فرسودہ نظام اور شہید ناظم جوکھیو

حفیظ بلوچ

ملیر کا ناظم جوکھیو ایک معصوم انسان تھا، وہ اپنی معصومیت میں وہ کام کر گیا، جو اس ملک میں کرنا جرم ہے.. وہ کام ہے طاقتور کا ہاتھ روک کر اس سے سوال پوچھنا.. قبائلی نظام میں سردار حاکم ہوتا ہے. اور اس کے نیچے اس کے وڈیرے، جو سردار کے کان آنکھ اور بازو ہوتے ہیں اور پھر اس کے قبائل کے لوگ جو سردار کی مملکت کی رعایا.. ناظم جوکھیو بھی اسی نظام کا حصہ تھا ، وہ سرداری نظام میں تو سانس لے رہا تھا مگر وہ سرداری نظام سے خائف تھا. اس کا یہ جرات مندانہ اقدام اس کے ذہن کے کسی کونے میں موجود معاشرتی تبدیلی کی خواہش اور اپنے ننگ و ناموس اور اپنی دھرتی سے محبت کا عکاس ہے.

جہاں وہ رہتا تھا، وہاں ہر سال عرب ممالک سے عرب آ کر تلور پرندے کا شکار کرتے تھے، ناظم کو معلوم تھا کہ یہاں شکار کرنا غیر قانونی ہے اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ یہ شکاری کس کے دوست ہیں. جب اس نے اپنے گاؤں کے قریب انہیں دیکھا تو ناظم نے ان کو روک لیا. یہ عرب شکاری ریاست کے ساتھ جاگیرداروں، سرداروں وڈیروں کے بھی دوست ہیں. ریاست انہیں پرمٹ دیتی ہے اور یہ جاگیردارا سردار انہیں سہولتیں دیتے ہیں، ان کی تمام تر ضرورتیں پوری کرتے ہیں. بدلے میں یہ عرب یہاں کے حاکموں کو اور ان مقامی جاگیرداروں کو بہت کچھ دیتے ہیں. یہ محض ملیر ہی میں نہیں ہوتا، یہ جاگیردارانہ نظام کا ایک جزو لاینفک ہے.

ناظم جوکھیو نے ان طاقتور شکاریوں کو روکا اور شکار سے منع کیا. یہاں تو مرتے انسان کے لیئے کوئی بات نہیں کرتا، مگر ناظم نے باہر سے آنے والے تلور جیسے مہمان پرندوں کے لیئے یہ قدم اٹھایا جو کہ ایک بہت بڑی بات ہے، اس کے بدلے میں عرب کے ساتھ موجود دلال نے ناظم جوکھیو کو زد و کوب کیا، موبائل چھینا جس سے وہ فیسبک پر لائیو ساری باتیں ریکارڈ میں لا رہا تھا.
اس طرح شکاریوں کو غیر قانونی شکار کرنے سے روکنا، ان سے سوال پوچھنا اور فیسبک پہ اس واقعے کو لائیو دکھانا ناظم جوکھیو کا جرم بن گیا تھا. عرب کے دوستوں کو یہ بات ناگوار گزری کہ ایک کمی کمین ان کی بادشاہی میں ان کے دوستوں کی بےعزتی کرے… سردار کی انا کو ٹھیس پہنچی کہ اس کی بادشاہی میں اس کے ان داتاؤں کے ہاتھ کو کوئی روکے اور انہیں انکار کرے… اس لیئے وہ آگ بگولہ ہو گئے ـ ناظم جوکھیو کو اندازہ تھا کہ اس نے کیا کیا ہے اور اس کے نتائج کیا ہوں گے، جب اسے سردار کا پیغام ملا تو اس نے پہلے وہاں جانے سے انکار کر دیا، کیونکہ اسے کچھ کچھ اندازہ تھا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا، مگر اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اسے یوں مار دیا جائے گا. اس لیئے کہ جب اس کے بھائی نے کہا کہ اس کے ساتھ سردار کے پاس چلے، اسے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ اس وقت اس کے بھائی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہاں کیا ہونے والا ہے، ناظم جوکھیو کی فیملی جام کے خاص لوگوں میں شمار ہوتی ہے، جو بھائی ناظم کو لے کر جانے والا تھا جام کے ساتھ بلدیاتی الیکشن میں جام کے پینل میں شامل تھا، اور اس کے قتل میں نامزد جام اویس کے صوبائی اسیمبلی کے نشست کو جتوانے میں ناظم جوکھیو کی فیملی کی شب روز محنت بھی شامل ہے. اس لیئے اس کے بھائی نے کہا تو وہ سردار کے پاس جانے کو تیار ہو گیا، مگر جاتے جاتے اس نے اپنے وکیل دوست کو جو پیغام بیجھا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے کسی انہونی ہونے کا ڈر بھی تھا ـ اور وہی ہوا، اسے اذیتیں دے کر مار دیا گیا… اتنی اذیت، اتنی سفاکی سے… کہ یہاں لکھنا میرے لیئے ممکن نہیں ـ

