نیلاب میں قدیم ہجری دور کی پراسرار چٹانیں

سجاد اظہر

باغِ نیلاب، جہاں دریائے سندھ اور دریائے ہرو آ کر ملتے ہیں، دریا 70 ڈگری پر مغرب کی جانب زاویہ بناتے ہوئے کالا چٹا پہاڑوں کے بیچوں بیچ اپنا سفر جاری رکھتا ہے

اٹک سے بسال کی جانب سفر کریں تو آپ اس گاؤں کے خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ یہاں جا بجا بکھرے ہوئے آثار گواہی دیتے ہیں کہ اس کی تزویراتی اہمیت کے سبب یہ علاقہ شمال سے آنے والے حملہ آوروں کی گزر گاہ رہا ہے

یہاں سے خوارزم شاہ، چنگیز خان، بابر، ہمایوں، اکبر اور جہانگیر نے دریائے سندھ کو پار کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہاں سندھ کا پانی اتنا شفاف ہے کہ اسی سبب اس کو نیلاب کہا جاتا ہے کبھی دریائے سندھ کو نیلاب کے نام سے ہی پکارا جاتا تھا

نیلاب میں وہ جگہ، جہاں سے دریا اپنا رخ بدلتا ہے، وہاں نسبتاً ایک کھلی جگہ ہے، جہاں سرخ چٹانیں موجود ہیں، ان چٹانوں پر مختلف نقش و نگار کنندہ ہیں

چٹانوں کی ساخت بتاتی ہے کہ یہ چٹانیں یہاں قریبی پہاڑوں کی نہیں بلکہ دریا میں بہہ کرآئی ہیں۔ یہ کہاں سے آئیں اور یہاں تک کیسے پہنچیں؟

اس کا جواب ہمیں چلاس میں ملتا ہے، جہاں ایسی چٹانیں بڑی تعداد میں موجود ہیں، جن پر اندازاً 30 ہزار نقش کنندہ ہیں۔ جس جگہ یہ چٹانیں موجود ہیں وہیں پرایک طرف کوہِ ہندوکش اور دوسری جانب قراقرم پہاڑی سلسلہ ہے

قدیم دور سے ہی شاہراہ ریشم مختلف تہذیبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ رہی ہے جہاں سے مسافر، تاجر، مذہبی سیاح اور ہنر مند آیا جایا کرتے تھے

اب یہ واضح نہیں کہ یہ نقش یہاں سے گزرنے والے مسافروں کی تخلیق ہے یا پھر یہاں کوئی ایسا قبیلہ آباد تھا، جو ایسے نقش بناتا تھا۔ اندازاً یہ نقش آٹھویں صدی قبل از مسیح سے لے کر آٹھویں صدی عیسوی کے درمیان کے ہیں

دیامیر اور چلاس میں ان نقوش کو سب سے پہلے ہنگری کے ایک سیاح کارل ایگن نے 1884ع میں دنیا سے روشناس کرایا تھا، تاہم جب یہاں سے شاہراہ قراقرم گزری تو تعمیراتی کام کے دوران ایسی چٹانیں کافی تعداد میں سامنےآئیں، جن پر مختلف جانوروں کی تصویریں اور مختلف نقش و نگار کنندہ تھے

اس کے بعد جب علاقے میں ایسی مزید چٹانوں کی کھوج 1983ع سے 1989ع کے دوران شروع کی گئی تو معلوم ہوا کہ گلگت بلتستان کے علاقوں شتیال، تھور، ہدور، تھلپان، نوپورا اور چھگدو میں بھی ایسی چٹانیں موجود ہیں

ان چٹانوں پر جو تحریریں موجود ہیں، وہ براہمی، سگدیاں، قدیم فارسی، چینی، تبتی اور حتیٰ کہ ہبرو زبانوں سے بھی مشابہہ ہیں

جس دور میں یہ نقش بنائے گئے اسے پتھر کا دور کہا جاتا ہے۔ اسی لیے اکثر تصویروں میں جانوروں اور ان کے شکار کے آلات بنائے گئے ہیں

اس علاقے میں کچھ چٹانوں پر بدھا اور سٹوپوں کی تصویریں بھی موجود ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ یہ پانچویں سے آٹھویں صدی کے درمیان کی ہیں

تاہم جو چٹانیں نیلاب میں دریائے سندھ کے کنارے موجود ہیں، ان میں ایسی تصویریں موجود نہیں ہیں۔ اگرچہ چٹانوں کی ساخت ایک جیسی ہے، جو اس بات کی دلالت بھی ہے کہ شاید یہ چٹانیں ایک ہی جگہ موجود تھیں۔ تاہم ان کے نقش مختلف ادوار کی نشاندہی کرتے ہیں

لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ بھاری بھرکم چٹانیں چلاس سے باغ نیلاب تک کیسےآئیں۔ کیا کوئی سیلاب ان چٹانوں کو یہاں تک لایا؟

