اسکاٹ لینڈ کی ملکہ میری کے گمشدہ خفیہ خطوط کی کہانی، جو ساڑھے چار سو سال تک راز بنے رہے۔۔

ویب ڈیسک

خفیہ پیغامات پڑھنے کے ماہر (کرپٹوگرافرز) کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے سولہویں صدی میں ملکہ میری اسٹوئرٹ ’کوئین آف اسکاٹس‘ کے لکھے گئے پچاس سے زیادہ خفیہ خطوط دریافت کر کے اُنہیں ڈی کوڈ کر لیا ہے

کوڈ بریکرز کی بین الاقوامی ٹیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے سولہویں صدی میں اسکاٹ لینڈ پر حکمرانی کرنے والی ملکہ میری اسٹوئرٹ کے ایک طویل عرصے سے گمشدہ خفیہ خطوط نہ صرف دریافت کر لیے ہیں بلکہ انہیں ڈی کوڈ کر کہ ان کی عبارت کا مفہوم بھی سمجھ لیا ہے

اسکاٹ لینڈ کی ملکہ میری برطانوی تاریخ کی ان شخصیتوں میں سے ہیں، جو اکثر بحث کا موضوع بنی رہی ہیں، اور ان کے قید کے دوران لکھے گئے خفیہ خطوط کے بارے میں طویل عرصے سے قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔ بالآخر یہ فرانس کی ایک ڈجیٹل لائبریری میں غلط لیبل کے ساتھ پائے گئے۔
مورخین اس پیش رفت کو ملکہ میری کے حوالے سے ایک صدی کے عر‌صے میں ہونے والی سب سے اہم دریافت قرار دے رہے ہیں

ماہرین کو ایک طویل عرصے تک ان خطوط کے وجود کا شک تھا مگر سمجھا جاتا تھا کہ یہ گم ہو گئے ہیں

میری اسٹوئرٹ پر تحقیق کرنے والے صفِ اول کے مؤرخ اور یونیورسٹی آف کیمبرج کے کلیئر کالج کے پروفیسر ڈاکٹر جان گائے نے کہا “یہ زبردست تحقیق ہے اور یہ دریافت ایک ادبی اور تاریخی اہمیت رکھتی ہے‘‘

خیال رہے کہ میری اسٹوئرٹ کے کیتھولک ہونے کی وجہ سے انہیں ان کی پروٹیسٹنٹ کزن ملکہ الزبتھ اول کے لیے خطرناک تصور کیا جاتا تھا اور اس بنا پر انہیں کئی سال جیل میں قید رکھا گیا۔ اسی قید کے دوران 1578ع سے 1584ع تک انہوں حال میں دریافت کیے گئے خفیہ خطوط لکھے تھے

میری 1542 میں پیدا ہوئی تھیں اور سنہ 1568 تک سکاٹ لینڈ کی ملکہ رہیں۔ وہ سنہ 1559 میں ایک سال کے لیے فرانس کی ملکہ بھی رہیں

ہینری ہفتم کی پڑپوتی ہونے کے ناطے وہ تختِ انگلستان کے لیے ایک مضبوط امیدوار تھیں اور کیتھولک فرقہ جُزوی طور پر ان کا یہ دعویٰ تسلیم کرتا تھا

مگر ناکام شادیوں اور پے در پے غلط سیاسی اقدامات کی وجہ سے اُنہیں اسکاٹ لینڈ چھوڑنا پڑا اور اپنی زندگی کے آخری انیس برس اُنہوں نے اپنی کزن ملکہ الزبتھ اول کی قید میں گزارے

بالآخر 8 فروری 1587 کو انگریز ملکہ کے قتل کی سازش رچنے کے الزام میں ان کا سر قلم کر دیا گیا

ان کے اس افسوسناک انجام کی وجہ سے وہ کیتھولکس کے لیے ’شہید‘ بن گئیں اور تب سے مؤرخین، ناول نگاروں اور فلم سازوں کو ان میں دلچسپی رہی ہے

ملکہ میری کے یہ خطوط کمپیوٹرز کی مدد سے پڑھے گئے ہیں اور بظاہر یہ میری کی جانب سے 1578 سے 1584 کے دوران لندن میں ملکہ الزبتھ اول کے دربار میں موجود فرانسیسی سفیر مشیل دی کیسٹلناؤ مویسیئغ کو لکھے گئے تھے۔

سن 1578ع میں میری کو ملکہ الزبتھ کے قتل کی سازش کرنے کا مجرم قرار دے کر ان کا سر قلم کر دیا گیا تھا، جس کے ساتھ ان کی ڈرامائی زندگی کا اختتام ہوا۔ لیکن وہ ان تین کوڈ بریکرز کے ذہنوں سے کبھی محو نہیں ہوئیں، جنہوں نے ان کے پچاس سے زائد خطوط ڈھونڈ نکالے ہیں۔ ان خطوط میں میری نے تقریباً پچاس ہزار الفاظ کی عبارات لکھی ہے

