پنجاب کے شہر فیصل آباد میں ایک مقامی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے ایک نوجوان کارکن کو اعلیٰ فوجی قیادت کے خلاف ٹوئٹر پر ’ہتک آمیز اور دھمکی آمیز‘ مہم چلانے پر پانچ سال قید کی سزا سنا دی ہے
فیصل آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج منصف خان نے سکندر زمان نامی پی ٹی آئی کے کارکن کو مجموعی طور پر چار سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی
تیس سالہ سکندر زمان کی سزا سے متعلق اطلاع جمعرات کی صبح پاکستان میں وکلا کی تنظیم پاکستان لائرز فورم کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر منظر عام پر آئی
پاکستان لائرز فورم نے ایک الگ ٹویٹ میں سکندر زمان کی سزا سے متعلق فیصلے کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے
وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) نے سکندر زمان کے خلاف گذشتہ برس پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ دائر کر کے انہیں گرفتار کیا تھا
وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) نے پی ٹی آئی کے حامی 30 سالہ شہری سکندر زمان کو ان کے خلاف پیکا ایکٹ 2016 کی سیکشن 20 اور 24 سی کے تحت دائر شکایت پر گزشتہ برس گرفتار کرلیا تھا، دفعات میں تعزیرات پاکستان کی شق 500 اور 505 بھی شامل کرلی گئی تھیں
پاکستان لائرز فورم فورم کے مطابق سزا پانے والے پی ٹی آئی کے حمایتی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر فالوورز کی تعداد صرف 184 ہے
پولیس نے سکندر زمان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ اور موبائل فون بھی قبضے میں لیا تھا
عدالت کے فیصلے میں کی گئی نشان دہی کے مطابق ایف آئی آر میں بتایا گیا تھا کہ سکندر زمان نے گزشتہ برس حادثے کا شکار ہونے والے ہیلی کاپٹر کے واقعے سے متعلق پاک فوج کے خلاف ٹوئٹ کیا، جس کا مقصد معاشرے میں ’افراتفری پھیلانا‘ تھا
یاد رہے کہ اگست 2022 میں بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں پاک فوج کے 6 افسران اور ایک سپاہی نے شہادت پائی تھی، جس کے بعد سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی تھی، جس پر پاک فوج کی جانب سے مذمت کی گئی تھی، جبکہ ایف آئی اے نے اس کے پیچھے کارفرما عوامل کا سراغ لگانے کے لیے کارروائی شروع کی
فیصل آباد پولیس نے سکندر زمان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا تھا اور ان کے خلاف ٹرائل بھی شروع ہوا، جس کے 8 فروری پر مکمل ہونے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج منصف خان نے جمعرات کو فیصلہ سنایا
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ ٹوئٹر اکاؤنٹ ان کا نہیں ہے
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’برآمد ہونے والے موبائل کی میموری سے فرانزک کے دوران اسی طرح کا بڑی تعداد میں محفوظ کیا گیا مواد بھی سامنے آیا، جو 29 صفحات پر مشتمل ہے۔‘
مزید بتایا گیا: ’گو کہ ان 29 صفحات میں مبینہ الفاظ شامل نہیں ہیں اور ایف آئی اے کے ٹیکنیکل اسٹاف کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ موبائل فون کی فورنزک رپورٹ تفتیشی افسر کے فراہم کردہ اور مذکورہ حدود کی روشنی میں تیار کی گئی ہے، فوج کے خلاف پوسٹس کے حوالے سے فرانزک کی گئی تھی۔‘
عدالت نے کہا ’سکندر زمان کے ٹوئٹس کا وقت بھی متعلقہ تھا کیونکہ انہوں نے ملک کے موجودہ سیاسی صورت حال کے دوران بھی بیان دیا تھا‘
