الٹرا پروسیسڈ کھانے کیا ہیں اور صحت پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

ویب ڈیسک

انسان کی تنوع پسند فطرت کی وجہ سے اس میں ہمیشہ نئے سے نئے تجربات کا میلان رہا ہے۔ یہ میلان زندگی کے ہر پہلو میں کارفرما نظر آتا ہے۔ زبان کے لیے نئے سے نئے ذائقوں کی تلاش میں انسان نے آگ اور مصالحے دریافت کیے اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا

مستقل کھانے پینے کی اشیا کو مسلسل توڑنے اور پھر جوڑنے کے نئے طریقے ایجاد کرتے کرتے بھی اسی کی مرہون منت ہے ذائقوں کی تلاش کا یہ سفر دور جدید میں ’الٹرا پروسیسڈ‘ کھانوں تک آ پہنچا ہے

لیکن انسان نے خوراک کو الٹرا پروسیسڈ بنانے کی منزل تک کھانوں پر تجربات کر کے ان کے ساتھ بہت کچھ کیا، وہ کھانے بھی اس کے ساتھ جو کچھ کرتے ہیں، وہ ایک الگ ہی کہانی ہے

’الٹرا پروسیسڈ‘ کھانے کیا ہیں اور ہمارے جسم کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟

پکلنگ، کیننگ، پیسچورائزنگ، فرمنٹنگ، ری کونسٹیٹیوٹنگ ۔ یہ سب فوڈ پروسیسنگ کی شکلیں ہیں، اور حتمی نتائج اکثر کافی مزیدار ہوتے ہیں

لیکن جو چیز ’الٹرا پروسیسڈ‘ فوڈز (یو پی ایف) کو منفرد بناتی ہے، وہ یہ ہے کہ انہیں پہچان سے کہیں زیادہ اور کیمیائی طور پر تبدیل کر دیا جاتا ہے اور اس میں ایسے مختلف طریقے اور اجزا استعمال کیے جاتے ہیں جو ہم گھر پر کھانا پکاتے وقت عام طور پر استعمال نہیں کرتے

کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر کرس وان ٹولکین نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے لیے ایک تجربہ کیا تھا، جس میں انہوں نے ایک ماہ تک ’الٹرا پروسسڈ کھانا کھایا، لیکن یہ کوئی خوشگوار تجربہ ثابت نہیں ہوا

یہ تجربہ دستاویزی فلم ’ہم اپنے بچوں کو کیا کھلا رہے ہیں؟‘ کا حصہ تھا۔ اس تجربے کے دوران ڈاکٹر ٹولکین نے ایک ایسی غذا کھائی، جس میں انہیں 80 فیصد کیلوریز الٹر پروسسڈ کھانوں سے حاصل ہوئیں۔ یہ وہ تناسب ہے، جو تیزی سے زیادہ آمدنی والے ممالک جیسے برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکہ میں عام ہو رہا ہے

مہینے کے اختتام پر ڈاکٹر ٹولکین نے کم نیند، سینے اور معدے میں جلن، سستی، قبض، پائلز اور وزن میں سات کلو اضافے کی اطلاع دی

ان کا کہنا تھا ”میں نے خود کو دس سال بوڑھا محسوس کیا۔۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ یہ سب کچھ کھانوں کی وجہ سے ہے، اور یہ احساس اس وقت تک نہیں ہوا جب تک میں نے وہ کھانا کھانا چھوڑ نہیں دیا“

وزن بڑھنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ٹولکین نے جنسی مسائل، انتہائی بے چینی، افسردگی اور نیند نہ آنے جیسے تجربات محسوس کیے

ڈاکٹر ٹولکین کے تجربے کے ساتھ ساتھ کی گئی ایک اور تحقیق میں اس کی کچھ سائنسی وجوہات بتائی گئی ہیں

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے مقابلے میں جو کم یوپی ایف کی غذا کھاتے ہیں، الٹرا پروسیسڈ غذا کھانے والے افراد نے روزانہ پانچ سو سے زیادہ کیلوریز کھائیں

