پانی کی کہانی بہت پرانی ہوسکتی ہے، اتنی پرانی جتنی پرانی کہانی حیات کے ارتقا کی ہے۔ اگر کسی نہر کے کنارے بیٹھ کر ہم مٹیالے پانی کو دیکھتے ہوئے ایک لکیر کھینچیں جب زندگی کسی نہ کسی صورت میں تخلیق ہوئی ہوگی تو اس طویل راستے کی قدامت جاننے کے لیے ہمیں ابھی تحقیق کے نتائج کا انتظار کرنا پڑے گا
مگر ایک بات جو شاید ہم سب یقین سے کہہ سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ دھرتی جو اتنی خوبصورت ہے، جس پر ہریالی کی چادر کسی محبوب کی عنایتوں کی طرح حد نگاہ تک پھیلی ہوئی ہے، زمین اپنے سینے سے اربوں لوگوں کا پیٹ بھرتی ہے، سمندر انسانی خوراک کے لیے بھرے پڑے ہیں، نہریں ہیں جن میں شیریں اور مٹیالا پانی بہتا ہے اور یہ جہاں جہاں سے بہتا ہے وہاں وہاں زندگی پنپتی اور تہذیبیں تخلیق ہوتی ہیں۔ یہ ساری عنایتیں اور حیات کے رنگ اس پانی کی وجہ سے ہی ممکن ہوپائے ہیں
اگر پانی نہ ہوتا تو ہم ہوتے نہ یہ خوبصورت دھرتی اور نہ اس پر زندگی کے رنگ دھنک کی طرح بکھرے ہوتے۔ اس لیے اس زندگی کا وجود اس پانی کے دم سے ہے جو مہربان اور شفیق بھی ہے اور قہر ڈھانے اور برباد کرنے والا بھی۔ زندگی کا فلسفہ ایک ٹانگ پر کبھی جڑ نہیں پکڑتا، جہاں محبت ہے وہاں غصہ اور کرودھ بھی ہے۔ ہمارے آج کے سفر کا لب لباب وہ پانی ہے جس کے دم سے یہ دنیا ہے اور اس حوالے سے لوک کتھاؤں کا ایک میلہ ہے جو شیر دریا کے کناروں پر ہمارا انتظار کرتا ہے
ہمارے اس سفر کا جو مرکزی کردار ہے، اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی کی گزرگاہوں پر ہزاروں برس کا سفر کرنا پڑے گا اور علم بشریات (Anthropology) کی مدد لینی ہوگی۔ زیادہ تر ماہرین کی تحقیق کے مطابق قدیم متلاشیوں میں روحی (animistic) عقائد عام تھے۔ اینی مزم (لاطینی لفظ اینیما بمعنیٰ روح) کا یہ عقیدہ ہے کہ تقریباً ہر جگہ، ہر جانور، ہر پودا اور ہر قدرتی مظہر آگاہی اور احساس رکھتا ہے اور وہ انسانوں سے براہِ راست رابطہ رکھ سکتا ہے
مطلب کہ اینی مسٹ یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ پہاڑی پر رکھا کوئی پتھر بھی خواہشات اور ضروریات رکھتا ہے۔ وہ پتھر کسی ایسی بات پر غصے میں آسکتا ہے جو لوگوں سے سرزد ہوئی ہو اور دوسری بات پر وہ خوش بھی ہوسکتا ہے۔ یہ پتھر لوگوں کو ڈانٹ سکتا ہے اور لوگوں سے امیدیں بھی رکھ سکتا ہے۔ نہ صرف وہ پتھر بلکہ اس پہاڑی کے دامن میں شاہ بلوط کا درخت بھی ایک جاندار شے ہے اور اسی طرح پہاڑ کے دامن میں بہتا چشمہ بھی۔ اس کے اطراف اگتی جھاڑیاں اور صاف میدان میں جاتی ہوئی پگڈنڈی، میدانی چوہے، بھیڑیے اور کوّے جو اس سے پانی پیتے ہیں
اینی مسٹ کی دنیا میں فقط اشیا اور حیات ہی جاندار چیزیں نہیں ہیں، یہاں غیر مادی چیزیں بھی ہیں، مُردوں کی ارواح، دوستانہ اور مخیر ارواح، وہ چیزیں ہیں جنہیں آج ہم پریاں اور آسیب کہتے ہیں۔ اس منظرنامے میں تبدیلی تب آئی جب زراعت متعارف ہوئی
