پاکستان میں اس وقت سیاسی صورتحال کا ایک انتہائی دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ جماعتیں جو عمران خان پر فوج کی حمایت سے برسر اقتدار آنے کے حوالے سے ’سلیکٹڈ‘ کی اصطلاح استعمال کرتی تھیں، آج وہی جماعتیں یک آواز ہو کر نہ صرف انہیں فوج کا مخالف اور ملک دشمن قرار دے رہی ہیں، بلکہ ملک میں بغاوت کی فضا پیدا کرنے کا ذمہ دار بھی ٹھہرا رہی ہیں
گزشتہ روز وزیراعظم شہباز نے اپنے دفتر سے جاری بیان میں کہا ”عمران خان اداروں اور ان کے سربراہان کو اپنی گندی سیاست میں گھسیٹ کر آئین شکنی کر رہے ہیں، وزیر داخلہ ملک کے اندر اداروں کے خلاف غلیظ مہم چلانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں“
انہوں نے کہا ”پاکستان میں افراتفری، فساد اور بغاوت کو ہوا دینے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے، تاریخ میں پہلی بار میرٹ پر لگنے والے آرمی چیف کے خلاف مہم ملک دشمنوں کا ایجنڈا ہی ہو سکتا ہے“
یوں تو جی ایچ کیو کو برا بھلا کہنے کا الزام پاکستان میں تقریباً تمام سیاستدانوں پر لگتا رہا ہے، تاہم کہا جا رہا ہے کہ عمران خان ابھی تک جی ایچ کیو کے خلاف سب سے زیادہ خطرناک سیاستدان بن کر ابھر رہے ہیں
عمران خان نے حالیہ دنوں میں نہ صرف آرمی چیف پر تنقید کی بلکہ انہوں نے ایک بار پھر میجر جنرل فیصل نصیر کا بھی نام لیا اور اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ انہیں گرفتار کر کے ان کے ساتھ شہباز گل اور اعظم سواتی جیسا کیا جائے گا۔ لانگ مارچ کے دوران قاتلانہ حملے سے بچنے والے سابق وزیر اعظم نے ایک بار پھر اپنے قتل کی سازش کے حوالے سے بھی انکشاف کیا
لیکن سوال یہ ہے کہ دوسرے سیاستدانوں کے برعکس عمران خان آخر کس طرح جی ایچ کیو کے لیے زیادہ خطرناک سیاستدان بن کر ابھر رہے ہیں؟
اس حوالے سے لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر حبیب اکرم کہتے ہیں ”اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان جی ایچ کیو کے خلاف سب سے مؤثر آواز ثابت ہو رہے ہیں۔ بے نظیر اور نواز شریف نے جی ایچ کیو کے خلاف لڑائی ملک کے باہر سے لڑی لیکن عمران خان نے یہ لڑائی پاکستان میں رہ کر لڑی، جس سے اسٹیبلشمنٹ کمزور ہوئی اور کپتان مقبول۔‘‘
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں سیاستدانوں نے جب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف صف آرائی شروع کی، تو انہوں نے ملک کے دوسرے طاقتور اداروں پر تنقید کو ہلکا رکھا تاکہ بیک وقت کئی لڑائیاں نہ لڑی جائیں۔ لیکن عمران خان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا
حبیب اکرم کہتے ہیں ”عمران خان نے ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا بلکہ انہوں نے اُس میڈیا کو بھی آڑے ہاتھوں لیا، جو اسٹیبلشمنٹ کا اتحادی رہا ہے“
پاکستان تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کا ماننا ہے کہ 2018 میں جب عمران خان برسرِ اقتدار آئے، تو انہیں بہت سازگار حالات میسر تھے۔ ملک کی طاقتور ترین فوج بھی ان کے ساتھ تھی جبکہ عدلیہ کا رویہ بھی ان کے ساتھ نسبتاً نرم تھا
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلٰی بلوچستان نواب سردار اسلم رئیسانی کا کہنا ہے ”اسٹیبلشمنٹ کے راز عمران کے پاس ہیں اسی لیے اس نے اسٹیبلشمنٹ کی ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ ماضی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف پر اسٹیبلشمنٹ اتنا زیادہ بھروسہ نہیں کرتی تھی۔ اس لیے انہیں بہت سارے راز نہیں بتائے لیکن کیونکہ عمران خان سے اسٹیبلشمنٹ کی بہت قربت تھی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے لیے اپنا دل کھول دیا تھا‘‘
سردار اسلم رئیسانی کے مطابق عمران خان اب ان رازوں کو استعمال کر رہا ہے اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھا رہا ہے
نواب اسلم رئیسانی کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عمران خان کی مضبوطی کی ایک بڑی وجہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بھی ہیں۔ ان کے بقول بیرون ملک مقیم پاکستانی، جو عمران کے حامی ہیں، نے فوج کے خلاف بھرپور مہم شروع کی ہوئی ہے اور فوج ان کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی اس لیے عمران خان کی پوزیشن مضبوط نظر آتی ہے
