تاریخ دوراہے پر

ڈاکٹر مبارک علی

برصغیر پاک و ہند میں جب فرقے وارانہ جذبات نے سیاست کو متاثر کیا تو اس کے نتیجے میں ہندوتوا اور دو قومی نظریہ وجود میں آیا۔ ہندو اور مسلمان دو قوموں میں تقسیم ہو گئے۔ اس ماحول میں تاریخ نویسی بھی متاثر ہوئی، سب سے پہلے جیمز مل نے اپنی کتاب ‘‘A History of British India” میں ہندوستان کی تاریخ کو تین مذہبی ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ قدیم ہندوستان کو ہندو پیریڈ، عہدوسطیٰ کو مسلم پیریڈ اور جدید دور کو برطانوی پیریڈ کہا ہے

تاریخ کی اس مذہبی تقسیم کو ہندوستانی مورخوں نے چیلنج کیا۔ ان کی دلیل کے مطابق قدیم ہندوستان میں ہندو راجاؤں اور مہاراجاؤ کے علاوہ بدھ مت کے ماننے والے حکمران بھی تھے۔ اسی طرح عہد وسطیٰ میں مسلمان بادشاہوں کے ساتھ ساتھ ہندو ریاستیں بھی تھیں۔ اس لیے تاریخ کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنا کسی بھی لحاظ سے درست نہ تھا، لیکن اس کی وجہ سے ہندوستان کے نئے ماحول میں تاریخ کے بارے میں کئی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں

1924ء کی دہائی میں جب سیاست فرقے واریت کا شکار ہوئی تو تاریخ پر بھی اس کا اثر پڑا۔ ہندوستانی مسلمانوں نے اپنی بڑائی اور برتری کو ثابت کرنے کے لیے تاریخ کا سہارا لیا اور ان حملہ آوروں کو ہیرو بنایا، جنہوں نے ہندو حکمرانوں کو شکستیں دی تھیں۔ اس نقطہ نظر سے عہد وسطیٰ کی تاریخ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جنگ و جدل اور غارت گری کا سبب بن گئی۔ اس کے ردعمل میں ہندو مورخوں نے ان حکمرانوں کی تعریف و توصیف کی، جنہوں نے مسلمان حملہ آوروں کے خلاف وطن کا دفاع کیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں جانب مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات اُبھرے

ہندوستانی مسلمانوں میں اس بات کو دہرایا گیا کہ انہوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال تک حکومت کی اور ہندوؤں کو غلام بنا کر رکھا۔ اس کے ردعمل میں اب بی جے پی کے مورخ یہ کہتے ہیں کہ اس نقطہ نظر کے تحت مسلمان نہ صرف حملہ آور تھے، بلکہ ایک کلونیل طاقت بھی تھے۔ ایک ایسی طاقت جس نے ہندوستان کو اپنے سیاسی تسلط میں رکھا

مغلوں کے زوال کے بعد یہاں برطانوی اقتدار قائم ہوا، لہٰذا ہندوستان تیرہویں صدی سے لے کر 1947ء تک آزاد نہیں تھا۔ یہاں پہلے مسلمانوں کی حکومت تھی۔اس کے بعد انگریز آ گئے اور 1947ء میں جا کر ہندوستان آزاد ہوا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب عام مسلمان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مسلمانوں نے یہاں ایک ہزار سال تک ہندوؤں کو غلام بنائے رکھا تو یہ سوچ غلط ہو جاتی ہے، کیونکہ ہندوستان کے عام مسلمان جن میں کسان مزدور کاریگر اور ہنرمند شامل تھے انہیں حکومت کی جانب سے کوئی مراعات حاصل نہیں تھیں۔ مسلمان حکمران ہندو اور مسلمان کسانوں اور پیشہ وارانہ کاریگروں کے ساتھ یکساں سلوک کرتے تھے۔ اس لیے تمام مسلمانوں کو اس پر فخر نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ حکمران خاندان اپنے مفادات کی خاطر ہندو امراء سے خود کو زیادہ قریب سمجھتے تھے

بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ یہاں مسلمان حملہ آور آئے اور انہوں نے فوجی طاقت کے ذریعے اپنے اقتدار کو قائم کیا۔ لیکن حملہ آور دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو محض لوٹ مار کے لیے آتے ہیں اور مال غنیمت لے کر واپس چلے جاتے ہیں، لیکن دوسرے وہ حملہ آور ہوتے ہیں جو اپنی فتوحات کے بعد اسی ملک میں آباد ہو جاتے ہیں

