ڈیمنشیا روکنے کے لیے امریکی ماہر کی مفید تجاویز

ویب ڈیسک

1906 میں ڈاکٹر الوا الزائمر نے ایک ’غیر معمولی‘ بیماری کا پتہ چلایا جس سے پچاس کی دہائی میں ایک عورت کی یاداشت چلی گئی، اسے وہم ہونے لگے اور پھر اس کی موت واقع ہو گئی

ڈاکٹر الوا الزائمر نے اس عورت کے پوسٹمارٹم کے بعد پہلی بار اس بیماری کی تعریف کی، جو بڑی حد تک اپنی یاداشت کھو چکی تھی۔ انہوں نے دیکھا کہ اس عورت کا دماغ سکڑ چکا تھا اور اس کے اعصابی خلیوں پر اور ان کے گرد نقائص پیدا ہو چکے تھے

یہ ان دنوں کی بات ہے، جب ڈیمنشیا کا مرض بہت کم تھا اور اس کے بارے میں تحقیق کو چند دہائیاں ہی گزری تھیں۔ لیکن آج کے زمانے میں ہر تین سیکنڈ میں کسی نہ کسی میں ڈیمنشیا کی تشخیص ہو رہی ہے۔ کچھ امیر ممالک میں یہ سب سے زیادہ جان لیوا بیماری بن چکی ہے

الزائمرز اور اس کے تحت ڈیمنشیا کو بالعموم بھول جانے کی بیماری کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن یہ اس قدر سادہ بھی نہیں ہے۔ کسی حادثے، بیماری، یا ذہنی دباؤ کی صورت میں یاداشت کی کمزوری ڈیمنشیا نہیں بلکہ یہ یاداشت کے علاوہ کئی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کی بتدریج کمزوری کا نام ہے۔ جن میں توجہ اوردھیان نہ دے پانا، جسم اور ذہن کی ہم آہنگی کم ہونا، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی سبھی شامل ہیں۔

وقت کے ساتھ یہ علامات پختہ ہو کر مریض کے لیے روزمرہ کی سماجی زندگی کے معمولات انجام دینا ناممکن بنا دیتی ہیں اور مریض کو مسلسل دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے

اسے بالعموم بڑھاپے کی بیماری سمھجا جاتا ہے لیکن ماہر ڈاکٹر کی مدد سے اس کے اثرات پہلے بھی دیکھے جا سکتے ہیں،خاص طور پر جب خاندان میں بیماری پہلے سے موجود رہی ہو

دنیا کی آبادی کا ایک اچھا خاصا حصہ ڈیمنشیا اور الزائیمر کی گرفت میں آ چکا ہے۔ دنیا بھر میں آج کے دور میں 5 کروڑ سے زائد افراد ڈیمنشیا کے ساتھ جی رہے ہیں، لیکن 2050 تک یہ تعداد 13 کروڑ تک پہنچے کا امکان ہے

عالمی ادارہ صحت کے مطابق سن 2000ع کے بعد سے ڈمنشیا سے اموات کی تعداد دوگنی ہو چکی ہے اور دنیا بھر میں یہ موت کی پانچویں بڑی وجہ ہے۔ لیکن کچھ امیر ممالک میں یہ موت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ انگلینڈ اور ویلز میں ہر آٹھویں ڈیتھ سرٹیفیکیٹ پر موت کی وجہ ڈمنشیا درج ہو رہی ہے

اگرچہ طبی ماہرین اس پر تحقیق اور علاج و تدارک کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، لیکن اب تک اس کا کوئی باقاعدہ علاج دریافت نہیں ہو سکا

تاہم اب ایک امریکی ماہرہ نے چند آسان تجاویز دی ہیں، جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان تجاویز پر عمل کر کے اس ہولناک مرض سے بچا جا سکتا ہے یا کم از کم اسے ایک لمبے عرصے تک ٹالا جا سکتا ہے یا اس کی رفتار کو سست کیا جا سکتا ہے

یہ بات ذہن میں رہے کہ اس بات کی گارنٹی تو نہیں دی جا سکتی لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ کچھ ایسے اقدامات ضرور ہیں، جن کی مدد سے ڈیمنشیا کے امکان کو کم کیا جا سکتا ہے

میساچیوسیٹس انسٹیٹیوٹ (ایم آئی ٹی) کی سائنسدان اور پائیکوور انسٹیٹیوٹ آف لرننگ سے وابستہ ڈاکٹر لائی ہوائی سائی کہتی ہیں کہ دماغ کو توانا اور امراض سے پاک رکھنا اب کوئی راز کی بات نہیں ہے

ڈاکٹر لائی کا کہنا ہے ”لوگ خود بھی اس راز سے واقف ہیں، لیکن عمل نہیں کرتے یا اس کے لیے وقت نہیں نکال پاتے۔ پوری دنیا کے لیے میرا پیغام ہے کہ ورزش کی عادت اپنائیں، سماجی رابطے بڑھائیں اور خود کو تنہا نہ رکھیں اور کوئی نہ کوئی ایسی سرگرمی ضرور رکھیں جس میں دماغ استعمال ہوتا ہو۔ ان سرگرمیوں میں کوئی نئی زبان سیکھنا، ریاضی کے مسائل حل کرنا اور معمے (پزل) پر دماغ لڑانا شامل ہے۔“

برٹش میڈیکل جرنل (بی ایم جے) میں شائع ایک اور رپورٹ میں لگ بھگ تیس ہزار افراد کا دس برس تک جائزہ لیا گیا ہے۔ تمام افراد کا تعلق چین سے تھا اور ان میں سے جن افراد نے ’صحتمند طرزِ زندگی‘ (لائف اسٹائل) اختیار نہیں کیا، دیگر کے مقابلے میں ان میں یادداشت کی کمی اور ذہنی انحطاط زیادہ نوٹ کیا گیا

