نقیب اللہ قتل کیس : راؤ انوار کی بریت سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج

ویب ڈیسک

نقیب اللہ محسود کے چھوٹے بھائی عالم شیر نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور ان کے ماتحتوں کی بریت کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے

جبکہ حکومت سندھ تاحال نقیب اللہ محسود اور تین دیگر افراد کو ماورائے عدالت مبینہ پولیس مقابلے میں مارنے والے پولیس افسر کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ نہیں کر سکی

یاد رہے کہ 23 جنوری کو اے ٹی سی نے سابق ایس ایس پی ملیر اور ان کی ٹیم کے سترہ ارکان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا تھا

راؤ انوار اور ان کے دو درجن کے قریب ماتحتوں کے خلاف مبینہ طور پر نقیب اللہ محسود کے نام سے مشہور نسیم اللہ اور دیگر تین جنوری 2018ع میں مبینہ مقابلے میں ہلاک کرنے کا مقدمہ چلایا گیا

اپیل کنندہ عالم شیر نے وکیل جبران ناصر کے توسط سے اے ٹی سی کے فیصلے کے خلاف اپیل میں کہا کہ حقائق سے صرف نظر اور شواہد کا غلط جائزہ لینے کے علاوہ فیصلے میں قانونی نقائص ہیں

سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے تین مقدمات میں ایک متفقہ فیصلہ دے کر قانون کی غلطی کی جب کہ اہم کیس کے علاوہ ملزم پولیس افسران کے خلاف متاثرین پر دھماکا خیز مواد اور ناجائز اسلحہ رکھنے کے دو دیگر مقدمات بھی درج کیے گئے تھے

ایڈووکیٹ جبران ناصر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسی طرح قانونی دائرہ اختیار کے پیش نظر یہ طے شدہ قانون ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 21-ایم کی دفعات عدالت کو مختلف ایف آئی آرز کے تحت علیحدہ علیحدہ مقدمات کو یکجا کرنے اور ایک ساتھ چلانے کا اختیار نہیں دیتیں

انہوں نے استدلال کیا کہ ٹرائل کورٹ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 201، 202 اور 204 کے تحت ملزمان کے خلاف الزامات کا فیصلہ کرنے میں ناکام رہا اور اس طرح ہر الزام سے کسی ملزم کو سزا دینے یا بری کرنے میں ناکامی لاعلاج نقص ہے

درخواست گزار نے الزام لگایا کہ ملزمان اتنے بااثر اور طاقت تھے کہ وہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے چار بے گناہوں کو دہشت گرد قرار دینے میں کامیاب ہو گئے، ان بے گناہوں کے بے رحمانہ قتل کو اصلی پولیس مقابلہ اور جعلی پانچ ایف آئی آرز کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی گئئی جب کہ وہ عدالت کے سامنے جھوٹی ثابت ہوئیں

اپیل کنندہ نے عدالت عالیہ نے استدعا کی کہ غیر قانونی فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور ملزمان کو قانون کے تحت مجرم قرار دے کر سخت سزا دی جائے

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت کے تحریری فیصلے کے مطابق سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت اٹھارہ ملزمان کو مقدمے سے بری کردیا گیا جبکہ عدالت نے سات مفرور ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا حکم دیا تھا

مفرور ملزمان میں امان اللہ مروت، گدا حسین، محسن عباس، صداقت حسین شاہ، راجہ شمیم مختار، رانا ریاض اور شعیب عرف شوٹر شامل تھے

تحریری فیصلے میں عدالت کا کہنا تھا کہ مقدمے میں شکوک و شہبات پائے گئے ، اسلامی اور یونیورسل اصول کے تحت شکوک وشہبات کا فائدہ ملزم کے حق میں جاتا ہے

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے تحریری فیصلہ میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اصول ہے کہ قاضی کی غلطی سے سزا دینے سے اس کی بریت بہتر فیصلہ ہے، عدالت کی نظر میں استغاثہ کیس ثابت نہیں کر سکی، لہٰذا ملزمان کو بری کیا جاتا ہے

انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 14 جنوری کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جس کی سماعت مکمل ہونے میں 5 برس لگے، یہ التوا سوشل میڈیا پر کراچی میں جعلی مقابلوں کے حوالے سے بحث اور خاص طور پر اس کیس سے جڑے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پر تنقید کا سبب بنا تھا

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ماڈل نقیب اللہ محسود کراچی میں مقیم تھے، ان کے قتل نے سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے غم و غصے کو جنم دیا، سابق ایس ایس پی اور ان کی ٹیم کی گرفتاری میں ریاست کی ناکامی کے خلاف سول سوسائٹی کی جانب سے ملک گیر احتجاج بھی کیا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close