معروف اسپورٹس کمپنی پوما کے اسرائیلی فٹبال ٹیم کی اسپانسرشپ ختم کرنے کی وجہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

اسپورٹس کمپنی پوما نے اسرائیل کی قومی فٹبال ٹیم کی اسپانسرشپ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے، تاہم یہ بھی کہا ہے کہ اس کا تعلق حالیہ ’اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ‘ سے نہیں ہے۔ کمپنی کے بقول، یہ فیصلہ ایک برس پہلے ہی کر لیا گیا تھا

تاہم اس فیصلے کے پسِ منظر پر نظر رکھنے والے اس کا تعلق حالیہ اسرائیلی جارحیت کے بعد دنیا بھر میں پھیلے اس غصے سے جوڑ رہے ہیں، جو اسرائیل کو فنڈنگ اور اسپانسر کرنے والی کمپنیوں کے خلاف پایا جاتا ہے

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے فنانشل ٹائمز کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس معروف جرمن کمپنی نے اسرائیلی فٹبال ایسوسی ایشن کے ساتھ مزید معاہدہ کرنے سے انکار کیا ہے اور اگلے سال ٹیم کو کِٹس بھی مہیا نہیں کی جائیں گی

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کا کہنا ہے کہ کمپنی نے یہ فیصلہ غزہ پر اسرائیلی کارروائیوں کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ 2022 کے اختتام پر حکمت عملی کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگلے سال سے پوما اسرائیلی ٹیم کے لیے کٹ نہیں بنائے گا

اس کے علاوہ پوما اگلے سال سربیا کی قومی فٹبال ٹیم کے ساتھ بھی اسپانسرشپ ختم کرنے والی ہے، اور وہ تمام موجودہ اور مستقبل کے تعلقات کا جائزہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے

پوما کی ترجمان نے بیان میں کہا کہ دونوں بڑی ٹیموں کے ساتھ معاہدے ہوئے ہیں، جن کا اعلان اس سال اور 2024 میں کیا جائے گا کیونکہ اسرائیل اور سربیا جیسی ٹیموں کے ساتھ معاہدے 2024 میں ختم ہو رہے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلے 2022 میں ٹیم جرسی کے ڈیزائن اور بہتری کے تناظر میں لیے گئے ہیں

یاد رہے کہ پوما نے اسرائیل کی نیشنل فٹبال ٹیم کے لیے جرسی بنانے کا معاہدہ کیا تھا، جس پر کمپنی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور کمپنی کے مصنوعات کے بائیکاٹ کی باقاعدہ مہم بھی چلائی گئی تھی

بائیکاٹ مہم چلانے والوں نے پوما پر اس معاہدے کے ذریعے مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا تھا

واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور بڑے پیمانے پر بچوں اور خواتین سمیت عام شہریوں کے قتل عام کے بعد بائیکاٹ مہم کی وجہ سے کئی برانڈ متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم پوما کا اصرار ہے کہ اس نے یہ فیصلہ اپنی ’وسیع حکمتِ عملی کے تحت مالی وجوہات‘ کی بنیاد پر کیا ہے

غزہ پر 7 اکتوبر سے اسرائیل کی جانب سے بمباری کے بعد اسرائیلی مصنوعات کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی حامی کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بھی زوروں پر ہے اور اسلامی ممالک میں بڑے برانڈز کو ان بائیکاٹ کی وجہ سے معاشی طور پر شدید دھچکا لگا ہے

گوکہ پوما نے اس معاہدے کے خاتمے کی وجہ اسرائیل کی غزہ پر بمباری کو قرار نہیں دیا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی بائیکاٹ مہم کے پیش نظر ہی کمپنی نے بھی اسرائیلی ٹیم کے لیے مصنوعات نہ بنانے کا فیصلہ کیا ہو۔ تاہم یہ تو طے ہے کہ اس فیصلے کی بنیاد اخلاقی نہیں، خالصتاً کاروباری ہی ہے۔