قدیم دیومالائی مفروضوں کا بیشتر حصہ دراصل ایک معاہدہ ہے جس میں انسان نباتات و حیوانات پر حکمرانی کے بدلے دیوتاؤں پر دائمی ایمان کا وعدہ کرتے ہیں۔ زرعی انقلاب کے بعد انسانی عبادتوں کا طریقہ اپنے دیوتاؤں کے لیے کچھ دینے یعنی قربانی کی سیڑھی تک آپہنچا اور اس قربانی کے بدلے دیوتا ان سے اچھی فصل، مویشیوں کی افزائش، اچھے موسم اور اچھی برسات کا وعدہ کرتے ہیں
اگر آپ کی نظروں سے رونی رینڈل (Ronne Randall) کی چھوٹی سی کتاب مِتھ اینڈ لیجنڈز (Myths and Legends) گزری ہے تو ان دیوتاؤں سے متعلق بات کو آپ آسانی سے سمجھ سکیں گے
وہ لکھتی ہیں کہ ’قدیم دیومالائی قصے اور کہانیاں ہر ثقافت اور مذہب میں مل جاتی ہیں اور وہ انتہائی دلچسپ اور حیرت انگیز ہیں۔ ان کو جاننے سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ قدیم انسان اس زمین اور کائنات سے متعلق کیا سوچتے تھے۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ جہاں جہاں انسان نے شعور کی وادی میں ابتدائی قدم رکھے تو ان کی سوچ پر سب سے زیادہ اثر ان کے سامنے پھیلے منظرنامے کا ہی پڑا۔ مثلاً گرم اور خشک علاقوں میں جہاں پانی کی کمی تھی وہاں کی انسانی ارتقا کی لوک کتھائیں بتاتی ہیں کہ انسان کا ارتقا وسیع سمندروں میں ہوا اور جہاں بے تحاشا برف تھی وہاں کی کہانیاں بتاتی ہیں کہ دنیا کا وجود برف سے ہوا‘
اب ہم ہمالیہ سے نکلنے والے شیر دریا کی قدامت اور عنایتوں کا ذکر کرتے ہیں جس کی وجہ سے سندھو گھاٹی وجود میں آئی۔ تحریر کی صورت میں چونکہ ہمیں آریاؤں کے وید ہی ملے ہیں اس لیے ہم ان کو گھاٹی کی قدیم کتاب کہتے ہیں۔ ان کے شلوکوں سے میں کچھ آپ کے لیے تحریر کرتا ہوں جس میں فطرت کے عناصر خاص کر پانی، ایک دیوتا کے طور پر نظر آتا ہے
اے سندھو!
تمہارے پانیوں کی آوازوں کی گونج
زمین سے ہوکر
دیو لوک تک جاتی ہے
سندھو کی چمکدار لہریں
اور ان کی تیز رفتاری اس طرح لگتی ہے
کہ جب بارش تیزی سے آگے بڑھتی جاتی ہے
اور بادل ساتھ گرجتے جاتے ہیں
اور سندھو بھی طاقتور بیل کی طرح
ڈکارتی آگے بڑھتی ہے۔
جس طرح مائیں اپنی اولاد کے لیے
تیز آوازیں کرتی ہیں
اس طرح دوسری ندیاں
اے سندھو! تمہاری طرف بھاگتی آتی ہیں
جس طرح گائیں اپنے بچوں کی طرف
بھاگتی آتی ہیں
تم اپنے دونوں کناروں کے بیچ میں سے
اس طرح آگے بڑھتی ہو
جیسے کوئی راجا
لڑائی کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے
یہ وہ شاندار تصور ہے جو دریائے سندھ سے متعلق ہزاروں برسوں سے یہاں موجود ہے۔ یہ دریا فقط خوراک کے انبار دینے میں شاندار نہیں تھا بلکہ روزگار فراہم کرنے میں بھی شاندار تھا۔ اگر آپ نے موئن جو دڑو کی وہ مہر دیکھی ہے جس میں ایک گہرے پانی میں چلنے والی کشتی نظر آتی ہے، تو ایسی بیوپاری کشتیوں کا سلسلہ دریائے سندھ کے مختلف بہاؤں میں سے ہوتا ہوا سمندر کنارے پر بنے ہوئے اس زمانے کی سب سے بڑی بندرگاہ دیبل پر پہنچتا اور وہاں سے فارس، میسوپوٹیمیا، عمان اور مصر تک ان کی منزل ہوتی