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے ’ملزم نے پی ٹی آئی کا کارکن ہونے کا اعتراف کیا اور تمام دستاویزی ثبوت بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں. اس صورت حال میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ملزم کا کوئی ایسا ارادہ نہیں تھا‘
فیصلے میں کہا گیا ہے ’ملزم نے مسلح افواج کی سینئر قیادت سے متعلق تنازع پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، جس کے نتیجے میں فطری طور پر جونیئر عہدیداروں اور عوام میں اثرات پڑتے ہیں‘
پی ٹی آئی کے کارکن کے حوالے سے فیصلے میں بتایا گیا کہ وکیل صفائی اپنا مدعا ثابت کرنے اور استغاثہ کو غلط ثابت کرنے میں ناکام ہوئے جو عدالت کے مطابق ذاتی بیان کردہ الفاظ ہیں۔
اے ڈی ایس جی خان نے کہا کہ ’فرانزک وجوہات اور نتائج کی روشنی میں یہ واضح ہوا کہ استغاثہ جدید ڈیوائسز کے ذریعے اپنا کیس ثابت کرنے میں مکمل طور پر کامیاب ہوا ہے‘ اور ملزم کو پیکا 2016 کے سیکشن 20، 24 اور تعزیرات پاکستان کی شقیں 500 اور 505 کے تحت سزا سنا دی گئی۔
عدالت نے کہا کہ ’مجرم سکندر زمان کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ یو/ایس 500 کے ساتھ ایک سال قیدر اور 10 ہزار جرمانے کی سزا بھی دی جاتی ہے‘۔
پی ٹی آئی کے کارکن کو سیکشن 505 کے تحت تین سال کی سزا اور 50 ہزار جرمانہ ہوا ہے اور مذکورہ سزا پر فوری عمل درآمد ہوگا۔
عدالت نے حکم دیا کہ سکندر زمان کو فوری طور پر گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جائے۔
فیصلے میں حکم دیا گیا ہے کہ ’مچلکوں کے عوض ضمانت بھی خارج کردی جاتی ہے اور چھاپے کے دوران ملزم سے برآمد ہونے والا موبائل ریاست کے حق میں ضبط کرلیا گیا ہے‘
پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا فوکل پرسن اظہر مشوانی نے کہا کہ پارٹی کا انصاف لائرز فورم سکندر زمان کے اہل خانہ سے ملاقات کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’ان شااللہ فیصلہ چیلنج کیا جائے گا اور سزا معطل ہو جائے گی۔‘
مجوزہ قانون سازی، اب فوج اور عدلیہ پر تنقید ناممکن
دوسری جانب نواز لیگ کی سربراہی میں پیپلز پارٹی، جے یو آئی ف، ایم کیو ایم اور بی این پی کے اشتراک سے قائم پی ایم حکومت پاکستان ملکی فوج اور عدلیہ پر تنقید کو قابل تعزیر جرائم کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے قانون کو مزید سخت کی خواہش مند ہے۔ اس نئی مجوزہ قانونی ترمیم کے تحت فوج اور عدلیہ کے ادارے اور شخصیات پر تنقید کے جرم میں پانچ سال قید تک کی سزا دی جاسکے گی لیکن ملک کے کئی حلقوں میں یہ بحث گرم ہے کہ اس طرح کے قوانین پہلے ہی ملک میں موجود ہیں تو اس نئے قانون کی کیا ضرورت ہے
واضح رہے کہ حکومت ملکی فوجداری قوانین میں ترمیم کرنا چاہتی ہے، جس کے تحت فوج یا عدلیہ کی تحقیر کرنے یا تمسخر اڑانے والے کو قید اور جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس بل پر وفاقی کابینہ نے گزشتہ ہفتے ایک کمیٹی بھی بنائی تھی، جو اس کے مندرجات کا جائزہ لے گی
ماہرین کے خیال میں پاکستان کے سن 1973 کے آئین کے تحت پہلے ہی فوج اور عدلیہ پر تنقید قانونی طور پر بہت مشکل ہے۔ مسلم لیگ نون کے گزشتہ دور حکومت 2013 سے 2018 کے درمیان بھی ایک ایسا قانون متعارف کرایا گیا تھا، جس کی مدد سے ان اداروں پر تنقید میں مزید دشواری پیدا کردی گئی تھی جب کہ عمران خان کی حکومت نے بھی پاکستان الیکٹرونک کرائمز ایکٹ میں ترمیم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکی تھی