یہ بھی دیکھا گیا کہ بھوک کے لیے ذمہ دار ہارمونز میں اضافہ ہوا اور اس ہارمون میں کمی ہوئی، جس سے ہمیں پیٹ بھرنے یا سیری کا احساس ہوتا ہے، جس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ بہت سے لوگوں نے کیوں زیادہ کھانا کھایا اور وزن بڑھا لیا

لیکن وزن میں اضافہ زیادہ ’یو پی ایف‘ والی غذا سے منسلک مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے۔ کئی دیگر مطالعات میں دیکھا گیا ہے کہ ’یو پی ایف‘ غذا کے طویل عرصے تک کھانے اور دل کی بیماری، موٹاپا، ذیابیطس کی دونوں اقسام، کچھ طرح کے کینسروں اور حتیٰ کہ ڈپریشن میں بھی ایک طرح کا تعلق ہے

الٹرا پروسیسڈ کھانے ہم بہت پسند کرتے ہیں لیکن ان کا استعمال ہماری صحت کے لئے نہایت ہی نقصان دہ ہے اس کے استعمال سے کم نیند، سینے اور معدے میں جلن، سستی، قبض، پائلز اور وزن میں اضافے جیسے مسائل جنم لیتے ہیں

دوسری جانب فرانس میں کی جانے والی ایک تحقیق میں ، محققین کو پتہ چلا کہ جن افراد نے روزانہ الٹرا پروسس شدہ کھانے کی مقدار میں 10 فیصد اضافہ کیا، انہیں جلد موت کا 14 فیصد زیادہ خطرہ درپیش ہے۔ تحقیق کے لئے پینتالیس سے اکیاون سال کی عمر کے فرانسیسیوں نے دو سال تک اپنی غذا، صحت اور جسمانی سرگرمی کے بارے میں معلومات پیش کیں۔ الٹرا پروسیسڈ کھانوں کا استعمال شدہ کھانوں کے وزن میں سے تقریبا 14، 14 فیصد وزن اور کل کیلوری کی مقدار کا تقریبا 29 فیصد حصہ ہے

بی ایم جے جریدے میں ایک مطالعہ شائع کیا گیا جس میں بتایا گیا ہے کہ جن لوگوں نے انتہائی روزانہ کھانے کی روزانہ کی مقدار میں 10 فیصد اضافہ کیا، ان کے مجموعی کینسر کے خطرے میں 12 فیصد اور چھاتی کے کینسر میں 11 فیصد اضافہ ہوا

اگرچہ مطالعہ میں قطعی وجہ کی نشاندہی نہیں کی گئی کہ الٹرا پروسس شدہ کھانے کی وجہ سے کینسر کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے ، تاہم محققین نے کئی نظریات پائے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ کھانے میں نمک ، چینی اور چربی کی زیادہ مقدار ہوتی ہے۔ ان اجزاء کو موٹاپا سے جوڑا گیا ہے ، جس سے کینسر کا زیادہ خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ کچھ الٹرا پروسس شدہ کھانے میں کچھ اضافی چیزیں ہوتی ہیں جن میں کارسنجینک خصوصیات ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ، کھانے کی ساخت کو بہتر بنانے کے لئے ٹائٹینیم ڈائی آکسائیڈ کو سفید کرنے والے ایجنٹ کے طور پر یا فوڈ پیکیجنگ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بڑی آنت یا معدے کی سوزش پر گھاووں کا سبب بن سکتا ہے

اس کے علاوہ ، ایک اور نظریہ اعلیٰ درجہ حرارت ہے، جو کھانے پر عمل درآمد کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جس سے نو تشکیل شدہ آلودگی پیدا ہوسکتی ہے۔ آخر میں ، بی پی اے (بیسفینول اے) عام طور پر فوڈ پیکیجنگ میں استعمال ہوتا ہے اور وہ کھانے میں جنک سکتے ہیں