ان زمانوں میں دریائے سندھ کے زبردست بہاؤ سے متعلق آپ شاید تصور بھی نہ کرسکیں کہ اس کا پاٹ میلوں تک پھیلا ہوتا تھا اور گہرائی کہیں کہیں تو اتنی ہوتی کہ 2 اونٹ بھی دریا میں پھینک دیں تو ان کا پتا تک نہ چلے
پانی میں سفر ہمیشہ سے ہی خوف سے بھرا رہا ہے اور آج اتنی ترقی کے بعد بھی اس میں کچھ کمی نہیں آئی ہے۔ سفر کے دوران اس کی وحشت اور طاقت سے محفوظ رہنے کے لیے انسان کو اپنے ذہن کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔ اس طرح مختلف ناموں سے مختلف تہذیبوں میں پانی کے دیوتا تخلیق ہوئے جو سمندر میں آئی ہوئی مشکلات سے ان کشتیوں کو بچاتے تھے
سندھی میں ایک جملہ ہے ’بیڑا ئی پار‘ جس کی جڑیں صدیوں تک پھیلی ہوئی ہیں اور اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ اگرچہ اب دریائی بیوپار اور سفر کا زمانہ نہیں رہا مگر یہ جملہ ’بیڑا ئی پار‘ (مطلب کشتی کا سفر سلامتی سے مکمل ہو) ابھی تک استعمال ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ بھیک مانگنے والا فقیر جب کسی دروازے پر صدا لگائے گا تو سندھی زبان میں یہی کہے گا کہ ’دے دو مولا کے نام پر مولا تمہارے بیڑے پار لگائے گا‘۔ یہ جملہ پانیوں سے ہماری الفت کا ایسا صدیوں پرانا گواہ ہے کہ جیون میں اگر جَل نہ ہوتا تو یہ جیون ہی نہ ہوتا اور اگر جیون نہ ہوتا تو ہمیں بھی بکبھی حیات کے دھنک کی چھاؤں نصیب نہ ہوتی
سر جان مارشل نے اپنی کتاب موئن جو دڑو اینڈ انڈس سویلائزیشن (Mohen jo Daro and Indus Civilization) میں دریائے سندھ کے قدیم لوگوں کی تہذیب کو دریائی یا پانی کی تہذیب کہا ہے۔ وہ اس کو ’سندھو دریا پنتھی‘ (Indus Cult) کہتا ہے۔ جبکہ ڈاکٹر غلام علی الانا صاحب سندھ میں جل پوجا (پانی پوجا) کی تاریخ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ’سندھ میں دریا پوجا یا جل پوجا آج بھی سندھی تہذیب کے ایک اہم حصے کے طور پر مانی جاتی ہے۔ سندھ میں ہندوؤں کے سوا دریائے سندھ کے کناروں پر رہنے والے مہانے، میربحر، گندرا، ونگرا اور دوسرے ’دریا پنتھی‘ ہیں‘
ڈاکٹر یو ٹی ٹھاکر اپنی تحقیق سندھ کلچر کریڈل (Sindhi Culture Cradle) میں رقم طراز ہیں کہ ’سندھ میں ہندوؤں کا مرکزی پنتھ یا دھرم دریا پنتھی یعنی ’جل پوجا‘ رہا ہے۔ قدیم سندھو تہذیب میں گندم اور جو کی فصلوں کی کٹائی کے وقت اس اناج کے حاصل ہونے پر ’ایکھانا‘ (Ekhana) نام کا جشن منایا جاتا تھا، قدیم سندھ میں اس حوالے سے دو جشن منائے جاتے تھے۔ ان دونوں جشنوں کا تعلق ’دریا پیر‘ (دریائے سندھ) سے ہوتا تھا۔ ان میں پہلا جشن اس وقت منایا جاتا تھا جب سردیوں کے بعد گلیشیئر پگھلنے لگتے تھے اور پانی دریا اور مختلف نہروں میں آتا تھا اور دوسرا جشن وہ تب مناتے تھے جب بارشوں (Monsoon) کے موسم میں دریا میں سیلاب آتا تھا۔ ان جشنوں کو شاندار طریقے سے منانے کے لیے دریا کے کنارے بسنے والی بستیوں میں چھوٹے چھوٹے میلوں کا انعقاد کیا جاتا اور دیپکوں کی روشنی سے جل پوجا کی جاتی‘
