بلوچستان: ہنگول میں نانی مندر کے قریب طویل عرصے بعد تیندوا دیکھا گیا۔

ویب ڈیسک

بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں معدومی کے خطرے سے دوچار تیندوے کو دیکھا گیا ہے۔ کنڈ ملیر کے قریب پہاڑوں میں گُھومتے ہوئے تیندوے کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے

حکام محکمہ جنگلات و جنگلی حیات بلوچستان کے مطابق ’کراچی سے تقریباً ڈھائی سو کلومیٹر کے فاصلے پر لسبیلہ کے علاقے کُنڈ ملیر ہنگول نیشنل پارک میں واقع ہندوؤں کے تاریخی ہنگلاج ماتا مندر (نانی مندر) کے قریب نایاب نسل کا یہ تیندوا اس وقت دیکھا گیا، جب وہاں ہزاروں ہندو یاتری اپنے سالانہ مذہبی میلے میں شرکت کی غرض سے موجود تھے

رپورٹس کے مطابق وہاں موجود ایک یاتری نے تیندوے کی ویڈیو بنائی، جس میں نانی مندر کے سامنے والی پہاڑی پر اس کو گھومتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا کی مختلف ویب سائٹس پر مقبول ہو گئی ہے۔

یاتریوں کے مطابق سینکڑوں افراد نے صرف چند سو میٹر کی دوری سے اس جانور کا نظارہ دیکھا۔ وہ پُرسکون انداز میں پہاڑی چٹانوں پر چل رہا تھا اور کچھ دیر بعد ہی پہاڑ کی دوسری طرف جا کر غائب ہو گیا

اس حوالے سے چیف کنزرویٹر محکمہ جنگلات و جنگلی حیات بلوچستان شریف الدین بلوچ کا کہنا ہے کہ یہ جانور پہاڑوں میں پانی کے ایک گڑھے کے قریب جس مقام پر دیکھا گیا ہے، وہ کھیرتھر پہاڑی سلسلے میں واقع ہنگول نیشنل پارک کا حصہ ہے، جو اس جانور کے علاوہ کئی دیگر نایاب جانوروں کا بھی قدرتی مسکن ہے

شریف بلوچ کے مطابق ”یہ جانور پاکستان میں پائی جانے والی تین نسلوں میں سے ایک ’پرشیئن لیپرڈ‘ سے تعلق رکھتا ہے۔ مقامی بلوچی زبان میں پولنگ، پشتو میں پڑانگ اور براہوی زبان میں خہلیغا کہتے ہیں۔“

واضح رہے کہ پرشیئن لیپرڈ کو عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت (آئی یو سی این) نے 2016 میں معدومی کے خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست یعنی ریڈ لسٹ میں شامل کر رکھا ہے۔

ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان کا کہنا ہے ”پرشیئن لیپرڈ یا فارسی تیندوا بلوچستان کے بڑے حصوصے بالخصوص ساحلی علاقوں میں پایا جاتا تھا۔ پہاڑی جنگلی بکریاں، اُڑیال اور چنکارا وغیرہ اس کی خوراک تھی، تاہم خوراک اور شکار میں بڑی کمی کی وجہ سے یہ تیندوا اب نایاب ہوگیا ہے اور اس کی نسل خطرے سے دوچار ہے۔“

محمد معظم خان نے نایاب نسل کی تیندوے کی موجودگی کو خوش آئندہ قرار دیتے ہوئے اس کے نسل کے تحفظ اور فروغ کے لیے اقدامات پر زور دیا ہے۔

جبکہ چیف کنزرویٹر شریف الدین بلوچ کہتے ہیں ”یہ تیندوا اس سے پہلے بھی بلوچستان میں دیکھا گیا ہے اور کھیرتھر پہاڑی سلسلے میں ایک سے زائد تعداد میں اس کی موجودگی رپورٹ ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس نے اس علاقے میں مقامی چرواہے کے اُونٹ کا بچہ کھا لیا تھا۔“

