وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے سات مزید معاونینِ خصوصی کی تقرری کے بعد سے کابینہ کی کل تعداد 86 ارکان تک پہنچ چکی ہے۔ یوں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت کابینہ کی کل تعداد 86 ہو چکی ہے، جن میں سے 40 معاونینِ خصوصی ہیں۔ جبکہ اس وقت 38 قائمہ کمیٹیاں ہیں جن میں سے 22 کی سربراہی پی ڈی ایم کے ارکان کر رہے ہیں
ملک میں سیاسی مبصرین اس بات کو نوٹ کر رہے ہیں کہ تازہ ترین تقرریاں ایسے وقت میں ہوئی ہیں، جب پاکستان میں حکام عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات کر رہے اور ملک میں مہنگائی میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر صرف تین ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے معاونین خصوصی کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ارکان اسمبلی اور سیاسی شخصیات عہدوں کے ساتھ اپنے حلقوں پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں
واضح رہے کہ حکومت نے ملک میں کفایت شعاری مہم کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی، جس کا کام ملک میں اخراجات کو کم کرنے کے بارے میں سفارشات دینا تھا. اس کمیٹی نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فی صد کٹوتی کی بھی سفارش کر رکھی ہے
حیرت کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے معاونین خصوصی کی فوج میں سے 23 کے پاس تو کوئی قلم دان تک نہیں ہے اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید لطیف بھی کئی مہینوں سے بغیر کسی قلم دان کے وفاقی وزیر ہیں۔ اس سے قبل سینئر قانون دان عرفان قادر کو بھی معاون خصوصی مقرر کیا گیا تھا
ملک کو درپیش معاشی بحران کے دوران، جب حکومتی زعما ’زہر کھانے تک کے پیسے نہیں ہیں’ کے بیانات داغ رہے ہیں، مزید تقرریاں ہونے پر اس وقت سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ جہاں چند لوگ اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں، کہ ان تقرریوں کی کیا تُک بنتی ہے، وہیں یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ ایک معاونِ خصوصی حکومت کو یا پھر یوں کہہ لیں کہ عوام کو کتنے میں پڑتا ہے خرچہ کرتی ہے؟
پاکستان کے آئین کے مطابق وزیرِ اعظم ایک وقت میں چار سے زیادہ مشیر نہیں رکھ سکتے، لیکن معاونینِ خصوصی کی کوئی تعداد یا حد مقرر نہیں ہے
اور زیادہ تر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان ارکان کا کسی خاص شعبے سے ہونا بھی لازمی نہیں سمجھا جاتا اور وزیرِ اعظم کی جانب سے یہ تقرریاں ان کے عہدوں کی نشاندہی کیے بغیر کر دی جاتی ہیں۔ اس کی مثال حالیہ دنوں میں وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ہونے والی سات تقرریاں ہیں، جن میں ان تمام معاونینِ خصوصی کے عہدوں کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔ جس سے ان کے عہدوں کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے
مثال کے طور پر حکومت کے ایک ترجمان نے بتایا کہ معاونینِ خصوصی کی تقرری کے بعد کابینہ ان کے قلمدان یا ’پورٹ فولیو‘ طے کرتی ہے اور اس کا اعلامیہ جاری کرتی ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں مقرر ہونے والے ان معاونینِ خصوصی کے پورٹ فولیوز کے بارے میں اب تک کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا ہے
جبکہ حکومت کی جانب سے ان سات معاونینِ خصوصی کے ناموں کے نیچے لکھا ہے کہ یہ ’پرو بونو یعنی عوامی بہبود کی تقرریاں ہیں۔‘
حکومت کا ان تقرریوں کے بارے میں دعویٰ ہے کہ یہ معاونین خصوصی خزانے پر کوئی بوجھ نہیں، کیوں کہ یہ تمام افراد کسی تنخواہ کے بغیر کام کریں گے۔ وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے جیو ٹی وی کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں ایک سوال کے جواب میں کہا ’جو تقرریاں ہو رہی ہیں وہ اعزازی ہیں اور عزت دینے کی غرض سے کی جا رہی ہیں۔ ان تقرریوں سے قومی خزانے پر کوئی بوجھ نہیں پڑرہا ہے۔‘