اس قتل کے بعد پورے پاکستان میں ایک بھونچال سا آ گیا، جام اویس کو گرفتاری دینی پڑی اور اس کے ساتھ جام عبدالکریم کا نام بھی ایف آئی آر میں درج ہو گیا، یہ کیس اب ٹیسٹ کیس بن چکا ہے، اس ریاست کے لیئے، انتظامیہ کے لیئے، جام فیملی کے لیئے، جام کے لوگوں کے لیئے، ملیر کے سیاسی قیادت کے لیئے اور ملیر کے لوگوں کے لیئے، ناظم جوکھیو کو انصاف ملے اور ان کے قاتلوں سزا ملے ـ  مگر اس فیوڈل نظام اور ہائی برڈ نظام میں ہمیشہ جیت طاقتور کی ہوتی ہے، پاکستان کے مروجہ قوانین اور پاکستان کے حالیہ تاریخ میں کئی بار یہ ہو چکا ہے کہ غریب کو دن دہاڑے کیمروں کے سامنے مار دیا جاتا ہے، پھر بھی قاتل باعزت بری ہوجاتے ہیں اور یہ آج کی بات  نہیں بلکہ انگریز کے نوآبادیاتی دور سے یہی ہوتا آ رہا ہے کہ طاقتور ہر گناہ کرنے کے لیئے آزاد ہے. انگریز سرکار نے انہی طاقتور جاگیرداروں کے طاقت کو استعمال کر کے یہاں کے کروڑوں انسانوں پہ دو سو سال تک حکمرانی کی ـ تاریخ گواہ ہے، جا کر تاریخ کے اوراق پڑھیئے، کتنے گورے ہندوستان میں حکمران تھے اور کتنے دیسی ان کے سپاہی، ان کے چوپدار، کتنے جاگیردار خان نواب سردار ان کے دست و بازو تھے. یہ ملک بھی انہی بڑے طاقتور لوگوں کے لیئے وفاداری کا انعام ہے اور کمال دیکھئے، یہاں پر بسنے والوں کی قسمت کہ ان کے وفاداروں نے بھی کیا کمال وفاداری کی ہے، اپنا آقا تو بدل لیا مگر اپنے پرانے آقاؤں کے قوانین جوں کے توں رکھے..
اس لیئے ناظم جوکھیو کے ساتھ جو کچھ ہوا، اسے سمجھنے کے لیئے جاگیرداری نظام کو سمجھنا ضروری ہے، اور یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آج اکیسویں صدی میں بھی یہاں جاگیرداری نظام کیوں رائج ہے. جس کی وجہ سے کبھی مختاراں مائی کی عزت کو تاراج کیا جاتا ہے، کبھی کوہستان کی معصوم بچیوں کو صرف سوشل میڈیا میں شادی کے گیت گانے کی وجہ سے بیدردی سے مار دیا جاتا ہے تو کبھی ناظم جوکھیو جیسے نوجوانوں کو سفاکی کے ساتھ قتل کیا جاتا ہے..