مسلمانوں میں دونوں قسم کے حملہ آور تھے جیسے محمود غزنوی یا محمد غوری لیکن ان میں وہ حملہ آور بھی تھے، جنہوں نے فتوحات کے بعد یہاں مستقل قیام کر لیا۔ خاص طور سے مغل خاندان کے بادشاہوں نے خود کو ہندوستانی بنا لیا تھا

اگرچہ بابر بھی ایک حملہ آور تھا اور ہندوستان پر اس کے حملے کا مقصد یہاں سے مال غنیمت حاصل کرنا تھا، لیکن جب 1526/27 میں ابراہیم لودھی اور رانا سانگھا کے خلاف جنگوں میں فتوحات حاصل کیں تو اس نے اپنے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خدا نے یہ ملک ہمارے حوالے کر دیا ہے اس لیے ہمیں یہاں قیام کرنا چاہیے۔ اس کے فوجی ہندوستان کی گرم آب و ہوا سے تنگ تھے اور واپس کابل جانا چاہتے تھے

اس کے ایک ساتھی جس کا نام خواجہ کلاں تھا، جو ہندوستان چھوڑتے وقت قلعے کی فصیل پر یہ شعر لکھ کر چلا گیا کہ اگر میں نے حفاظت سے سندھ کو پار کر لیا تو مجھ پر لعنت ہو جو میں دوبارہ ہند کا نام لوں، بابر کو ہندوستان سے بہت مال غنیمت ملا یہاں تک کہ اس نے کابل کے ہر شہری کو تحفے میں ایک شاہ رُخی بھجوائی۔ بابر اگرچہ ہندوستان کی آب و ہوا اور یہاں کے کلچر سے خوش نہ تھا تو زک بابری میں بار بار وہ کابل کے موسم اور پھلوں کا ذکر کرتا۔ ہندوستانیوں کے لیے اس کے ہاں حقارت کے جذبات ہیں۔ وہ وصیت کرتا ہے کہ اس کو کابل میں دفن کیا جائے مغلوں کو ہندوستانی بنانے کا کام اکبر نے کیا، جس نے ہندوستانی کلچر کو اختیار کر کے مغل دربار میں مذہبی فرق کو ختم کر دیا

اس لیے اگر مغل حکمرانوں اور سلاطین دہلی کو کلونیل قرار دیا جائے تو پھر ان کی بنائی ہوئی عمارتیں اور یادگاریں، ان کے سیاسی تسلط کو ظاہر کرتی رہیں گی۔ انگریز تو حکومت کرنے کے بعد ہندوستان سے چلے گئے اور اپنی تعمیر شدہ عمارتیں اور سیاسی انتظام کو یہاں چھوڑ گئے۔ اب بی جے پی کی کوشش ہے کہ مسلمان حکمرانوں کے غلط غلبے اور تسلط کو زائل کیا جائے

ہندوستان میں ہزاروں شہروں اور قصبوں کے نام مسلمان بادشاہوں یا امراء کے ناموں پر ہیں۔ انہیں تبدیل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ بابری مسجد کو تو مسمار کر دیا گیا، مگر ہزاروں عمارتیں پورے ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہیں۔ کبھی کبھی یہ مضحکہ خیز کوشش بھی کی جاتی ہے کہ تاج محل ایک ہندو مندر تھا، لہٰذا ہندوستان کے مسلمان انگریزوں کی طرح نہ تو واپس گئے اور نہ ہی ہندوستان کی دولت کو ہندوستان سے باہر لے کر گئے

لیکن مسلمانوں کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے ہندوؤں کو ہزار برس تک غلام بنا کر رکھا ہے۔ تاریخی لحاظ سے غلط ہے۔ حال ہی میں ترکی کے صدر ایردوآن نے جب پاکستان کا دورہ کیا تو اس کو خوش کرنے کے لیے کہا گیا کہ ترک ایک عظیم قوم ہے، جس نے ہندوستان پر حکومت کی تھی۔ اس قسم کے جملے تاریخی غلط فہمیوں کو پیدا کرتے ہیں اور جب تاریخ کے بیانیے کی بنیاد نفرت پر ہو اور اس کو مسخ کر کے پیش کیا جائے تو تاریخ مفاہمت کے بجائے دُشمنی اور عداوت کا باعث ہو جاتی ہے

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اُردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close