جس جگہ یہ چٹانیں موجود ہیں، وہاں سے دریا اچانک کوئی 70 کے زاویے کا موڑ کاٹتا ہے۔ گویا کسی سیلاب کے نتیجے میں آنے والے پانی نے ان چٹانوں کو اچھال کر باہر پھینک دیا

پانی تو مڑ گیا مگر یہ چٹانیں اپنی بھاری بھرکم جسامت کی وجہ سے نہ مڑ سکیں اور آج نہ جانے کتنی صدیاں گزرجانے کے باوجود بھی یہیں ایستادہ ہیں

دلچسپ بات یہ ہے کہ سردیوں میں دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں کافی حد تک کمی آجاتی ہے کیوں کہ اوپر تربیلا ڈیم سے پانی کا اخراج بھی کم ہوجاتا ہے اس لیے ان چٹانوں کو با آسانی دریا سے کوئی سو دو سو قدم باہر دیکھا جا سکتا ہے مگر جب گرمیوں میں برف پگھلتی ہے تو دریا کا بہاؤ بھی بڑھ جاتا ہے جس کے بعد یہ چٹانیں پانی کے بیچ میں چلی جاتی ہیں

دریائے جہلم میں منگلا کے مقام پر ایک آبادی چترپڑی آتی ہے وہاں بھی ایسی چٹانیں موجود ہیں جن پر ایسی ہی اشکال بنی ہوئی ہیں

چتر مقامی زبان میں نقش و نگار کو کہتے ہیں اور پڑی، پتھروں کو، یعنی ایسی جگہ جہاں پتھروں پر کشیدہ کاری موجود ہے

لیکن یہ پتھر جو سینکٹروں کی تعداد میں ہیں وہ دریا سے کافی اونچائی پر موجود ہیں جس سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وہ دریا میں بہہ کر نہیں آئے بلکہ ہزاروں سال پہلے یہاں کوئی ایسا قبیلہ موجود تھا، جس نے پتھروں پر یہ کشیدہ کاری کی تھی

سوات کی تحصیل بری کوٹ میں بھی چٹانوں پر نقش و نگار موجود ہیں مگر ان میں اور باغِ نیلاب میں موجود چٹانوں کی ساخت اور نقش و نگار میں کوئی مماثلت موجود نہیں جو ان چٹانون کے مختلف ادوار اور مختلف تہذیبوں کو ظاہر کرتی ہے

تاہم چلاس میں دریائے سندھ کے کنارے موجود چٹانوں کی ساخت اور نقش باغِ نیلاب میں موجود چٹانوں سے ملتے جلتے ہیں۔ گویا یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ کوئی شدید سیلاب یا برفانی طوفان ان چٹانوں کو چلاس سے تقریباً 400 کلومیٹر نیچے باغ نیلاب تک لے آیا

یہ سیلاب یا طوفان کب آیا تھا، اس حوالے سے کوئی مستند تاریخ تو موجود نہیں تاہم 1841ع میں ضلع میں ایک تباہ کن سیلاب آیا تھا

ضلع اٹک کے گزیٹیئر مطبوعہ 1930ع کے 46 پر درج ہے ’اس سیلاب کی کہانی علاقے میں گیتوں کی صورت میں یاد کی جاتی ہے، پشتو کے ایک گیت کا ترجمہ اس طرح ہے:

لوگو یہ اللہ کے کام ہیں

دریائے سندھ تقریباً تین دن میں خشک ہو گیا

کشتیاں اور دوسری پانی کی سواریاں ختم ہو گئیں

جوان اور بوڑھے سندھ کو برابر کی سطح پر پار کریں گے

یہ حال چھ ماہ تک رہا اور لوگوں کے دلوں سے تمام ڈر جاتا رہا۔

اچانک شمالی علاقوں سے خبر آئی کہ سندھ شمالی علاقوں میں بند ہو گیا ہے۔ ایک دن دوپہر کے وقت سیلاب آ گیا، یہ دن قیامت کا دن تھا، کھبل اور ستانہ کے لوگ ڈوب گئے۔ بارائی میں کوئی نہیں بچا، ایک چوتھائی تربیلا بہہ گیا

جزیروں میں جو بھی زندگی تھی بچائی نہ جا سکی۔ گلاب کے پھولوں کی زمین ’بجواڑہ‘ دریائے سندھ کے پانی کے ساتھ مل گئی۔ چھچھ کے کچھ گاؤں تباہ ہوئے۔ یٰسین اور اصغربالکل تباہ ہو گئے۔ دریائے کابل کو پیچھے کی طرف دھکیل دیا گیا۔ جب سیلاب اٹک کے پہاڑوں سےٹکرایا تو چار ہزار جانیں ضائع ہو گئیں ۔سیلاب کی لہریں چارسدہ تک جا پہنچیں‘