میری کے خطوط دریافت کرنے والے تین کوڈ بریکرز ایک بین الاقوامی کراس ڈسیپلینری ٹیم ڈیکرپٹ کے ممبر ہیں، جو دنیا بھر کے محافظ خانوں میں موجود دستاویزات کو ڈی کوڈ کرتی ہے۔ اسی کام کو سر انجام دیتے ہوئے یہ تینوں فرانس کی نیشنل لائبریری ببلیوتھیکس نیشنل ڈے فرانس تک پہنچے، جہاں انہیں کچھ دستاویزات ملے۔ حالانکہ ان دستاویزات کے لیبل کے مطابق یہ خطوط سولہویں صدی میں اٹلی میں لکھے گئے تھے، لیکن یہ تینوں کوڈ بریکرز تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کے یہ دراصل ملکہ میری نے دورانِ قید لکھے گئے خطوط تھے

ان تین کوڈ بریکرز میں سے ایک، فرانسیسی کمپیوٹر سائنٹسٹ اور کرپٹوگرافر جارج لیسری کہتے ہیں ”ان خطوط کی عبارت کو ڈی کوڈ کرنا ایسا ہی تھا، جیسے پیاز کی تہیں اتارنا“

جارج لیسری اور ان کے ساتھیوں، موسیقی کے جرمن پروفیسر نوبرٹ بیئرمین اور جاپانی ماہر طبیعیات ستوشی توموکیو کو پہلے یہ ادراک ہوا کہ یہ خطوط اطالوی نہیں بلکہ فرانسیسی زبان میں لکھے گئے ہیں

لیسری مزید بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس بات پر بھی غور کیا کہ ان خطوط میں مونث کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اور ’میری آزادی‘ اور ’میرے بیٹے‘ جیسے فقروں کا استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی مصنف کوئی قیدی ماں ہے

لیکن ان کی کھوج میں سب سے اہم پیش رفت ’والسنگھم‘ کے لفظ کی دریافت تھی۔ واضح رہے کہ ’فرانسس والسنگھم‘ ملکہ الزبتھ اول کے پرنسپل سیکریٹری اور ’اسپائی ماسٹر‘ کا نام تھا

لیسری نے اس حوالے سے بتایا ”کچھ مورخین کا ماننا ہے کہ وہ والسنگھم ہی تھے، جنہوں نے میری کو ملکہ الزبتھ کو قتل کرنے کی ناکام سازش میں ’پھنسایا‘ تھا“

وہ مزید کہتے ہیں ”میری بہت ہوشیار تھیں اور اسی لیے ان خطوط میں کہیں کسی قتل کی سازش کا ذکر نہیں ملتا۔ اس کے بجائے ان خطوط میں انہوں نے اپنے لیے التجا کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر بات چیت، بیماری اور ان اشخاص جن کو وہ اپنا مخالف سمجھتی تھیں کی شکایت اور اپنے بیٹے کے اغوا پر پریشانی کا اظہار کیا ہے۔“

خطوط کی گرامر مؤنث الفاظ پر مشتمل ہے اور بار بار قید اور والسنگھم جیسے ناموں کے تذکرے کی وجہ سے ان کا شک ملکہ میری کی جانب گیا۔ فرانسس والسنگھم ملکہ الزبتھ کے جاسوسوں کے سربراہ تھے

یہ کوڈ ایک نہایت سادہ ’ریپلیسمنٹ سسٹم‘ تھا، جس میں کچھ ناموں، الفاظ اور حروف کے لیے علامات استعمال کی گئی تھیں

مگر تمام امکانات کا تجزیہ کرنے میں کئی صدیاں لگ سکتی تھیں چنانچہ اس ٹیم نے ایسے الگورتھم کا سہارا لیا جو زیادہ ممکن جوابات فراہم کر سکتا تھا

یہ خطوط کئی طرح کے موضوعات پر مبنی ہیں۔ میری ان خطوط کے ذریعے فرانس میں اپنے حامیوں سے خفیہ طور پر بات چیت کر پاتی تھیں

اس خط میں ایک اور بات کا کئی مرتبہ تذکرہ کیا گیا ہے جو کہ ان کے برادر نسبتی ڈیوک آف انجو اور کوئین الزبتھ کے درمیان شادی کی پیشکش ہے

کئی خطوط میں ان کی رہائی اور اسکاٹ لینڈ کے تخت پر ان کی اپنے بیٹے شاہ جیمز ششم سمیت ممکنہ واپسی کے متعلق مذاکرات کا تذکرہ ہے جو بعد میں انگلینڈ کے شاہ جیمز اول بنے

وہ یہ سوچنے میں حق بجانب تھیں جب اُنہیں یہ احساس ہوا کہ انگریز یہ بات چیت بری نیت کے ساتھ کر رہے تھے

ڈاکٹر گائے نے کہا کہ ’یہ خطوط واضح طور پر بتاتے ہیں کہ قید کے دوران میری اسکاٹ لینڈ، انگلینڈ اور فرانس کے سیاسی معاملات کا بغور جائزہ لے رہی تھیں اور اس حوالے سے سرگرم تھیں۔ اس کے علاوہ ان کا الزبتھ اول کے دربار میں کئی اہم سیاسی شخصیات سے بھی باقاعدہ رابطہ تھا‘

اُنہوں نے مزید کہا ’یہ نئی دستاویزات دکھاتی ہیں کہ میری بین الاقوامی امور کی ایک زیرک تجزیہ کار تھیں۔ یہ خطوط برطانوی، فرانسیسی اور یورپی مؤرخین اور طلبہ کو اگلے کئی برسوں تک خفیہ تحریر نگاری کے رموز کو سمجھنے میں مصروف رکھیں گے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close