دلچسپ بات یہ ہے کہ صحت کے قومی انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے محققین کے ذریعہ کی جانے والی ایک تحقیق اور سیل میٹابولزم جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ انتہائی پروسیسرڈ خوراک پر مشتمل ڈائیٹ کھانے سے لوگوں کو ضرورت سے زیادہ کھانے اور وزن بڑھنے کا اشارہ ملتا ہے۔ محققین نے پایا کہ انتہائی پروسیسڈ شدہ غذا پر رضاکاروں نے ہر دن 508 مزید کیلوری کھائی اور دو ہفتوں میں اوسطا دو پونڈ حاصل کرلیا۔ مطالعہ کے شرکاء جنہوں نے پوری یا کم سے کم پروسیس شدہ کھانوں کو کھایا، اسی مدت کے دوران تقریبا دو پاؤنڈ کھوئے

اگرچہ الٹرا پروسیسرڈ کھانے کی صحت پر اس طرح کے اثرات مرتب ہونے کی صحیح وجوہات جاننے کے لئے مزید مطالعات کی ضرورت ہے ، تاہم ، یہ کہنا محفوظ ہے کہ ان کو کھانے کے مضر اثرات بہت ہی زیادہ ہیں

انسان کو الٹرا پروسیسڈ کھانے مرغوب کیوں ہیں؟

مطالعہ میں یہ بھی دیکھا گیا کہ یو پی ایف کا ہمارے کھانے پر بھی اثر پڑا ہے۔ یو پی ایف سے بھرپور غذا کھانے والے افراد نے ان افراد کی نسبت بہت تیزی سے کھانا کھایا، جن کی غذا میں بہت کم پروسسڈ فوڈ شامل تھا۔ ماضی میں کی گئی ایک اور تحقیق میں آہستہ کھانے والوں کو زیادہ بھرا ہوا اور پرسکون دیکھا گیا۔ لیکن ڈاکٹر ٹولکین یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ الٹرا پروسیسڈ کھانا ’وہ آسانی سے چبا اور نگل رہے تھے۔‘

فوڈ اور نیوٹریشن کی سائنسدان ڈاکٹر ایما بیکٹ یہ سمجھ سکتی ہیں۔ ’الٹرا پروسسڈ کھانے ذائقہ دار ہوتے ہیں۔‘ بطور ماہرِ غذائیات ان کے پاس بہت سی آسان وضاحت ہے

وہ کہتی ہیں کہ چربی اور کاربوہائیڈریٹ یا نشائستہ دار غذا سے ہماری محبت ’ارتقاء کا خمار‘ ہے۔ ’جب ’نیچرل‘ سیلیکشن نے ہماری ذائقہ کی حس کا انتخاب کیا تو اس وقت توانائی اور نمک کے ذرائع بہت کم تھے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد کے لیے ’میٹھا اور عمامی (نمک کی طرح کا گوشتہ جیسا ذائقہ) بالواسطہ توانائی کے ذرائع، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین کی طرف بالترتیب اشارہ تھا۔ نمک سے بھوک لگنے کا امکان ہوتا ہوگا کیونکہ یہ تھوڑی مقدار میں ضروری تو ہے لیکن تاریخی اعتبار سے آسانی سے دستیاب نہیں تھا۔‘

لیکن ایک عنصر جو شاید ارتقاء سے کم اہم تو نہیں، وہ پیداواری عمل ہے، جو ان الٹرا پروسسڈ کھانوں کے پیچھے ہے

ڈاکٹر بیکٹ بتاتی ہیں ’یہ مصنوعات اکثر ہمارے ’بلِس پوائنٹس‘ (لطف اٹھانے والی حس) کے لیے تیار کی گئیں ہیں۔ نمک، چربی اور/یا چینی کی کامل سطح اور سیری کے لیے مخصوص حص کے پوائنٹ کے ذرا قریب وہ نقطہ ہے جہاں آپ کے حواس مغلوب ہو جاتے ہیں، اور آپ مزید کچھ اور نہیں چاہتے۔‘