پھر 1928ع میں دریائے سندھ میں 1841 جیسی تباہی آئی جب ’شایوک گلیشیئر‘ کے پھٹنے سے دریائے سندھ 25 سے 30 فٹ بلند ہو گیا

اب یہ نہیں معلوم کہ باغ نیلاب میں یہ چٹانیں مذکورہ بالا سیلابوں سے پہنچیں یا اس بھی کہیں پہلے یہ چٹانیں یہاں موجود تھیں

علاقے کی تاریخ پر کام کرنے والے محقق راجہ نور محمد نظامی کے بقول یہ چٹانیں میں نے 1989 میں پہلی بار دیکھی تھیں

ان چٹانوں پر جو تصاویر کنندہ ہیں وہ زمانہ قبل از تاریخ کی ہیں اور اپنے دور کے ماہر کاریگروں کی بنائی ہوئی ہیں جنہوں نے انہیں کسی تیز نوک دار آلے سے بنایا ہوگا

یہ تصاویر اپنے وقت کے لوگوں کے تخیل اور معمولات کو ظاہر کرتی ہیں ایسی تصاویر ضلع اٹک کے دیگر مقامات پر بھی موجود ہیں باغ نیلاب گاؤں کے ہی ایک مقامی مصنف عمران خان کھٹر اپنی کتاب ’نیلاب و کھٹر‘ میں لکھتے ہیں ’نقش و نگار سے مزین یہ چٹانیں گرینائٹ پتھر کی ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں سال گزرنے کے باوجود ان پر بنے ہوئے فن پارے محفوظ ہیں۔‘

ڈاکٹر ہارون الرشید نے بھی نیلاب میں موجود ان چٹانوں پر ایک تحقیقی مضمون 1972 میں لکھا جس میں کہا گیا کہ ’جب دوسرے برفانی عہد (10 لاکھ سال قبل) میں برف کے سیلاب کے ساتھ جو ایک بڑا گلیشیئر اس طرف آیا تھا اس میں یہ بڑی بڑی چٹانیں بھی بہتی ہوئی اس علاقے میں آکر کالا چٹا پہاڑ کے دربند سے ٹکرا کر اس علاقے میں پھیل گئیں۔ ان چٹانوں کا تعلق پلائیٹوسین عہد سے ہے۔‘

یہ نقش و نگار کسی تیز دھار آلے سے بنائے گئے ہیں، جو لوہے کا یا تانبے کا ہو سکتا ہے

انڈیا میں لوہے کا عہد 1500 قبل از مسیح تک جاتا ہے جبکہ تانبے کا ساڑھے تین ہزار سال قبل از مسیح تک جاتا ہے

باغ نیلاب میں موجود چٹانیں جس طرح الٹی پلٹی پڑی ہیں اس سے اندازہو تا ہے کہ یہ چٹانیں یہاں کے کسی قدیم قبیلے کا شاہکار نہیں ہیں بلکہ یہ چلاس سے ہی بہہ کر آئی ہیں

لیکن چلاس میں موجود چٹانوں پر سٹوپا کی تصاویر بھی ہیں لیکن یہاں پر موجود چٹانوں میں صرف جنگلی جانوروں اورشکار کھیلتے انسانوں اور ان کے اوزاروں کی تصاویر ہیں۔ جس سے یہ قیاس بھی کیا جا سکتا ہے کہ جس وقت یہ کشیدہ کاری ہوئی ہے اس وقت مذہب یہاں کے سماج میں موجود نہیں تھا

کیا یہ محض نقش و نگار ہیں یا پھر قدیم دور کا کوئی رسم الخط ہے جس میں اشکال سے مدد لی جاتی تھی؟

اس کا جواب دیتے ہوئے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر بادشاہ سردار جنہوں نے راک آرٹ کے حوالے سے کافی تحقیقی کام کر رکھا ہے، نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان میں باقی جتنا بھی راک آرٹ موجود ہے وہ اسی علاقے میں ہے جہاں یہ بنایا گیا لیکن نیلاب کا راک آرٹ اس حوالے منفرد ہے کہ یہ کہیں اور سے بہہ کر آیا ہے

اس طرح کی چٹانیں دریائے سندھ کے کنارے چلاس میں موجود ہیں لیکن ان کا دور مختلف اس حوالے سے بھی ہے کہ وہاں مذہبی اشکال بھی موجود ہیں۔ لیکن نیلاب کی چٹانیں اس بھی قدیم ہیں جن ہر کوئی مذہبی شکل موجود نہیں

یہ شاید سواں ویلی کلچر دور کی ہیں جو لاکھوں سال پہلے کا ہے اور ابھی لوہا یا تانبا ایجاد نہیں ہوا تھا اور انسان کی واحد ایجاد آگ تھی۔ انسان غاروں میں ریتا تھا اورشکار کھیلتا تھا۔ پتھروں پر اشکال بنانا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ یہ قدیم ہجری کی عکاسی کرتی ہیں۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close