اس سے پہلے اس تیندوے کا ایک جوڑا مئی 2023 میں کوئٹہ کے جنوب مغربی پہاڑی کوہ چلتن کے دامن میں واقع ستائیس ہزار ہیکٹر پر مشتمل چلتن نیشنل پارک ہزار گنجی میں بھی دیکھا گیا تھا، جس کی نقل و حرکت کو محکمہ جنگلی حیات نے کیمرے میں محفوظ بھی کیا۔

چھوٹی ٹانگوں اور بھاری جسامت کے حامل اس جانور کی پیلے اور سنہری مائل بھوری رنگ کی کھال پر سیاہ دھبے ہوتے ہیں۔ یہ آبادی سے دُور پہاڑیوں کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔

یہ تیندوے آرمینیا، آذربائیجان، ترکی، ترکمانستان اور افغانستان میں بھی پائے جاتے ہیں، مگر اس کا اصل مسکن ایران کو سمجھا جاتا ہے، اسی لیے اسے ’پرشیئن لیپرڈ‘ کہا جاتا ہے۔

شریف بلوچ کے مطابق ”یہ جانور اکیلا رہنے کا عادی ہے، یہ صرف ملاپ اور بچے کی پروش کے دوران ہی جوڑے کے ساتھ رہتا ہے۔ تیندوے عام طور پر ایک دوسرے سے دور رہتے ہیں۔ تیندوا اپنا علاقہ متعین کرکے اس پر قبضہ جما کر رکھتا ہے اور اس کے تحفظ کے لیے تیندوے ایک دوسرے سے لڑتے بھی ہیں۔“

شریف بلوچ نے بتایا ”ایک تیندوا تقریباً سو کلومیٹر رقبے کو اپنی حدود میں شمار کرتا ہے۔ یہ آپس میں پیشاب کی بو سے ایک دوسرے کے علاقے کی حدود کو پہنچاتے ہیں۔“

انہوں نے مزید بتایا ”تیندوے اپنی خوراک کے لیے دوسرے جانوروں بالخصوص پہاڑی بکروں اور مارخوروں کا شکار کرتے ہیں۔ ابھی تک پہاڑوں میں خوراک موجود ہے۔“

شریف بلوچ کہتے ہیں ”یہ شکاری تیندوے پہاڑی جانوروں بالخصوص مارخوروں کو چست رکھنے، ان کی آبادی کو کنٹرول کرنے، قدرتی ماحول اور حیاتیاتی تنوع میں توازن پیدا کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔“

انہوں نے بتایا ”بلوچستان میں کوہ چلتن اور کھیرتھر پہاڑی سلسلے اس کا قدرتی مسکن ہے مگر شکار، خوراک کی کمی، جنگلات کی کٹائی، انسانی آبادیوں کے قریب آنے سے اس کا یہ مسکن سُکڑتا گیا۔“

وہ کہتے ہیں ”بعض اوقات خوراک کی تلاش میں جب یہ آبادی کے قریب یا مقامی چرواہوں اور آبادی کے مال مویشیوں پر حملہ آور ہوتا ہے تو انسانوں سے اس کا ٹکراؤ ہو جاتا ہے اور ردِعمل میں مارا جاتا ہے۔”

انہوں نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا ”گذشتہ تین برسوں کے دوران مستونگ اور ڈیرہ بگٹی میں اس نایاب نسل کے کم سے کم دو تیندوے مارے جانے کی تصدیق ہوئی ہے۔“

شریف الدین بلوچ کا کہنا تھا ”مقامی افراد میں آگاہی نہ ہونے اور جنگلی حیات کے پاس عملے کی کمی کی وجہ سے تیندوے کا تحفظ سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔اسے شکاریوں اور قریبی انسانی آبادیوں سے خطرات درپیش ہوتے ہیں۔“

انہوں نے مزید کہا ”ہمارے ہاں فرسودہ روایات کے مطابق شیر اور چیتوں جیسے خطرناک جانوروں کا شکار کرنے والوں کو بہادر سمجھا جاتا ہے اس لیے اِن کی نسل کو خطرات لاحق ہیں۔ ہماری لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ ان نایاب جانوروں کے تحفظ کے لیے ہماری مدد کریں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close