دوسرے لفظوں میں الٹر پروسسڈ کھانے ہمارے دماغوں سے الجھ رہے ہیں

کھانے کے متعلق یہ بتانے کا، کہ وہ انتہائی پروسسڈ ہے ایک طریقہ یہ ہے، کہ اپنے آپ سے یہ پوچھا جائے کہ کیا میں نے اس کا اشتہار دیکھا ہے؟

ڈاکٹر ٹولکین اعتراف کرتے ہیں کہ ’الٹرا پروسیسڈ غذا کھانا ایک ایسی چیز بن گیا ہے، جس کے متعلق میرا دماغ صرف مجھے بتاتا ہے، چاہے مجھے اس کی ضرورت نہ بھی ہو‘

درحقیقت ان کی دماغی سرگرمی کے اسکینز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انعام کے لیے ذمہ دار دماغ کے حصے ان حصوں سے مل گئے ہیں، جو بار بار کام کرنے والے خود کار رویے کو کنٹرول کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر ان کے دماغ کو الٹرا پروسسڈ غذا کی لت میں پڑ گئی تھی

ڈاکٹر ٹولکین یہ بھی نے اعتراف کرتے ہیں کہ ’ایک واقعی مزیدار کھانے کا ایک ضمنی اثر یہ ہوتا ہے کہ اسے کھانا بند کرنا واقعی مشکل ہو جاتا ہے‘

ڈاکٹر بیکٹ کہتی ہیں کہ گویا جیسے انہیں ہمیں اس کی لت لگانے کے لیے ابھی اور مدد کی ضرورت ہو، ان کھانوں کی جارحانہ مارکیٹنگ انھیں ہمارے ذہن میں اور بھی گہری طرح چھاپ دیتی ہے

’ہمارے کھانے کے بہت سے انتخابات لاشعوری اور عادتاً ہوتے ہیں۔ ہم ہمیشہ جان بوجھ کر صحت کے بارے میں نہیں سوچتے۔ جتنا ہم اسے اسٹورز میں، میڈیا میں اور اشتہارات میں دیکھتے ہیں، اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ ہم اسے خریدیں گے۔‘

سو اگر یوپی ایف صحت کے لیے اتنا ہی خطرہ ہیں تو آپ کو حیرت ہونے لگے گی کہ وہ ہیں ہی کیوں۔

ڈاکٹر بیکٹ کہتی ہیں کہ ’آسٹریلین گائیڈ ٹو ہیلتھی ایٹنگ‘ میں ہم ان کھانے کو ’صوابدیدی کھانے‘ کہتے ہیں، کیونکہ یہ ضرورت نہیں، انتخاب ہیں۔‘

لیکن وہ کہتی ہیں کہ جن کے پاس انتخاب کی سہولت ہے انھیں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ’ہر ایک صحت کے لیے کھانے کے انتخاب کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ الٹرا پروسیسڈ کھانے طویل عرصے تک چلتے ہیں، آسانی سے سفر کرتے ہیں، اور ان کی تیاری میں بہت کم وقت لگتا ہے۔ جب ہمارے پاس وقت یا کیش کم ہو تو یہ توازن کے لیے اچھا آپشن ہو سکتے ہیں۔‘

لیکن اس کا نتیجہ بہرحال ناگزیر ہے آسان زبان میں: ابھی آپ اسے پسند کریں گے، لیکن بعد میں آپ کو پچھتاوا ہوگا

وہ کہتی ہیں کہ ڈرانے والی اصل قوتیں وہ ہیں جو لوگوں کو صحت مند کھانے کے بجائے الٹرا پروسیسڈ کھانوں کے انتخاب کی طرف راغب کرتی ہیں

وہ کہتی ہیں ’مثال کے طور پر دائمی تناؤ، میٹھا، چربی اور نمکین کھانوں کے لیے ہماری بھوک بڑھا سکتا ہے۔ اور تناؤ اس وقت اور طاقت کو متاثر کر سکتا ہے جو ہم صحت مند خوراک کو دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close