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں وہ تمام عوامل تھے، جن کی نشاندہی ایم آئی ٹی کی پروفیسر لائی ہوائی سائی نے کی تھی، یعنی صحت بخش غذا، باقاعدہ ورزش، سماجی روابط اور دماغی مشقیں شامل تھیں۔ تاہم اس میں شراب اور تمباکونوشی جیسے عوامل کو بھی مدِ نظر رکھا گیا تھا

واضح رہے کہ خاتون سائنسدان ایک عرصے سے الزائیمر کی رفتار سست بنانے والے طبی آلے پر بھی کام کر رہی ہیں۔ یہ آلہ روشنی اور آوازوں کی بدولت دماغ کو سرگرم رکھتا ہے اور ڈیمنشیا کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے

تاہم لائی ہوائی سائی زور دے کر کہتی ہیں کہ آپ نظم و ضبط کے ساتھ ان چار باتوں پر عمل کر کے دماغ کو توانا اور جوان رکھ سکتے ہیں۔ اگر کسی میں ڈیمنشیا کے آثار ہیں تو وہ انہیں اپنا کر اپنی دماغی کیفیت بہتر بنا کر اس مرض کو سست کر سکتے ہیں

اس سے قبل کی تحقیق

ماضی میں کی گئی تحقیق کے مطابق بہتر طرز زندگی سے ہم تین میں سے ایک کیس کم کر سکتے ہیں۔ جو تبدیلیاں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں ان میں وسط عمر میں قوت سماعت میں کمی کا علاج، زیادہ دیر تک تعلیم کے حصول کا سلسلہ جاری رکھنا، تمباکونوشی سے اجتناب، ڈپریشن کا بروقت علاج، جسمانی طور پر متحرک رہنا، سماجی طور پر تنہائی سے بچنا، موٹاپے، بلڈ پریشر اور ٹائپ-2 ذیابیطس سے بچنا شامل ہیں

تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ اقدامات کیسے دماغ کو محفوظ کرتے ہیں۔ کیا یہ واقعی ڈمنشیا کو روکتے ہیں یا پھر دماغ کو ڈمنشیا سے نمٹنے کے لیے تیار کرتے ہیں مثلاً خلیوں کے درمیان بہتر روابط پیدا کرتے ہیں اور دماغی نظام کو اتنا لچکدار بناتے ہیں کہ جب نیورونز مرنا شروع ہوں تو اس عمل کا مقابلہ کیا جا سکے

پروفیسر سپائرز جونز کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کی صحت بہت اچھی ہے اور وہ اپنا خیال رکھتے ہیں الزائمر کا مقابلہ کر لیتے ہیں

بہرحال اب ڈیمنشیا کے علاج کے بارے میں تحقیقی کام میں کافی تیزی آئی ہے اور اس کے بارے میں تحقیق پر اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ رقم خرچ ہو رہی ہے۔ اس کا موازنہ ایڈز کی بیماری سے کیا جا رہا ہے، جس کے بارے میں 1980 کی دہائی میں سمجھا جاتا تھا کہ اس سے موت لازمی ہے لیکن اب لوگ اینٹی وائرل ادویات کی مدد سے تقریباً معمول کی زندگی گزار لیتے ہیں

پروفیسر سپائرز جونز کا کہنا ہے کہ کینسر سے ہم نے یہ سیکھا کہ جب ہم کسی بیماری کے بارے میں بہت تحقیق کرتے ہیں تو بہتر نتائج حاصل ہو جاتے ہیں اور مشکل بیماریوں کا علاج بھی ممکن ہو جاتا ہے

ماہرین کے مطابق اس برس کچھ ٹرائل مکمل ہونے والے ہیں جن سے اگلے ایک یا دو برسوں میں بہتر نتائج کی امید کی جا رہی ہے

کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگلے دس برسوں میں ہم پہلی بار ڈمنشیا کا علاج دیکھیں گے، جو مکمل علاج تو نہیں ہو گا، جس کے لیے ہمیں مزید انتظار کرنا ہو گا۔ ان ماہرین کے مطابق اس سے کم سے کم بیماری کچھ لیٹ ضرور ہو جائے گی اور مریض کی حالت تیزی سے خراب نہیں ہو گی

ایک غلط فہمی کا ازالہ

عام طور پر ڈیمنشیا اور الزائمر کو ایک ہی بیماری سمجھا جاتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ ڈیمنشیا بہت سی دماغی بیماریوں میں پائی جانے والی ایک علامت کا نام ہے

یاداشت کا چلے جانا ڈیمنشیا کا سب سے عام پہلو ہے، خاص طور پر حال ہی میں بیتے ہوئے واقعات کو یاد کرنے میں مشکل

اس کی دیگر علامات میں انسان کے رویوں، موڈ اور شخصیت میں تبدیلی سامنے آتی ہے، وہ جانی پہچانی جگہوں پر کھو جاتا ہے یا گفتگو کے دوران درست لفظ اس کو یاد نہیں آتا۔ بات اس حد تک بھی بڑھ جاتی ہے کہ لوگوں سے یہ فیصلہ بھی ہوتا کہ انہیں کچھ کھانا ہے یا پینا

الزائمر وہ سب سے عام بیماری ہے، جس سے ڈیمنشیا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ’ویسکولر ڈیمنشیا‘ اور ’پارکنسن‘ بھی اس میں شامل ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close