مزدور بچوں کو قانون بھی بچانے سے قاصر

فہمیدہ یوسفی

پرندے پالنے کے شوقین لوگوں کا سب سے پسندیدہ ٹھکانہ پرندوں کی مارکیٹ ہوتی ہے

پرندوں کی مارکیٹ میں چھوٹی چھوٹی دکانوں میں ایک دوسرے سے جڑے اوپر تلے چھوٹے چھوٹے پنجروں میں طرح طرح کے بےچین پرندے اپنی چونچیں پنجرے کی جالیوں پر مارتے رہتے ہیں کہ شاید کسی طرح سے رہائی مل جائے لیکن انہیں علم نہیں ہوتا، ایک پنجرے سے دوسرے پنجرے تک کا سفر ہی ان کی رہائی ہے

یہ پنجروں میں قید پرندے اپنے قفس میں ادھر ادھر اڑنے کی جگہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں لیکن ان کی اڑان کے لیے نہ پر ہیں نہ آسمان

پرندوں کو بیچنے کا کاروبار کرنے والوں کی امید یہی ہوتی ہے کہ ان کے پرندے کا اچھا دام لگ جائے۔ بیچنے کے بعد ان کی ذمہ داری ختم اب ان کی بلا سے خریدنے والا اس پرندے کو کس پنچرے میں قید رکھتا ہے

جب بھی میرے سامنے کسی معصوم کم عمر گھریلو ملازم کے جلے ہوئے ہاتھ تشدد کے نشانات اور رستے زخموں کی تصویریں آتی ہیں تو ذہن میں قید پرندے گھوم جاتے ہیں

جب بھی کسی بچے کی تشدد زدہ لاش کسی کچرا کنڈی پر پڑی ملتی ہے تو بےاختیار آنکھوں کے سامنے وہ پرندے گھوم جاتے ہیں جو پنجروں میں ہو کر بھی کسی جانور کا نشانہ بن جاتے ہیں اور ان کے نچے پر ان کی بےبسی کا ماتم کرتے ہیں

کس کے پاس فرصت اتنی کہ سوچے پاکستان میں بچوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہی ہو رہا ہے، کمی نہیں آ رہی ہے

کس کے پاس فرصت اتنی کہ سوچے پاکستان میں 1996 سے اب تک چائلڈ لیبر کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی سروے نہیں کیا گیا

کس کے پاس فرصت یہ جاننے کی کہ اس ملک میں ایک امپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ موجود ہے۔ کس کے پاس فرصت یہ جاننے کی اس ملک میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے یہ بل منظور کیا ہے کہ بچوں پر کہیں پر بھی جسمانی تشدد نہیں کیا جا سکتا

کس کے پاس فرصت اتنی کہ سوچے کہ اس ملک میں بڑھتی غربت اور بےروزگاری کی وجہ سے جو عمر سکول جانے کی ہوتی ہے اس میں یہ ان بچوں کے ننھے ہاتھ گارے مٹی سے سنے ہوتے ہیں تو کہیں ان پر تیل کی تہہ چڑھی ہوتی ہے تو کہیں ان کے زخمی جھلسے ہاتھوں میں جھاڑو ہوتی ہے

لاہور میں تیرہ سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد اور جھلسا دینے کا واقعہ کون سا پہلی بار منظر عام پر آیا ہے۔ اس سے پہلے بھی تو کہیں کسی کم عمر ملازم بچوں کو استری سے جلا کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا

تو کہیں مار مار کر ہڈیاں توڑنے کا واقعہ سامنے آگیا تو کہیں سیڑھیوں پر سے دھکا دے دیا گیا۔ کہیں ڈنڈوں سے، چپلوں سے، گرم چمٹوں سے جلانے کی کہانیاں سامنے آ جاتی ہیں

کس کو یاد ہے جولائی 2022 میں ڈیفنس لاہور کے گھر میں ایک 11 سالہ گھریلو ملازم بچے کو صرف اس بات پر تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا کہ اس نے فریج سے کھانا چرا کر کھانا کھایا تھا

ان کم سن گھریلو ملازم بچوں کے ساتھ جسمانی تشدد تو کیا جاتا ہے مگر اکثر ان کے ساتھ جنسی تشدد بھی کیا جاتا ہے

ان کے مالکان قانون کے خوف سے بےنیاز ہیں۔ ان کو علم ہی ہوتا ہے کہ اگر تشدد کا معاملہ رپورٹ ہو بھی گیا تو کچھ پیسے خرچ کر کے معاملے کو ختم کیا جا سکتا ہے

2019ع میں پنجاب اسمبلی کی ایک رکن کی بیٹی نے اپنے سولہ سالہ گھریلو ملازم پر اتنا تشدد کیا تھا کہ اس کی جان چلی گئی تھی، لیکن ہوا کیا تھا وہ ایک بااثرخاتون کی بیٹی تھیں، گرفتاری وغیرہ تو خیر کیا ہونی تھی کچھ عرصے میں مُک مکا ہو گیا

ایسا ہی دس سالہ طیبہ کے کیس میں ہوا۔ اس کے زخموں اور نیل پڑے چہرے کو عالمی میڈیا کی توجہ بھی مل گئی مگر معاملہ کیونکہ ایک جج صاحب اور ان کی بیگم کا تھا تو آخرکار اس معاملے میں بھی سمجھوتہ ہو گیا تھا

اب وہ بچی کہاں ہے، اور کس حال میں ہے، ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔۔

گھریلو ملازم بچے اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر کچھ بول نہیں سکتے کیونکہ ان کے ماں باپ غربت کے ہاتھوں مجبور وہ بیوپاری ہیں جو چند ہزار کے لیے ان کے جسم کا ہی نہیں روح کا سودا بھی کر دیتے ہیں

یہ بچے بھی تو پرندوں کی طرح پنجروں میں قید ہیں جس سے رہا ہونا آسان نہیں۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close