لیکن اتنے خراب معاشی حالات میں کابینہ کیوں بڑھائی جا رہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’کابینہ کا سائز اتنا ہی ہے جتنا تھا۔ یہ تو لوگوں کو عزت دینے والی بات ہے۔‘ تاہم رانا ثنا اللہ اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ معاونِ خصوصی کن شعبوں میں مقرر کیے ہیں
لیکن حکومت کے اس دعوے ، کہ یہ تقرریاں قومی خزانے پر بوجھ نہیں ہیں، حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے
پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں ”کابینہ میں اضافہ قومی خزانے پر یقیناً بوجھ ہے۔ ان معاونین کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ کوئی تنخواہ نہیں لے رہے۔ لیکن ان کو ایک دفتر مہیا کیا جائے گا، اسٹاف دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں گاڑی ملے گی“
ان کا کہنا تھا کہ ان سب چیزوں کے اخراجات ہوں گے۔ وہ سفر کریں گے تو انہیں پروٹوکول دیا جائے گا۔ یہ ان کے براہ راست اخراجات ہیں جو ہر حال میں ہوں گے
انہوں نے کہا کہ الیکشن کا سیزن قریب ہے اور لوگوں نے اپنے حلقوں میں جا کر کام کروانے ہیں۔ اگر ان کے پاس سرکاری عہدہ ہوگا تو ان علاقوں میں موجود افسران اور دیگر سرکاری عملہ ان کی بات مانے گا۔ اس کے علاوہ گاڑی پر پرچم لگے ہونے سے ان کے ورکرز کو فائدہ ہوتا ہے
احمد بلال محبوب کے بقول ان میں سے بیشتر کے پاس کوئی قلم دان بھی نہیں ہے۔ حتیٰ کے ایک وزیر کے پاس بھی کوئی محکمہ بھی نہیں ہے
پلڈاٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آئین میں وفاقی وزرا، وزرائے مملکت اور مشیران کی تعداد کے حوالے سے لکھا ہوا ہے۔ لیکن معاونین خصوصی کے بارے میں کچھ بھی نہیں لکھا ، یہ ایک ایگزیگٹو اختیار ہے اور کوئی بھی وزیراعظم اپنی مرضی کے مطابق اس کی تعداد رکھ سکتا ہے
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں یوسف رضا گیلانی کی حکومت پاکستان کی تاریخ میں ایسی حکومت تھی، جس میں وزرا، وزرائے مملکت، مشیران اور معاونین خصوصی کی تعداد 91 تھی۔ موجودہ حکومت دوسرے نمبر پر ہے، جس میں یہ اتنی بڑی تعدادہے
انہوں نے کہا کہ معاونین خصوصی وزرا پر مشتمل کابینہ میں شامل نہیں ہوتے اور یہ کابینہ کے اجلاس میں بھی دعوت نامہ ملنے کے بعد ہی شریک ہوتے ہیں
دوسری جانب فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے سربراہ مدثر رضوی کہتے ہیں کہ معاونین خصوصی کا تقرر اور اخراجات اپنی جگہ ایک مسئلہ ہوگا لیکن میرے نزدیک اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کابینہ میں شامل وزیر اور وزرائے مملکت کا باقاعدہ حلف ہوتا ہے جس کے بعد انہیں وزارتیں اور محکمے دیے جاتے ہیں لیکن اس وقت 40 کے قریب معاونین خصوصی ہیں، جو کسی حلف کے بغیر حکومت کا حصہ ہیں
امرکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مدثر رضوی نے کہا کہ یہ لوگوں کو خوش کرنے کا طریقہ ہے، جس میں اپنے قریبی افراد کو نوازا جاتا ہے۔ کئی ایم این ایز کو بھی یہ اسٹیٹس دیا گیا ہے۔ پچھلی حکومت میں بعض معاونین خصوصی وزارتیں بھی چلا رہے تھے جیسے صحت کی وزارت کافی عرصہ تک معاون خصوصی ہی چلاتے رہے
مدثر رضوی نے کہا کہ اصل میں یہ متعلقہ قانون سازی میں خامی کی وجہ سے ہے، وزرا، وزرائے مملکت اور مشیران کی تعداد آئین میں مقرر کردی گئی ہے لیکن معاونین خصوصی کی تعداد کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ اگر قانون سازی کے ذریعے ان کی تعداد بھی مقرر کردی جائے تو بہت بہتر ہوگا کیوں کہ حکومت اسی شق کے نہ ہونے سے فائدہ اٹھاتی ہے
ان کا کہنا تھا کہ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان معاونین خصوصی کی بڑی تعداد بڑے حکومتی معاملات میں شامل ہوتی ہے اور یہ بڑے فیصلے بھی کرتے ہیں۔ ان کے بقول اگر کوئی رکن قومی اسمبلی ہے تو بھی اس نے حلف اٹھایا ہوتا ہے۔ لیکن اکثر معاون خصوصی نہ تو سینیٹ کے رکن ہیں اور نہ ہی ایم این اے ، ان لوگوں نے ریاست سے وفاداری کا حلف بھی نہیں اٹھایا ہوتا۔لیکن وہ حکومت کے بڑے فیصلوں میں شامل ہوتے ہیں
