برطانیہ کا پناہ کے متلاشی افراد کی فوری ملک بدری کے لئے قانون سازی کا فیصلہ

ویب ڈیسک

برطانوی کنزرویٹو حکومت کی جانب سے آج ایک نیا بل پیش کرنے کی توقع ہے، مجوزہ بل کے تحت چھوٹی کشتیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہو کر پناہ کے متلاشی افراد کو حراست میں لینے اور فوری طور پر ملک بدر کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے گی

وزیر اعظم رشی سوناک کے مطابق اس منصوبے کا مقصد چھوٹی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ کے ساحلی علاقوں تک پہنچ کر ملک میں پناہ کی درخواستیں دینے والے ہزارہا تارکین وطن کو روکنا ہے۔ اس ضمن میں سوناک کی پانچ کلیدی ترجیحات پر مبنی پالیسیوں میں چھوٹی کشتیوں پر سوار ہو کر رودبار انگلستان کے راستے ساحل تک پہنچنے والوں کی حوصلہ شکنی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ رشی سوناک کی حکومت نے اس اقدام کا فیصلہ ایک ایسے وقت پر کیا ہے، جب برطانیہ کے جنوبی ساحلی علاقوں تک پہنچنے والے غیر قانونی تارکینِ وطن کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے

رپورٹس کے مطابق گزشتہ برس پینتالیس ہزار تارکین وطن برطانوی ساحلی علاقوں تک پہنچے تھے، جن میں سے تقریباً نوے فی صد نے بعد میں اپنی پناہ کی درخواستیں بھی جمع کرا دی تھیں

برطانوی حکومت کی طرف سے غیر قانونی طور پر آنے والے تارکینِ وطن کی روک تھام کی خاطر نئی قانون سازی کا مقصد آئندہ ایسے تمام افراد کو ملک بدر کرنا ہے، جو چھوٹی کشتیوں میں سوار ہو کر برطانوی ساحلی علاقوں تک پہنچیں گے اور بعد میں پناہ کی درخواستیں دینے کی کوشش کریں گے۔ ایسے تارکینِ وطن کو ملک بدر کر کے کسی بھی تیسرے محفوظ ملک میں بھیج دیا جائے گا

اس موضوع پر وزیر اعظم رشی سوناک کا ایک مضمون منگل کو برطانوی اخبار ‘دا سن‘ میں شائع ہوا، جس میں وہ لکھتے ہیں ”چھوٹی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ پہنچنے والے تارکینِ وطن دراصل براہِ راست کسی جنگ زدہ ملک سے نہیں آتے اور نہ ہی ان کی زندگیوں کو کوئی سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ ایسے تارکین وطن انگلش چینل پار کرنے سے پہلے کسی نہ کسی محفوظ یورپی ملک سے گزر کر ہی برطانیہ پہنچتے ہیں‘‘

رشی سوناک نے مزید لکھا ہے ”یہ تارکینِ وطن ایسا کر سکتے ہیں، تنہا یہ حقیقت ہی ان کے ساتھ ایک طرح کی نا انصافی ہے، جو قانونی طریقوں سے برطانیہ پہنچتے ہیں، لیکن اب بہت ہو چکا۔ یہ نیا قانون ایسے تمام افراد کے لیے ایک واضح اشارہ ہوگا۔ اگر آپ غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہوں گے، تو آپ کو جلد از جلد ملک بدر کر دیا جائے گا۔‘‘

عوامی رائے سے متعلق سروے کرانے والے ایک آن لائن پورٹل YouGov کی طرف سے گزشتہ نومبر میں کرائے گئے ایک سروے کے نتائج کے مطابق برطانیہ میں امیگریشن کنٹرول کا مسئلہ حکومت کو درپیش متعدد بڑے مسائل میں سے تیسرا اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس سروے میں حصہ لینے والے افراد میں سے ستاسی فی صد نے اس مسئلے سے نمٹنے کے حکومتی طریقہِ کار کو بہت برا قرار دیا ہے

2022ع میں برطانیہ میں دی گئی پناہ کی درخواستوں کی تعداد تقریباً پچھتر ہزار رہی تھی، جو گزشتہ بیس سالوں کی سب سے زیادہ سالانہ تعداد قرار دی جا رہی ہے۔ جس کے بعد وزیر اعظم رشی سوناک پر صورتحال سے نمٹنے کے لیے دباؤ بڑھ گیا ہے

تاہم یہ تعداد یورپی یونین کے رکن ممالک میں ایسی اوسط تعداد سے پھر بھی کم تھی۔ یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں گزشتہ برس تارکینِ وطن کی طرف سے پناہ کی دو لاکھ چالیس ہزار درخواسیتں جمع کرائی گئی تھیں

برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق قانون سازی میں ’رائٹس بریک‘ کی شق بھی شامل ہے جس کے تحت چھوٹی کشتیوں پر آنے والوں کی جانب سے پناہ کا دعویٰ ناقابل قبول ہوگا

حکومت کم از کم کچھ بے دخل کیے جانے والے افراد کو اس معاہدے کے تحت روانڈا بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے، جو گزشتہ سال طے پایا تھا، غیر قانونی طور پر آنے والے افراد پر تاحیات برطانیہ آنے پر پابندی ہوگی

سیکریٹری داخلہ نے اتوار کے روز نئی قانون سازی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کو ایسی ’کشتیوں کو روکنا چاہیے‘

انہوں نے کہا تھا کہ یہ ہونا چاہیے کہ اگر آپ یہاں غیر قانونی طور پر آتے ہیں تو آپ کو حراست میں لے لیا جائے گا اور فوری طور پر ملک سے بے دخل کردیا جائے گا، ہمارے قوانین سادہ ہوں گے، برطانیہ میں داخل ہونے کا واحد راستہ محفوظ اور قانونی راستہ ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close