بچوں میں انجکشن کا خوف کم کرنے کے لیے پاکستانی نوجوانوں نے آلہ ایجاد کر لیا

نیوز ڈیسک

انجکشن یا ٹیکا لگنے کا خوف تقریباً دنیا بھر کے بچوں میں پایا جاتا ہے، جس کے باعث بیمار ہونے کی صورت میں  اکثر انہیں انجکشن کے ذریعے دوا دینے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے

اس خوف کو کم کرنے کے لیے اب آغا خان یونیورسٹی کے نوجوانوں نے ایک انتہائی کم خرچ اختراع کی ہے، جس میں سرنج کی سوئی بچے کو نظر نہیں آتی اور اس میں ہاتھ کو سن کیا جاتا ہے۔ چونکہ بچہ سوئی کو نہیں دیکھ سکتا اس لیے اس کا خوف کم ہوجاتا ہے

دوسری طرف اس اختراع میں انجکشن لگنے والے حصے کو ایک کیمیکل سے سُن کیا جاتا ہے، جس سے تکلیف نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے

اس اختراع کو ڈاکٹر ابراہیم ساجد کی نگرانی میں ایک ٹیم نے تیار کیا گیا ہے، ٹیم میں اریبہ شکیل احمد، نمریٰ ناصر، محمد اکبر شیخ اور اسد میاں شامل ہیں

نفسیات کی اصطلاح میں انجکشن کا خوف ٹرائیپینوفوبیا کہلاتا ہے، جو دنیا بھرکے بچوں اور کچھ بالغ افراد میں بھی عام ہے۔ اس ضمن میں آغا خان یونیورسٹی کی ٹیم کی تحقیقات جریدہ نیچر میں بھی شائع ہوئی ہیں اور اسے گلوبل چلڈرن پیڈیاٹرک ریسرچ انویسٹی گیٹر ایوارڈ بھی دیا گیا ہے

رپورٹ کے مطابق اس ایجاد کو آغا خان یونیورسٹی کے اختراعاتی اسٹارٹ اپ پروگرام، سی سی آئی ٹی میں پروان چڑھایا گیا جس پر مسلسل دو سے تین برس تک تحقیق کی گئی ہے۔

اس کے لیے پہلے ڈاکٹر ابراہیم اور ان کی ٹیم نے ایک گھڑی نما آلہ بنایا جو زیادہ مؤثر نہ تھا، تاہم اس کے بعد انہوں نے اپنے دوسرے ڈیزائن پر کام شروع کیا۔ اس بار انہوں نے سوئی کو نظروں سے اوجھل کرنے والی ایک شیلڈ بنائی جسے آسانی سے پہنا جا سکتا ہے۔ مریض کی سمت والے حصے پر اس پر کارٹون اور دیگر خوشگوار خاکے بنائے گئے جو بچے کو احساس دلاتے ہیں کہ یہ کوئی تکلیف دہ شے نہیں۔ مستقبل میں اس پر ای اسٹیکرز لگانے کا منصوبہ ہے. دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پورے ماڈل کو تجارتی طور پر تیار کرنے میں بھی چند روپوں کی لاگت آئے گی ۔

انجکشن لگنے کے عمل کے دوران بچہ نہیں دیکھ سکتا کہ اس کے ہاتھ پر کیا کارروائی کی جارہی ہے اور پھر کسی مؤثر دوا سے سوئی لگانے والا حصہ سن کردیا جاتا ہے جس سے بچے کو مزید ان دیکھی تکلیف کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اس ڈیزائن کو پیٹنٹ (حقِ ملکیت) دیا جاچکا ہے اور اسے بڑے پیمانے پر آزمایا بھی جارہا ہے

توقع ہے کہ اس سے بچوں میں سوئی لگوانے کا رحجان بڑھے گا اور ٹیکے کی جگہ سُن ہونے کی بنا پر اسے تکلیف کا احساس بھی نہیں ہوگا۔ بالخصوص یہ ایجاد ہنگامی حالت میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے، جہاں بچے کو انجکشن لگانے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہوتا

اس ایجاد کو پین فری انویزیبل نیڈل کا نام دیا گیا ہے جسے نیچر پیڈائٹرکس ریسرچ انوویشن ایوارڈ سے نوازا گیا ہے جو پاکستان کی تاریخ میں پی آر ڈی آئی کا پہلا ایوارڈ بھی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close