انہوں نے کہا کہ بعض معاملات حساس ہوتے ہیں، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان لوگوں کو ایسے فیصلوں میں بٹھانا چاہیے یا نہیں۔ اگر باہر سے آنے والا ایک شخص کابینہ کے اجلاس میں بیٹھتا ہے۔ اس کے تمام فیصلوں کو سنتا ہے جب کہ اس کے پاس کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے
کفایت شعاری کے معاملہ پر مدثر رضوی کا کہنا تھا کہ کفایت شعاری ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن اس پر جو اخراجات ہیں وہ چند کروڑ وں کے ہوں گے۔ کفایت شعاری کا معاملہ اٹھانا مسئلے کا حل نہیں ہے
اس وقت سول بیوروکریسی میں شامل افراد کئی کئی گاڑیاں اور مراعات استعمال کر رہے ہیں۔ اگرکفایت شعاری کرنے ہے تو ان سے آغاز کیا جائے۔ ان کا احتساب کیا جائے۔ کچھ عرصے کے لیے آنے والے معاونین خصوصی کی گاڑیوں اور اخراجات کا کہہ کر تمام بچت انہی سے کرنے کا نہیں کہا جا سکتا
تجزیہ کار ہارون شریف نے بتایا کہ معاونِ خصوصی کی تقرری کا طریقہ کار غلط ہے۔ ’غلط بات یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ یہ واضح کیا جائے کہ یہ لوگ کیوں مقرر کیے گئے ہیں، ان کی تقرریوں کو ’اوپن اینڈڈ‘ رکھا جاتا ہے۔ یعنی آپ کوئی بھی مطلب اخذ کر لیں
آئین کے مطابق دو طرح کے وزیر ہوتے ہیں، ایک وفاقی وزیر اور دوسرا وزیرِ مملکت۔ ایسے میں معاونِ خصوصی کا درجہ وزیر مملکت سے جوڑا جاتا ہے تاکہ ان کو وہ تمام تر مراعات مل سکیں جو وزیر مملکت کو ملتی ہیں۔ ازخود معاونِ خصوصی کو کچھ نہیں مل سکتا اس لیے ایسا کیا جاتا ہے۔‘
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کے رہنما محسن نواز رانجھا نے کہا ’حکومت کو انتخابی مہم کے ذریعے آنے والے افراد چلاتے ہیں نہ کہ سیلیکٹڈ افراد۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سب سے پہلے اس کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں رکھی گئی تھی جب 1975 میں ترمیم کرکے آئین کا حصہ بنایا گیا تھا اور پھر 1985 میں صدارتی حکم کے ذریعے اس پر باقاعدہ عمل کیا گیا۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ معاشی بحران میں ایسی تقرریاں کرنا کیوں ضروری ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’اس وقت یہ تقرریاں بغیر کسی مراعات دیے کی گئی ہیں۔‘
البتہ ایک سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نئے تعینات ہونے والے معاونین تنخواہ تو نہیں لیں گے لیکن انہیں وزرا کو ملنے والی تمام مراعات حاصل ہوں گی، جن میں سرکاری رہائش، سرکاری گاڑی، پیٹرول، علاج کی سہولت اور دوسرے الاؤنسس شامل ہیں
ایک معاونِ خصوصی پر کتنا سرکاری خرچہ آتا ہے؟
ایک وزیر مملکت کی عام طور پر ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ اسی ہزار روپے ماہانہ ہوتی ہے۔ لیکن یہ ماہانہ تنخواہ تو محض ایک فگر ہے، اصل معاملہ مراعات کا ہے کیونکہ چند چیزوں کا استحقاق ان وزرا کے پاس ہوتا ہے، جن میں گاڑیاں ملنا، ماہانہ پیٹرول مختص کیا جانا، گھر کا کرایہ یا پھر گھر ملنا اور سرکاری خرچ پر علاج معالجہ وغیرہ شامل ہوتا ہے
کابینہ کے ایک رکن نے بتایا ’اگر کسی معاونِ خصوصی کو وزیر مملکت کے درجے پر لایا جاتا ہے، جیسا کہ اس نوٹیفیکیشن میں بھی واضح طور پر لکھا گیا ہے، تو ان کو وہ مراعات ملتی ہیں، جو کسی وزیر مملکت کو ملتی ہیں۔ اس طرح سے ایک معاونِ خصوصی پر سرکاری خرچہ پانچ لاکھ سے دس لاکھ ماہانہ کے قریب آتا ہے۔ جس میں گھر کا کرایہ، گاڑی، پٹرول اور دفتر شامل ہیں۔ یہ ماہانہ خرچہ اس سے تجاوز بھی کرسکتا ہے۔‘ جبکہ رکن نے بتایا کہ ’انتخابات کے نزدیک اس طرح کی تقرریاں کی جاتی ہیں تاکہ ووٹ بنک میں اضافہ کیا جاسک