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے قانون کا مقصد فوج اور عدلیہ کے خلاف تنقید کو تقریباً ناممکن بنا دینا ہے۔ آئینی و قانونی امور کے ایک ماہر محمد آفتاب عالم ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان پینل کوڈ میں پہلے ہی ایسے قوانین موجود ہیں، جو ان اداروں پر تنقید کی صورت میں سزاؤں کے لیے لاگو کیے جاسکتے ہیں
انہوں نے کہا ”پاکستان پینل کوڈ میں 499 سیکشن موجود ہے، جس کے تحت اگر کوئی کسی شخص کسی پر دشنام طرازی کرتا ہے یا بے بنیاد الزام لگاتا ہے تو اس کو سزا دی جاسکتی ہے لیکن کیونکہ اس قانون میں بہت سارے سیف گارڈ ہیں جس کی وجہ سے ملزم کو فائدہ ہوتا ہے۔“
محمد آفتاب عالم کے مطابق حکومت اب سیکشن 500 اے لانا چاہتی ہے، جس میں عدلیہ اور فوج پرتنقید کو ناقابل ضمانت جرم بنا دیا ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”سیکشن 499 میں اگر آپ پر الزام لگا ہے تو پولیس آپ کو اس وقت تک گرفتار نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کے پاس وارنٹ نہ ہو یا کوئی ایف آئی آر درج نہ ہو لیکن جو ترمیم حکومت لے کر آنا چاہ رہی ہے اگر وہ ترمیم لانے میں کامیاب ہو گئی تو پھر پولیس بغیر ایف آئی آر اور بغیر وارنٹ کے بھی گرفتار کر سکتی ہے۔“
محمد آفتاب عالم نے خدشہ ظاہر کیا کہ اب اگر یہ ترمیمی قانون آجاتا ہے ہے تو پولیس یا دوسرے حکومتی اداروں کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اگر سمجھیں کہ کسی کی تقریر، بیان، ٹویٹ یا چھوٹی سی وڈیو سے فوج یا عدلیہ کی تحقیر ہوئی ہے تو وہ اپنے طور پر اس شخص کے خلاف ایکشن لے سکتے ہیں
سول اور فوجی عدالتوں میں فوجداری مقدمات کی پیروی کا وسیع تجربہ رکھنے والے ایک وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے ”سپریم کورٹ کا اس حوالے سے واضح فیصلہ ہے۔ 2014 میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ پولیس، رینجرز، آئی ایس آئی، ایم آئی یا کوئی بھی ایجنسی کسی بھی شخص کو بغیر ایف آئی آر کے گرفتار نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی ہنگامی صورت حال میں گرفتار کیا گیا ہے تو اسے چوبیس گھنٹوں میں عدالت میں پیش کرنا متعلقہ اداروں کی ذمی داری ہے“
انسانی حقوق کی ایک کارکن صدف خان کا کہنا ہے کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں ہوتی ہیں تو وہ اس طرح کے سخت قوانین لے کر آتی ہیں لیکن جب وہ حزب اختلاف میں ہوں تو ایسے قوانین کی بھرپور مخالفت کرتی ہیں
انہوں نے کہا ”ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کے قانون کو اس لیے لایا جا رہا ہے تاکہ عام انتخابات کو کنٹرول کیا جاسکے۔ 2018 میں بھی اسی طرح کا ایک قانون لایا گیا تھا، جس کا مقصد بظاہر انتخابات کنٹرول کرنا تھا“
قانون کے خلاف مزاحمت
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ صحافی اس قانون کے سخت خلاف ہیں اور وہ مزاحمت کریں گے
انہوں نے بتایا، ”پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اس ترمیمی قانون کو بالکل نہیں مانتی۔ ملکی اور بین الاقوامی صحافتی تنظیموں جیسے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز اس کے خلاف ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس قانون کے خلاف آواز اٹھائی ہے“
ناصر زیدی کے مطابق ملک میں ایسا قانون موجود ہے کہ کوئی شخص اگر کسی پر بے بنیاد الزام لگائے تو متاثرہ شخص عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوج کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اس پر بے بنیاد الزام لگا رہا ہے تو وہ مروجہ قوانین کے تحت اس کے خلاف مقدمہ درج کرائے اور قانون کو اپنا راستہ لینے دے۔