جب برطانیہ سامراج بن کر ہندوستان میں راج کر رہا تھا تو اس کے ساتھ بڑے بڑے جاگیردار، نواب، سردار خان، جام، وڈیرے بھی حاکمیت کے دعوے دار تھے اور جب وہ پاکستان بنا کر گئے تو یہاں بھی وہی حاکم کہلائے ہاں اس میں بیوروکریسی ، فوج اور مُلا بھی حصہ دار ٹھہرے ـ
اگر دیکھا جائے تو ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس مملکت خداداد کے وجود میں آتے ہی برطانیہ سامراج کے بنائے انہی بڑے بڑے جاگیردار (سیاستدان بھی یہی ہیں) ، بیوروکریٹ ملا اور فوج کے گٹھ جوڑ نے کبھی بھی اس ملک کو جہموری رستوں پر چلنے نہیں دیا، قراداد مقاصد گھڑ کے اسلامائیزیشن کو صرف اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیئے استعمال کیا گیا، جب کہ ہندوستان نے آزاد ہوتے ہی ہندوستان کو جہموری رستے پہ لگا دیا، امبیڈکر نے آئین دیا نہرو اور کانگریس کی پوری جماعت نے ہندوستان میں جہموریت کی بنیاد رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا، انہی کی بدولت آج ہندوستان ایک معاشی طاقت کے روپ میں ابھر رہا ہے (یہ اور بات کہ اب وہ بھی جنونیت کے راستے پر چل رہے ہیں،، جس کا انجام وہ بھی جلد یا بدیر دیکھ لیں گے).. اور یہاں غلام محمد، سکندر مرزا اور ایوب کے گٹھ جوڑ نے وفاق کے نام پر آمریت میں پلنے والے ناسور سسٹم کو رواج دیا، اس سسٹم میں سب سے بڑے بینیفشریز وہی جاگیردار، سرمایہ دار، سردار، وڈیرے، بیوروکریٹ اور جرنیل بنے. پنجاب سے لے کر خیبر پختون خواہ، سندھ سے لےکر بلوچستان میں یہی جاگیردار، سردار، نواب، وڈیرے، پیر ہی طاقت ور تھے اور ہیں ـ مگر بنگلہ دیش میں سیاسی جہموری جڑیں مضبوط تھیں، اس لیئے وہاں پاکستان کے حاکموں کے غیر جہموری رویوں اور فیصلوں کے خلاف مزاحمت اور بغاوت ہوئی، اس کا نتیجہ کچھ عرصے کے بعد بنگلہ دیش کا ایک الگ ملک بن جانا تھا.

پاکستان میں شروع سے ریاست کے اندر کئی ریاستیں اپنا وجود رکھتی تھیں ، شہروں میں سیاسی اشرافیہ کے ساتھ سرمایہ دار، بیوروکریٹ، جرنیل مشترکہ حاکم ہیں اور باقی پورے ملک میں جاگیردار، سردار، نواب، خان، وڈیرے، گدی نشین پیر اور انہی کے آشیرباد سے بنے سیاسی سرمایہ دار اپنے اپنے علاقوں میں اپنی سلطنت قائم کیئے ہوئے ہیں اور ان سب کے گٹھ جوڑ سے مملکت خداد کو آج تک چلایا جا رہا ہے. اس تمام عرصے میں پاکستان کا فیوڈل سسٹم نیو فیوڈل سسٹم میں ڈھل چکا ہے ـ اب بڑے جاگیر دار، نواب، سردار، وڈیرے سرمایہ دار بن کے سیاسی اشرافیہ کا لبادہ پہنے ہوئے ہیں، اور یہ سرمایہ دار، بیوروکریٹ ، جرنل کرنل اپنی حاکمانہ ذہنیت کے وجہ سے کسی سفاک فیوڈل سے کم نہیں ـ پاکستان آج جس نہج پر پہنچ چکا ہے، اس میں صرف طاقت سفاکیت کے ساتھ استعمال ہوتی ہے، منصوبہ بندی کے تحت تمام ادارے تباہ کر کے طاقت کا مرکز ایک جگہ پر رکھا گیا، جنہوں نے ہائی برڈ نظام لاگو کر کے طاقت ور حلقوں کو اور طاقت ور کر دیا ہے.

پاکستان میں جس طرح کا ہائی برڈ نظام رائج ہے، وہاں طاقت کا محور ہی حاکم ہے چاہے وہ جی ایچ کیو ہو یا کہ اقتدار کے ایوانوں بیٹھے بیوروکریٹ ، شہر میں موجود سیاسی سرمایہ دار ہوں کہ دیہی علائقوں کے بڑے بڑے جاگیردار، سرمایہ دار، نواب، سردار، خان یا چھوٹے چھوٹے وڈیرے واجہ، چاہے پاور پالیٹکس کے نام پر سیاسی پارٹیاں ہوں یا پھر نام نہاد این جی اوز… سب کے سب فیوڈل نظام کے پیٹرن پر کام کرتی ہیں، اصل طاقت تو مزدور کسان اور طلبہ تنظیمیں ہوا کرتی ہیں، جو مزاحمت کی علمبردار ہوتی ہیں. پاکستان میں پچھلے پچاس سالوں میں انہیں اتنا کمزور کر دیا گیا ہے کہ یہ طاقتیں کوما میں ہیں، بائیں بازو کی تحریکیں بھی اسی طرح کوما میں پڑی ہیں. رہی بات دائیں بازو کی سیاست کی، تو مُلا ملٹری اتحاد ہو کہ مرکزیت کے نام پر سیاست کرنے والی پاکستانی قوم کی داعی محب الوطن پارٹیاں یہ سب بیوروکریسی کے پیرول پر سیاست کرتی ہیں، جہاں انہیں کہا جاتا ہے اسی سمت میں چلی جاتی ہیں.

