پاکستان سے ’ڈنکی’ لگا کر یورپ پہنچانے والے نیٹ ورک کی ہوشربا داستان

ویب ڈیسک

پاکستان میں انسانی اسمگلنگ مافیا کے مقامی ایجنٹ غیرقانونی راستوں سے سرحد پار کرانے کے لیے ‘ڈنکی’ لگانے کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ گجرات کے رہائشی ایک ایسے ہی ایجنٹ گزشتہ دس برسوں سے بیرونِ ملک جانے کے خواہشمند افراد کی ’ڈنکی‘ لگوانے کا کام کر رہا ہے، جس کی منزل اکثر اوقات موت ہوتی ہے

مذکورہ ایجنٹ کا کہنا ہے ”ایران کے راستے بارڈر کراسنگ کا دور اب گزر گیا ہے۔ وہاں ہلاکتیں سو فی صد ہوگئی تھیں اور کئی برسوں سے کوئی ایک بھی زندہ سلامت یورپ نہیں پہنچ پا رہا تھا۔ لبیا سے کشتی کے ذریعے اٹلی پہنچنا بہتر روٹ ہے اور اگر ایجنٹ زیادہ بندے بٹھانے کی لالچ نہ کرے تو اس کا رزلٹ سو فی صد ہے“

ایجنٹ نے اپنی شناخت اور نام خفیہ رکھنے کی شرط پر ڈنکی لگانے سے متعلق بتایا کہ کس طرح غیرقانونی بارڈر کراسنگ کا کام زمینی راستوں سے اب سمندری راستوں پر منتقل ہو چکا ہے

وہ بتاتے ہیں ”اس کام میں رسک کم ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سمیت پاکستان کے اداروں کا عمل دخل بھی نہیں ہوتا“

ایجنٹ محمد وقار (فرضی نام) نے بتایا کہ اسی اور نوے کی دہائی میں کوئٹہ کے راستے ایران پھر ترکیہ اور وہاں سے یونان یا کسی اور یورپی ملک پہنچنا کافی آسان تھا۔ بڑی تعداد میں لڑکے اس راستے سے یورپ پہنچنے میں کامیاب بھی ہوئے“

وقار کا کہنا ہے ”نائن الیون کے بعد جب پوری دنیا میں بارڈر کراسنگ پر سختیاں شروع ہوئیں تو اس کا اثر اِن ممالک پر بھی پڑا۔ لیکن اگلے آٹھ، دس برسوں تک بیشتر لوگ بارڈر کراسنگ میں کامیاب ہوئے۔ تاہم اس دوران بڑی تعداد میں لوگوں نے واپس آنا شروع کر دیا کیوں کہ انہیں ملک بدر کیا جانے لگا تھا“

وہ بتاتے ہیں ”چند برس قبل صورتِ حال اس وقت خراب ہوئی، جب غیرقانونی راستوں سے یورپ جانے والوں کو گرفتار کرکے ڈی پورٹ کرنے کے بجائے انہیں دیکھتے ہی گولی مارنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایران، ترکیہ اور یونان کی سیکیورٹی فورسز کی ایسی کارروائیوں کے بعد پاکستان سے یورپ میں قیام کی خواہش سے جانے والوں کی لاشیں آنا شروع ہو گئیں“

وقار نے بتایا ”ان واقعات کے بعد پاکستان میں بھی ایجنٹوں کے خلاف کارروائیاں شروع ہوئیں، جس کی وجہ سے یہ کام زیادہ محفوظ نہیں رہا تھا۔ اس کے علاوہ ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتاری کا خطرہ بھی منڈلاتا رہتا تھا۔ اس کے باوجود والدین کی خواہش رہتی تھی کہ ان کے بچوں کو ’ڈنکی‘ لگوائی جائے“

وقار کہتے ہیں ”زمانے کے بدلتے حالات دیکھ کر ایجنٹوں نے بھی اپنے روٹ تبدیل کرلیے ہیں۔ اب انہوں نے بھی پیدل ڈنکی لگوانے کے بجائے کشتی کے ذریعے سفر شروع کر دیا ہے۔ نیا روٹ نسبتاً محفوظ ہے اور اگر ایجنٹ لالچ نہ کرے تو اس ڈنکی میں رزلٹ سو فی صد ہے اور جان کا خطرہ بھی کم ہے“

ڈنکی کا کام کرنے والے یہ ایجنٹ بتاتے ہیں ”ایک لڑکے کو پاکستان سے یورپ پہنچانے کے مرحلے میں دو ایجنٹ کام کرتے ہیں۔ پہلے ایجنٹ کا کام پاکستان سے لیبیا پہنچانا ہوتا ہے۔ دوسرے ایجنٹ لیبیا سے آگے اٹلی پہنچانے کا ذمے دار ہوتا ہے۔ پہلے ایجنٹ کی طرف سے لڑکوں کا دبئی کا ویزا لگوا کر انہیں وہاں پہنچایا جاتا ہے۔ اس کے بعد آگے لیبیا کا ویزہ لگوایا جاتا ہے اور انہیں دبئی سے لیبیا روانہ کیا جاتا ہے۔ اس پہلے مرحلے کے پانچ لاکھ روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ لیبیا میں الگ سے ایجنٹ موجود ہوتے ہیں، جن کے ساتھ ہماری پہلے سے بات طے ہوتی ہے اور ہم نے انہیں لڑکوں کی تعداد اور رقم کی ادائیگی کے بارے میں پیشگی آرڈر دیا ہوا ہوتا ہے“

