ایرانی گلوکار شیروین حاجی پور نے گایا تھا، جنہوں نے اس کے تمام اشعار ایرانیوں کے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی وجوہات کی بنیاد پر تخلیق کیے

اس گانے میں ہر پیغام کا آغاز لفظ ’برائے‘ سے ہوتا ہے۔ فارسی زبان میں اس کا مطلب ہے ’جس کے لیے۔‘

اس گیت کو لکھنے کا خیال حاجی پور کو اس وقت آیا، جب ایران کی اخلاقی پولیس کے تشدد کے بعد کوما میں جانے والی بائیس سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی موت واقع ہوئی اور ملک میں مظاہرے شروع ہو گئے

ایران کی ہیومن رائٹس ایکٹوسٹس نیوز ایجنسی کے مطابق اب تک مظاہروں پر کریک ڈاون میں 45 بچوں سمیت 284 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس دوران 35 سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ ایرانی حکام نے ملک بھر سے گرفتار ہونے والے مظاہرین کی تعداد نہیں بتائی تاہم سماجی کارکنوں کے مطابق یہ تعداد لگ بھگ چودہ ہزار کے قریب ہے

اس وقت کے بعد سے ایران میں 1979ع کے اسلامی انقلاب کے بعد اب تک کے سب سے وسیع احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں

اس احتجاجی تحریک کے دوران یہ گیت سامنے آیا، جس کے جذباتی اشعار کی وجہ سے یہ دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر آگ کی طرح پھیل گیا اور ایران میں احتجاج کرنے والوں کی آواز بن گیا

اس گیت کے چند اشعار میں احتجاج میں شرکت کی وجہ بتائی گئی ہے کہ ’میری بہن کے لیے، تمہاری بہن کے لیے، ہم سب کی بہن کے لیے، ایک عام سی زندگی کے لیے جو ہم سب کی خواہش ہے، طلبا کے لیے اور ان کے مستقبل کے لیے۔‘

اس گیت کے خالق حاجی پور کو انسٹاگرام اکاؤنٹ پر پوسٹ کرنے کے چند ہی دن بعد گرفتار کر لیا گیا تھا، تاہم اس وقت تک یہ گیت لاکھوں لوگ دیکھ چکے تھے

ان کی گرفتاری کے بعد ان کے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے اس گیت کو ہٹا دیا گیا۔ ان کو بعد میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا لیکن وہ خاموش رہے

صحافی بہزاد بولور کا کہنا ہے ”ایران کی تاریخ میں کسی گیت نے دنیا اور ایرانی معاشرے پر اتنا گہرا اثر نہیں چھوڑا۔ اس گیت کی طاقت گلوکار کی ایمانداری ہے“

کئی ایرانی شہریوں کے نزدیک اس گیت نے ملک میں زندگی کی اصلیت دکھائی ہے

بہزاد کہتے ہیں ”گیت کی ایک لائن میں گلی میں ناچنے کی بات کی گئی، جو دراصل خوف کے بغیر ناچنے کی بات ہے کیونکہ ایران میں ثقافت کا تعلق سیاست سے ہے“

بہزاد نے کہا ”انہوں نے ایسے اشعار تخلیق کیے جو گذشتہ چالیس سال سے ایرانیوں کی عام زندگی کا احاطہ کرتے ہیں، حکومت کی لاپرواہی اور ان چیزوں کو بیان کرتے ہیں، جو نوجوان چاہتے ہیں یا نہیں چاہتے، وہ چیزیں جو ان پر زبردستی تھوپ دی گئی ہیں“

انہوں نے بتایا ”اس گیت کو طلبا زیادہ استعمال کر رہے ہیں کیونکہ یہی نوجوان سائنس، ثقافت، آرٹ، ادب کی نمائندگی کرتے ہیں جو ایران کی حکومت کی مذہبی پالیسی کے خلاف ہیں“

اس گیت کے اشعار میں ’گلیوں میں ناچنے‘، ’ہر بار جب ہم اپنے محبوب کو بوسہ دینے سے خوفزدہ تھے‘، اور ’برائے عورت، زندگی اور آزادی‘ شامل ہیں۔ یہ ایسے الفاظ اور فقرے ہیں، جو ملک بھر کے شہروں میں مظاہروں کے دوران بلند کیے گئے

’برائے‘ گیت ایران کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہو چکا ہے، جس کو حال ہی میں متعارف کرائی جانے والی معاشی تبدیلی کی کیٹگری میں گریمی ایوارڈ کے لیے نامزد کرنے کے لیے ہزاروں لوگ آن لائن سفارش کر رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close