”تمام زندگیاں برابر ہیں“ آسٹریلوی کھلاڑی عثمان خواجہ

آسٹریلوی کرکٹر عثمان خواجہ کی جانب سے اپنے جوتوں پر فلسطین کے حق میں نعرے درج کرکے ٹریننگ کرنے پر آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے بیان جاری کر دیا

آسٹریلیا کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے پہلے مسلمان کرکٹر عثمان خواجہ نے رواں ہفتے کے اوائل میں پرتھ میں ٹیسٹ میچ کی ٹریننگ کے دوران جو جوتے پہنیں ان میں فلسطین کی حمایت میں نعرے درج تھے

عثمان خواجہ کے جوتوں پر ’تمام زندگیاں برابر ہیں‘، ’آزادی ہر انسان کا حق ہے‘ کے نعرے درج تھے، جس کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھیں

سینتیس سالہ نوجوان کرکٹر نے اس ہفتے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر غزہ کے لیے حمایت کا اظہار کیا تھا اور صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ پرتھ میں جمعرات سے پاکستان کے خلاف شروع ہونے والے ٹیسٹ میچ کے دوران یہی جوتے پہننے کا ارادہ رکھتے ہیں

انہوں نے انسٹاگرام پر یونیسیف کی ویڈیو شئیر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’کیا لوگوں کو معصوم انسانوں کے مارے جانے کی پرواہ نہیں ہے؟ کیا انہیں صرف رنگت اور مذہب کی بنیاد پر اہمیت نہیں دی جا رہی؟‘

بعدازاں آسٹریلوی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے کپتان پیٹ کمنز نے تصدیق کی کہ عثمان خواجہ پاکستان کے خلاف پہلے ٹیسٹ کے دوران وہ جوتے نہیں پہنیں گے جن میں نعرے درج ہیں

گارجین کی رپورٹ کے مطابق پیٹ کمنز نے کہا کہ وہ عثمان خواجہ کے موقف کی حمایت کرتے ہیں لیکن آئی سی سی کے قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ یہ جوتے نہیں پہنیں گے

پیٹ کمنز نے کہا کہ وہ اپنی ٹیم میں ایسے ماحول کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں جہاں ہر کوئی اپنی رائے کا اظہار کرسکے’مجھے لگتا ہے کہ ہماری ٹیم میں ہر ایک کے اپنے انفرادی خیالات ہیں جو اچھی بات ہے۔’

صحافیوں سے گفتگو کے دوران پیٹ کمنر نے بھی عثمان خواجہ کے جوتوں میں درج نعرے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’ان نعروں سے کسی کو شکایت نہیں ہونی چاہیے لیکن ہمیں آئی سی سی قوانین پر عمل کرنا ہوگا‘۔

دوسری جانب آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے اس سے متعلق بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کرکٹرز کی ذاتی رائے کے اظہار کی حمایت کرتے ہیں لیکن آئی سی سی قوانین کے مطابق اسٹیڈیم میں اس قسم کے ذاتی رائے کی نمائش پر پابندی ہے

بورڈ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے آئی سی سی کے قوانین موجود ہیں، یہ قوانین ذاتی پیغامات کے اظہار سے منع کرتے ہیں، ہم توقع کرتے ہیں کہ کھلاڑی ان قوانین پر عمل کریں گے

یاد رہے کہ 2014 میں آئی سی سی نے انگلینڈ کے مسلمان کرکٹر معین علی کو اپنی کلائی پر غزہ کی حمایت میں بینڈ پہننے پر متنبہ کیا تھا

معین علی نے ساؤتھ ہیمپٹن کے گراؤنڈ روز باؤل میں انگلینڈ کی بیٹنگ کے دوران کلائی پر بینڈ پہنا تھا جس پر ’ سیو غزہ (غزہ کو بچاؤ)’ اور ’فری فلسطین (فلسطین کو آزاد کرو)‘ لکھا ہوا تھا

انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے معین علی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close