ایجنٹ کے مطابق ”لیبیا سے اٹلی پہنچانے کے ڈیڑھ ہزار سے دو ہزار ڈالرز لیے جاتے ہیں۔ یہ رقم پاکستان میں موجود ایجنٹ ، لیبیا کے ایجنٹ کو ہنڈی کے ذریعے بھجواتے ہیں اور رقم وصول ہونے کے بعد ہی وہ بھجوائے گئے لڑکے کو کشتی پر بٹھاتے ہیں“

ان کے مطابق ”رازداری ہمارے کام کا اولین اصول ہے۔ لیبیا کا ایجنٹ کبھی بھی ہمارے بھجوائے گئے لڑکے کو یہ نہیں بتائے گا کہ اس کو کتنے ڈالرز ملے ہیں۔ پاکستان میں موجود ایجنٹ اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور زیادہ منافع حاصل کرتے ہیں“

انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ حال ہی میں جو کشتی الٹی ہے اور اس میں گجرات کے لڑکوں کی جانیں گئیں ہیں، ان سے بیس بیس لاکھ روپے میں معاملہ طے کیا گیا تھا۔ یوں پاکستانی ایجنٹ نے اپنا منافع زیادہ رکھا تھا

ان کے بقول لیبیا سے آگے اٹلی پہنچانے والے ایجنٹوں کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ انہوں نے فی کشتی کے حساب سے بحری ڈیوٹی دینے والے اہلکاروں سے معاملات طے کیے ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کو یہ لالچ ہوتا ہے کہ وہ زیاہ سے زیادہ بندے بٹھائیں تاکہ کم کمیشن میں زیادہ لوگوں کو سمندری ڈنکی لگوائی جا سکے۔ اسی لالچ کی وجہ سے کشتی ڈوبنے جیسے واقعات میں جانیں جاتی ہیں

ادہر ایف آئی اے کا انسدادِ انسانی اسمگلنگ ونگ ملک کے مختلف علاقوں میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کام کر رہا ہے

انسدادِ انسانی ونگ کے ایک افسر محسن وحید بٹ بتاتے ہیں ”ملکوں کی سرحدوں پر اب وہ صورتِ حال نہیں جیسی پندرہ بیس سال پہلے تھی. تفتان بارڈر پر سیکیورٹی فورسز کا سخت پہرہ ہے۔ اس کے علاوہ ایران میں ان کی سیکیورٹی فورسز کی پالیسی زیرو ٹالرنس کی ہے۔ ترکیہ میں بھی کافی سختی ہوچکی ہے اور جو لوگ قانون کی گرفت میں آ جائیں ان کا بچنا مشکل ہوجاتا ہے“

محسن وحید کہتے ہیں ”ایران کے صحراؤں میں سینکڑوں نوجوان مارے جا چکے ہیں۔ ان کی تو لاشیں بھی واپس نہیں آئیں اور وہ بے گور و کفن وہیں پڑے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئے۔ ان کی واپسی کی آس لیے والدین اور بیوی بچے ساری زندگی ان کے منتظر رہیں گے۔“

یوں تو ڈنکی لگا کر یورپ پہنچنے کے لیے پاکستان بھر سے لوگ جاتے ہیں لیکن وسطی پنجاب کے اضلاع گجرات، منڈی بہاؤ الدین، حافظ آباد وغیرہ میں کشتی کے ذریعے نوجوانوں کو اٹلی بھجوانے میں اضافہ ہوا ہے۔ ساتھ ہی یہ اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ کچھ مہینوں کے دوران کشتی الٹنے کے متعدد واقعات ہو چکے ہیں۔ لیکن والدین مبینہ طور پر اسے رپورٹ نہیں کرتے اور کوشش کرتے ہیں کہ معاملہ چھپا رہے

اس حوالے سے گجرات کے مقامی صحافی عبدالسلام مرزا کہتے ہیں ”متاثرہ والدین کی طرف سے معاملے کو چھپانے میں ایک تو ایجنٹ کا کردار ہوتا ہے، جس سے انہوں نے اپنی رقم واپس لینی ہوتی ہے۔ کیوں کہ حادثہ ہونے پر ایجنٹ کہہ دیتا ہے کہ اگر آپ نے ایف آئی اے والوں کو میرا نام بتایا تو آپ کی رقم ڈوب جائے گی“

عبدالسلام مرزا نے بتایا ”حالیہ دنوں میں جو سمندری راستے اختیار کیے جا رہے ہیں ان میں ایف آئی اے کا براہِ راست عمل دخل کم ہو جاتا ہے کیوں کہ پاکستان کی سرحد تو غیر قانونی طریقے سے عبور نہیں کی جاتی۔ لڑکوں کو باقاعدہ ویزے لگوا کر دبئی بھجوایا جاتا ہے، جہاں سے لیبیا جاتے ہیں اور پھر وہاں سے لیبیا کی سرحد غیر قانونی طریقے سے عبور کرائی جاتی ہے“

عبدالسلام مرزا نے کہا کہ گجرات اور منڈی بہاؤالدین کے ہر دوسرے گاؤں میں ایجنٹ موجود ہیں اور جو لڑکا پندرہ سولہ سال کی عمر کو پہنچتا ہے، وہ یورپ کے خواب دیکھنے لگتا ہے

انہوں نے کہا ”ایسا لگتا ہے کہ ڈنکی لگانا گجرات اور منڈی بہاؤالدین کی شناخت بن چکا ہے ، یہ اس مٹی میں رچ بس چکا ہے کہ اگر امیر ہونا ہے تو ’ڈنکی لگاؤ‘ ورنہ یہیں اپنے باپ دادا کی زمینوں پر کاشت کاری کرتے رہو“

https://sangatmag.com/latest/15419

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close