ملیر کے شہید ناظم جوکھیو اُسی طاقت کے غرور کا شکار ہوا، جس نے عرب شکاریوں کو روکا اور سوال پوچھا، ایک غریب ایک طاقتور سے سوال کرے، پاکستان میں گستاخی ہے.. ویسے بھی سوال پوچھنا اس ملک میں جرم ہے، جس کی سزا صرف اور صرف موت ہے.. اور وہی ناظم جوکھیو کے ساتھ ہوا… ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جس سفاکی کے ساتھ ناظم جوکھیو جیسے معصوم انسان کا قتل ہوا، اس کے قاتلوں کی سزا کے ساتھ اس نفسیات پر بھی بات ہوتی، جاگیرداری نظام کے تابع عام غریب کسان مزدور اور ان کے شب روز کے بارے میں بات ہوتی کہ کس طرح وہ اس جاگیرداری نظام کی چکی میں پس رہے ہیں..

اب سوال یہ ہے کہ اس جاگیرداری نظام کی نفسیات اور اس کے خاتمے کے لیئے کون بات کرے، کون سوال اٹھائے؟
پاکستان کی مین اسٹریم سیاسی پارٹیاں تو کرنے سے رہی.. باقی بچے غریب مسکین عوام، انہیں تو ذات پات، رنگ نسل اور مذہب، مذہب کے ساتھ ہزار فرقوں میں تقسیم کر کے بےجان بنایا گیا ہے، تحریک لبیک اور طالبان پاکستان کے گھن چکر میں چکی کی طرح پیسا جا رہا ہے، اور الیکٹرونک میڈیا میں اختراعی مسائل اور معاملات پر گھنٹوں بحث کرا کے صرف ریٹنگ بنانے اور آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اب حقائق کون بیان کرے کون حق اور سچ کہے؟

ناظم جوکھیو کی شہادت نہ صرف جاگیرداری اور سرداری نظام پر سوال ہے، بلکہ طاقتور حلقوں کے عرب اور یہاں کے جاگیردار سرداروں کے تعلقات اور غیر قانونی شکار پر بھی ایک بہت بڑا سوال ہے ـ چند اشخاص کو سزا دینے سے کیا جاگیرداری نظام اس ملک سے ختم ہو سکتا ہے؟  کیا عرب حکمرانو‍ں سمیت عرب امرا کے یہاں پر غیر قانونی شکار اور عیاشیوں کا سلسلہ رک سکتا؟ نہیں کبھی نہیں.. ہاں شہید ناظم جوکھیو کے قاتلوں کو سزا دے کر جاگیردارانہ اور سرداری جیسے سفاک اور کھوکھلے نظام کو ختم کرنے کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے. پھر بھی جاگیرداری نظام کو مکمل شکست نہیں دی جاسکتی کیونکہ جاگیرداری نظام کی جڑیں اس نظام میں پیوست ہیں، اس نظام کو اکھاڑے بنا یہ ختم نہیں ہو سکتا، اگر ایسا نہیں ہوا تو ناظم جوکھیو جیسے نوجوان قتل ہوتے رہیں گے کیونکہ سوال تو اب پوچھے جائیں گے، انہیں روکنے کے لیئے اب ہاتھ ضرور بڑھیں گے.. باقی رہی عربوں کے شکار کی بات، تو ابھی اس واقعے کے بعد پھر سب عربوں کو شکار کے لیئے اجازت نامے بانٹے گئے ہیں، کہ پورے پاکستان میں ان ان جگہوں پر وہ شکار ان ان شرائط پر کر سکیں گے، اب یہ تو سب جانتے ہیں کہ یہاں آئین اور قانون کی حیثیت ہی ثانوی ہے، یہاں ان طاقت ور لوگوں کو کیسے قانون کے تابع کیا جاسکتا ہے!؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close