واضح رہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے اوورسیز یونٹ سے پاکستان تحریک انصاف کے یونٹس ان میں سب سے زیادہ متحرک ہیں۔ اس کی ایک مثال اس وقت دیکھنے میں آئی جب عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ سے معزولی کے بعد دنیا بھر کے مختلف شہروں میں اوورسیز پاکستانیوں کے بڑے اور مسلسل احتجاجی مظاہرے ہوئے
اس وقت برسرِ اقتدار کثیرالجماعتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا دعویٰ ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے سودے بازی کرنے کے لیے ان کے ہاتھ پیر پکڑ رہے ہیں۔ اصل صورتحال کیا ہے اس بارے میں لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفٰی کا کہنا ہے ”ماضی میں نواز شریف اور بے نظیر نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑائی لڑی لیکن عام آدمی کے خیال میں انہوں نے یہ لڑائی ذاتی مفادات کے لیے لڑی۔ عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑائی کو لوگ اصولوں کی جنگ قرار دیتے ہیں۔ جنرل باجوہ کے بیانات بھی عمران کے اس دعوے کو تقویت دیتے ہیں کہ اس کی لڑائی اصولوں پر ہے۔‘‘
پاکستان میں سیاسی افق پر جو رہنما نمودار ہوئے، ان میں بین الاقوامی سطح پر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو اچھی طرح جانا جاتا ہے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان ملکی اور غیر ملکی سطح پر سب سے شہرت یافتہ سیاستدان کے طور پر ابھرے ہیں
جنرل غلام مصطفٰی کا خیال ہے کہ کیوں کہ بین الاقوامی میڈیا یا عمران خان کے ماضی کی وجہ سے ان کو بہت اچھی طرح جانتا ہے، اس لیے عمران خان کی طرف سے دیے جانے والے سیاسی بیانات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ان کے بقول یقیناً یہ بات اسٹیبلشمنٹ کے لیے پریشان کن ہے، اس کے علاوہ عمران خان بیانیہ بنانے میں بھی ماہر ہیں۔ انہوں نے جس طرح آنسو گیس کے خالی ڈبے اپنے سامنے رکھ کر بین الاقوامی میڈیا کو دکھایا، ایسا پہلے کسی سیاستدان نے نہیں کیا
پاکستان میں کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن اور نیشنل عوامی پارٹی کے مقابلے میں ایوب خان کی آمریت نے ذوالفقار علی بھٹو کی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر مدد کی اور بھٹو کنونش لیگ کے ایک اہم عہدیدار بھی رہے
جنرل ضیاء کے دور میں نواز شریف کو اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل رہی اور بعد میں بھی جی ایچ کیو نے بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں نواز شریف کو مضبوط کرنے کی کوشش کی
بالکل اسی طرح کچھ سندھی اور بلوچ قوم پرست جماعتوں، مذہبی تنظیموں اور متحدہ قومی موومنٹ کو بھی ماضی میں جی ایچ کیو کا آشیرباد رہا۔ بے نظیر کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ پرویز مشرف سے معاہدہ کر کے پاکستان واپس آئیں تھیں۔ نواز شریف کے جنرل جیلانی کی نرسری میں پرورش تو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں
2011 میں جب عمران خان کی شہرت کا سورج طلوع ہونا شروع ہوا، تو اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ تھا۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف ان تمام دعوؤں کی سختی سے تردید کرتی ہے اور اس نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیا ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی بے ساکھی نہیں چاہتے۔ پارٹی اس دعوے کے لیے دلیل یہ دیتی ہے کہ پی ڈی ایم کو جی ایچ کیو کی حمایت حاصل ہے، لیکن اس کے باجود گزشتہ ایک سال میں پی ٹی آئی نے سارے ضمنی انتخابات جیتے ہیں
بہرحال سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتا ہوا درجہ حرارت اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ملک میں سیاسی کشیدگی مزید بڑھے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے فوج کا دفاع بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پی ڈی ایم عمران خان اور ان کی پارٹی کے خلاف مزید سخت رویہ اختیار کرے گی۔