اِن دنوں میں بھی جب اکثر دریا سوکھا رہتا ہے اور بارشوں کے موسم میں بارشوں کا پانی دریائے سندھ میں آتا ہے تو کناروں پر بسنے والے موہانے آج بھی اس آتے ہوئے پانی کا استقبال پھولوں اور میٹھے چاولوں سے کرتے ہیں۔ وہ اس استقبال کے بعد ہی دریا میں جال پھینکتے ہیں اور اگر دریا میں پانی کی کمی ہو یا ایک دو برسوں سے بارشیں کم پڑی ہوں تو بارش کے موسم سے پہلے دریا بادشاہ کو پھولوں کی پتیاں ارپن کرتے ہیں اور دیے جلاتے ہیں کہ یہ کرنے سے دریا بادشاہ راضی ہوجائے گا اور پھر پانی سے جل تھل ہوجائے گا
پروفیسر لال سنگھ اجوانی اس حوالے سے اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ ’سندھ میں ’ورُن دیوتا‘ (پانی کے دیوتا) کی پوجا کی جاتی ہے۔ یہ آریاؤں کے قدیم دیوتا کا تصوراتی روپ ہے جو دریاؤں اور دوسرے پانیوں کا تحفظ کرتا ہے۔ آگے چل کر دریا پنتھیوں کا بانی اڈیرو لال ہوا جس کے کئی خطابات ہیں جیسے دریا صاحب، دریا بادشاہ، امر لال، جھولے لال اور جند پیر۔ مسلمان اس کو شیخ طاہر کے نام سے بلاتے ہیں۔ بکھر اور روہڑی میں اس کو زندہ پیر یا خواجہ خضر کے نام سے بلاتے ہیں، جہاں میلہ بھی لگتا ہے اور دریا پنتھ کی رسمیں بھی ادا کی جاتی ہیں‘
آپ اگر آج بھی دریائے سندھ کے قدیم اور جدید راستوں کے کنارے سفر کریں تو آپ کو کئی مقامات ملیں گے جہاں پانی کے دیوتا کی پوجا کی جاتی ہے۔ ورُن یا ورون دیوتا کا قدیم مندر آپ کو منوڑا پر دیکھنے کو مل جائے گا
شیر دریا جہاں جہاں سے گزرا، اس کو محترم سمجھنے والے بھی اس کے احترام اور عشق میں وہاں گئے۔ اس کے کناروں پر آستان قائم کیے گئے جس کے اندر دیپک جلتا ہے اور اڈیرو لال، جھولے لال، جند پیر مچھلی پر سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ ننگر ٹھٹہ میں آپ کو لال سائیں کے نام پر بھی آستان دیکھنے کو مل جائیں گے۔ ان آستانوں کے قریب پانی کے مقدس تالاب ہیں اور وہ اس لیے محترم ہیں کہ ان میں دریائے سندھ کا پانی ہے۔ آپ اگر موجودہ دریا کے اس مقام پر جائیں جہاں دریا سمندر سے ملتا ہے تو وہاں بھی آپ کو اڈیرو لال کے گنبدی آستان مل جائیں گے
روہڑی جانے سے پہلے مجھے زندہ پیر خواجہ خضر کے جزیرے پر جانا تھا تو میں نے مصطفیٰ میرانی سے اس حوالے سے کچھ سوال کیے کیونکہ وہ ایشیا کی سب سے بڑی جھیل منچھر کے کناروں پر جوان ہوئے ہیں۔ تو ان سے گفتگو کا لب لباب کچھ اس طرح سے ہے کہ ’بنیادی طور پر مچھیرا یا ماہی گیر کا تعلق پانی سے ہے اور ان کی ساری زندگی پانی پر سفر کرتے یا پانی کے کناروں پر گزرتی ہے۔ ان کی روزی روٹی پانی پر ہے۔ کشتیوں کو چلانے کے لیے مشینوں کا استعمال یا پکے راستوں پر گاڑیوں کے چلنے کو کوئی اتنا وقت نہیں گزرا ہے۔ تو اس سے پہلے ملک میں اور ملک سے باہر جو بیوپار ہوتا یا اندرون ملک جو سامان کی ترسیل تھی وہ سب دریائے سندھ کی نہروں پر کشتیوں پر ہوتی تھی۔ سمندر میں مچھلی کا شکار بھی کشتیوں پر ہوتا تھا تو آپ تصور کریں کہ آپ کی معشیت کا دارومدار کشتیوں اور پانی پر تھا۔ جہاں سے روزی روٹی ملے وہ ذریعہ یقیناً محترم ہوتا ہے۔ اس لیے ہم مچھیروں میں ہے کہ خواجہ خضر جو زندہ پیر ہیں وہ ہماری کشتیوں کو پانیوں میں تحفظ دیتے ہیں اور اگر کوئی مشکل گھڑی آجائے، جیسے کوئی طوفان یا طغیانی تو اس سے وہ ہماری کشتیوں کو سلامتی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچاتے ہیں
’وہ ہر وقت پانیوں میں کشتیوں کے تحفظ کے لیے گھومتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہم جب کسی شکار یا طویل مسافت کے لیے دریا میں سفر کرتے ہیں تو گُڑ میں میٹھے چاول پکاتے ہیں اور ان پکے چاولوں سے پہلی ڈوئی لال پیر کی نکال کر دریا کے پانی میں ڈالتے ہیں اس کے بعد ہمیں امید ہوتی ہے کہ یہ سفر خیر و عافیت سے گزرے گا۔‘
ہم سادھ بیلو کا جزیرہ دیکھنے کے بعد تھرمل چوک پہنچے کہ ہمارے ساتھی صدرالدین سامی نے چائے پینے کی دعوت دی۔ اب چائے کی دعوت کو آپ ٹھنڈے دنوں میں کیسے ٹھکرا سکتے ہیں کہ جب شمال کی تیز ہوائیں بھی ہوں۔ دھوپ میں کرسیاں اور میزیں لگی تھیں اور ہوٹل کے اندر 60 انچ کی ایل سی ڈی ٹی وی پر شعلے فلم کا آخری حصہ چل رہا تھا۔ چائے کے بعد ہم لینس ڈاؤن برج (جس کو سکھر روہڑی پل بھی کہتے ہیں جو 1889ء میں تعمیر ہوا) سے ہوتے ہوئے روہڑی کے قدیم شہر پہنچے
جب 1876ء میں رچرڈ برٹن یہاں آیا تھا تب یہ پُل نہیں تھا۔ تب یہاں کا منظرنامہ کیسا تھا؟ اگر ہم یہ برٹن کی آنکھوں سے دیکھیں تو شاندار رہے گا کیونکہ منظرناموں کو تحریر کرنے میں برٹن صاحب کو ملکہ حاصل تھا
وہ لکھتے ہیں کہ ’اس وقت ہم ایک چھوٹی سرکاری آگبوٹ پر سوار ہوئے ہیں جس کو ایک ایرانی چلا رہا ہے۔ ہم نے اس سفر کے لیے اسے ایک آنہ کرائے کے طور پر دیا ہے اور ہم 11 منٹوں میں ایک میل سفر کرچکے ہیں۔ یہاں ایسے دو آگبوٹ ہیں۔ اس طرح سکھر سے روہڑی کے بیچ میں یہ چلتی ہیں اور لوگوں کو پہنچانے کا کام کرتی ہیں۔ ان میں سے جو آگبوٹ خالی ہو وہ کچھ پیسے لے کر آپ کو دریا سندھ کی سیر کراتی ہے
’اب کتنا فرق آگیا ہے زمانوں میں، دنیا کتنی مہذب ہوگئی ہے، پہلے وانیو (ہندو بیوپاری) گدھے پر چڑھ کر سفر کرتا تھا اور بھکاری اپنے بڑے اور میلے بکھرے بالوں کو لہراتا حق اللہ کی صدائیں لگاتا پیدل جاتا تھا مگر اس وقت وہ بھی اس آگ سے چلنے والی کشتی پر سفر کرتے ہوئے مزے سے پہنچتا ہے۔ اب تو روہڑی کے بازار نے بھی ترقی کرنی شروع کی ہے۔ یہ بھی بالکل شکارپور کے بازار جیسا ہے جہاں دکانوں پر بیٹھے ہندو بیوپاری ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ یہاں مسافروں کی رہائش کے لیے دھرم شالہ کی عمارت ہے اور اس کے نزدیک مسجد بھی ہے۔ ان جگہوں کے اطراف میں صفائی کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے
’یہاں ہر چوراہے پر رات کو شمع دان روشن کیے جاتے ہیں اور انتظام کو بہتر رکھنے کے لیے پولیس اسٹیشن قائم کیا گیا ہے۔ ہم یہ سب دیکھتے ہوئے دریا کے کنارے کے لیے نکلے جہاں مچھیروں کی کشتیاں کھڑی ہوتی ہیں تاکہ لوگوں کو دوسرے جزیروں پر لے جائیں۔ ہم پہنچے تو کشتی نہیں تھی اس لیے ہم انتظار میں وہاں کھڑے رہے۔ یہاں سے ہمیں روہڑی شہر کے شمال کی طرف والا حصہ بڑا صاف نظر آیا جس سے لگتا ہے کہ اس شہر کو قلعے کی دیوار دی گئی تھی۔ یہاں گزرے زمانوں کے چبوتروں کے آثار دکھائی دے رہے ہیں جن کو بنانے کے لیے لائم اسٹون کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس قسم کے پتھروں کی پہاڑیاں دریائے سندھ کے کنارے کے ساتھ بہت ہیں
’کچھ دیر کے بعد مہانو (مچھیرا) کشتی چلاتا کنارے پر آپہنچا۔ ہمارے ساتھ کچھ ہندو عورتیں بھی کشتی پر سوار ہوئی ہیں جن کو سامنے نظر آتے خواجہ خضر کے آستان پر جانا ہے۔ اس آستان پر بجتے نقاروں کی آواز ہم صاف سن رہے تھے۔ اس کو ہندو ’زندہ پیر‘ کے نام سے پکارتے اور مانتے ہیں۔ یہ مشہور مسلمان بزرگ ہے جس نے آبِ حیات پیا تھا اور حضرت موسٰیؑ کے ساتھ سفر بھی کیا تھا۔ یہاں سندھ میں اس کا مزار ہے
’ہم کشتی سے اترے اور کچھ فاصلہ طے کرکے ایک مزار میں داخل ہوئے جس کے مرکزی دروازے کی بنیادیں کمزور ہوگئی ہیں۔ دروازے کے دونوں اطراف چاندی کی باریک پٹیاں لگی ہوئی ہیں۔ یہاں پر لگا کتبہ پڑھا جس پر تحریر آخری الفاظ ’درگاہ عالی‘ سے اس مزار کے تعمیر کی تاریخ ملتی ہے۔ جو 341ھ (952ء) ہے۔ اس جزیرے کے مشرق میں 3 گنبدوں والی تعمیر موجود ہے اور اس کے نزدیک ایک غار بھی ہے۔ جنوب مغرب میں ایک مسجد بھی ہے جس کی تعمیر انتہائی سادہ طریقے سے کی گئی ہے۔‘
برٹن صاحب اس جزیرے کے بعد اس کے مغرب میں بکھر قلعے کو دیکھنے کے لیے چلے گئے ہیں۔ اس کے 20، 22 برس بعد آرکیالوجی سروے آف انڈیا کے آثارِ قدیمہ کے ماہر ہینری کزنس بھی یہاں آئے تھے اور خواجہ خضر کے حوالے سے اپنی کتاب میں ایک طویل بحث کی۔ اور بھی بہت سارے تاریخ دان ہیں جنہوں نے اس حوالے سے بہت سارے حقائق بیان کیے ہیں۔ ان کو سننے کے لیے ہم جلد ہی لوٹیں گے۔
حوالہ جات:
’بندہ بشر‘۔ یووال نوح ہراری۔ سٹی بک پوائنٹ، کراچی
’کتھاؤں قصا‘۔ رونی رینڈال۔ روشنی پبلیکیشن، حیدرآباد
’سندھ منھنجی نظر میں‘۔ رچرڈ ایف برٹن۔ سندھیکا، کراچی
’نگری نگری پھرا مسافر‘۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
U.T.Thakur. University of Bombay. 1959. *.Sindhi Culture.
بشکریہ: ڈان نیوز و مصنف
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)