سوئیڈن میں ماہرینِ آثار قدیمہ نے بتایا ہے کہ انہوں نے بحیرۂ بالٹک میں پانچ سو سال قبل ڈوبنے والی شاہی خاندان کی ایک کشتی کے ملبے سے محفوظ شدہ مسالے دریافت کیے ہیں
یورپی ممالک ڈنمارک، ناروے اور سوئیڈن کے بادشاہ جان کی کشتی گربژنڈ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ جب 1495ع میں بادشاہ سوئیڈن میں ایک تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے تو ان کی یہ کشتی آتش زدگی کے باعث ڈوب گئی تھی
اس کشتی کی نشان دہی 1960ع کی دہائی میں کھیلوں کے غوطہ خوروں نے کی تھی
کشتی کو سمندر سے نکالنے کا کام گزشتہ چند برس میں مکمل ہو سکا۔ ماضی میں غوطہ خوروں نے کشتی سے بھاری اشیا نکالی تھیں، جن میں مجسمے اور لکڑی کے بڑے تنے شامل تھے
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق یورپ کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں شامل سوئیڈن کی لند یونیورسٹی سے وابستہ ماہرِ آثار قدیمہ برینڈن فولے کی نگرانی میں کشتی کے ملبے کی تلاش کے دوران کچھ مرتبانوں میں محفوظ مسالے دریافت ہوئے ہیں، جو اب تک درست حالت میں ہیں
برینڈن فولے نے اس کی وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ”بحیرۂ بالٹک دوسرے سمندروں سے مختلف ہے، یہاں پانی میں آکسیجن اور نمک کم ہے, جبکہ اس کا درجِ حرارت بھی بہت کم ہے، جس کی وجہ سے بہت سی نامیاتی اشیا یہاں بہتر حالت میں رہتی ہیں“
انہوں نے کشتی سے پانچ صدیاں قدیم مسالے درست حالات میں دریافت ہونے کو غیر معمولی واقعہ قرار دیا
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق یورپ میں پندرھویں صدی میں مسالے مال دار ہونے کی بھی نشانی ہوتے تھے
زعفران اور لونگ جیسی اشیا دیگر خطوں سے یورپ درآمد کی جاتی تھیں، جبکہ یہ اشیا کسی مالدار فرد کے پاس دستیاب ہو سکتی تھیں
ماہرین کے مطابق یہ اشیا سوئیڈن کا سفر کرنے والے بادشاہ جان کے سامان کے ساتھ سفر کر رہی ہوں گی اور جب کشتی غرقاب ہوئی تو اس کے ساتھ بحیرۂ بالٹک کے تہہ میں چلی گئیں
لند یونیورسٹی کے محقق میکائل لارسن ان اشیا پر تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”یہ واحد موقع ہے کہ زعفران آثار قدیمہ میں دریافت ہوا ہے“
زعفران ملنے کے حوالے سے وہ مزید کہتے ہیں ”یہ ہمارے لیے بہت غیر معمولی موقع ہے“