اس وقت صوبہ سندھ سمیت ملک بھر میں کھجوروں کی کاشت والے علاقے میں درختوں پر مصنوعی عملِ تولید (پولی نیشن) کا کام جاری ہے
اس حوالے سے ضلع خیرپور کے علاقے ببرلوء سے تعلق رکھنے والے کھجوروں کے کاشتکار پرویز علی سومرو کہتے ہیں ”پولینیشن کا عمل ضروری ہے ورنہ کھجور کی فصل تیار نہیں ہو سکتی اور اس کا پھل ابتدائی مرحلے میں ہی ضائع ہو جاتا ہے“
پرویز علی نے بتایا ”مارچ کے اوائل میں جب کھجوروں کے خوشے شیل نما ہوتے ہیں تو ان کے کھلتے ہی یہ عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جس ہم مقامی زبان میں ’نر ڈالنا‘ کہتے ہیں“
انہوں نے مزید بتایا ”اس عمل کے دوران کھجور کے مخصوص قسم کے خوشے کاٹ کر ان میں سے چند کلیاں کھجور کے درختوں کے گوشوں میں ڈالی جاتی ہیں۔ ان کلیوں میں ایک پاؤڈر ہوتا ہے۔ یہ نر درختوں سے حاصل کیا جاتا ہے، جو عام طور پر کسی نہ کسی باغ میں ہوتے ہیں تاہم یہ مارکیٹ میں بھی دستیاب ہوتا ہے“
پرویز علی بتاتے ہیں ”اس عمل کو انجام دینے کے لئے ماہر مزدور، جنہیں ’چاڑھے‘ کہا جاتا ہے، مضبوط رسے کی مدد سے درختوں ہر چڑھتے ہیں اور یہ عمل انجام دیتے ہیں“
کھجور کے درختوں کی پولینیشن کرنے والے مزدور غوث بخش نے بتایا ”یہ کام بہت محنت طلب ہے، درختوں پر مخصوص رسے، جسے مقامی زبان میں ‘چمند‘ کہتے ہیں، کی مدد سے درخت پر چڑھتے ہیں اور ایک ایک خوشے میں نر کھجور کا بورا اور کلیاں ڈالتے ہیں“
ان کے مطابق ”اس دوران اکثر اوقات مزور رسہ کھل جانے پر گر بھی جاتے ہیں۔ ہمیں ایک کھجور کے درخت پر اس کام کے بیس سے پچیس روپے ملتے ہیں، یعنی پورا دن محنت کریں تو بمشکل ایک ہزار روپے کما سکتے ہیں“
ان کا کہنا تھا ”یوں تو پولینیشن کا عمل دنیا بھر میں ایسے ہی انجام دیا جاتا ہے تاہم بعض ممالک میں درختوں پر چڑھنے کے لیے کرینوں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے“
کاشتکار پرویز علی کے مطابق ”سکھر اور خیرپور اضلاع میں تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار ایکڑ پر کھجوروں کے باغات ہیں۔ یہاں ہر سال تقریبا ڈھائی لاکھ میٹرک ٹن کھجور پیدا ہوتی ہے، جو ملکی پیدوار کا 60 فیصد ہے۔ ویسے تو پاکستان میں دو سو سے زائد اقسام کی کھجوریں پائی جاتی ہیں، تاہم سندھ میں چالیس اقسام کی کھجوروں کی پیداوار ہوتی ہے“
انہوں نے بتایا ”گذشتہ سال بارشوں کی وجہ سے کھجوروں کی فصل کو بہت زیادہ نقصان ہوا تھا اور یہاں کی تقریباً ساری فصل بارش کے باعث ضائع ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ امسال رمضان المبارک میں بھی مقامی کھجور کی اچھی ورائٹی دستیاب نہیں ہوگی“
پرویز علی کہتے ہیں ”اگر موسم کی صورتحال ایسی ہی رہی، تو آئندہ سال کے بعد عوام کو رمضان المبارک میں تازہ کھجور دستیاب ہوگی جبکہ ان دنوں مارکیٹ میں ایک سال پرانی کھجور دستیاب ہوتی ہے“