خیبر پختونخوا کے دارالحکومت میں واقع پشاور یونیورسٹی پچھلے اکیس دن سے مکمل طور پر بند ہے، جبکہ اس بندش میں نامعلوم مدت تک مزید توسیع کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے
یاد رہے کہ رواں ماہ پانچ مارچ کو پشاور یونیورسٹی میں سکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں سکیورٹی ایڈوائزر ثقلین بنگش کے قتل کا واقعہ پیش آیا تھا، جس کے اگلے دن پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن 6 مارچ سے کلاسز کے بائیکاٹ پر چلی گئی تھی
اس طرح پچھلے مسلسل اکیس دن سے یونیورسٹی میں مختلف مقامات پر روزانہ کی بنیاد پر اساتذہ، طلبہ، کلاس تھری اور کلاس فور کے ملازمین کی جانب سے احتجاجی کیمپ لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ احتجاج کرنے والے ملازمین پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد ادریس کو عہدے سے ہٹانے مطالبہ کر رہے ہیں
اس حوالے سے پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا موقف ہے کہ انہوں نے جب سے اساتذہ کے ہاؤس الاؤنس میں کٹوتی کی ہے اور اساتذہ کے بچوں کو پشاور یونیورسٹی کے تعلیمی اداروں میں مفت کی بجائے بیس فیصد ادائیگی پر پڑھانے کی بات کی ہے، تب سے ان کی مخالفت جاری ہے
دوسری طرف اساتذہ ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ سیکیورٹی ایڈوائزر کے قتل کے بعد انہوں نے پشاور یونیورسٹی میں ملازمت پر مامور گارڈز کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے وائس چانسلر سے پرائیویٹ کمپنی ’سگما‘ کے گارڈز ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم ان کی بات کو نظرانداز کر دیا گیا تھا
یونیورسٹی بندش کے ابتدائی دنوں میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ ان کی ملاقات ہو گئی تھی اور متفقہ طور پر ایک اعلامیہ جاری کیا گیا کہ نجی کمپنی کے سکیورٹی گارڈز ہٹا کر پشاور یونیورسٹی خود نئے گارڈ رکھنے کی مجاز ہوگی۔ اس فیصلے کی تائید یونیورسٹی انتظامیہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایمل خان نے بھی کی تھی
احتجاج کے اکیس دن تک طول پکڑنے کے بعد اب ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر محمد عذیر کا کہنا ہے ”کوئی میٹنگ ہوئی نہ مذاکرات، تین ہفتوں کے دوران وائس چانسلر نے ہمیں نظرانداز کیا، اب میٹنگ کے لیے بلایا ہے تو ہم نے انکار کر دیا“
ڈاکٹر عذیر نے بتایا کہ پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کا پہلا مطالبہ ہے کہ وی سی کو ہٹایا جائے، کیونکہ صرف اسی صورت میں بائیکاٹ اور احتجاج ختم ہوگا
انہوں نے کہا ”ہمارا پہلا مطالبہ ہے وی سی کو ہٹایا جائے۔ دوسرا مطالبہ ہے کہ نجی کمپنی سگما سے معاہدہ ختم کر کے اس کی انکوائری کی جائے کہ یہ کون چلا رہا ہے۔ ہمیں شک ہے کہ اس کمپنی کے ساتھ اندر کے لوگ ملے ہوئے ہیں۔ تیسرا مطالبہ ہے کہ یونیورسٹی کو اسلحے سے پاک کیا جائے“
اساتذہ ایسوسی ایشن کے صدر نے الزام عائد کیا کہ پشاور یونیورسٹی میں موجودہ بگاڑ کا سبب موجودہ وائس چانسلر ہیں، جو یونیورسٹی کو ایڈہاک ازم کی جانب لے گئے ہیں
انہوں نے کہا ”ہمیں یقین ہے کہ اگر وی سی کو ہٹا دیا گیا تو حالات بہترین ہوجائیں گے“
احتجاجی کیمپ لگانے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی ان کے احتجاج کی وجہ سے نہیں بلکہ اساتذہ کی جانب سے کلاسز کے بائیکاٹ کے سبب بند ہے
احتجاج کرنے والے طلبہ نے کہا ”ہمارا مطالبہ صرف سکیورٹی کی صورتحال میں درستی لانا اور ثقلین بنگش کے قتل کی مکمل تحقیقات کرنے سمیت وائس چانسلر کی برطرفی ہے“
متحدہ طلبہ محاذ میں شامل طالب علم عثمان آفریدی نے بتایا ”ثقلین بنگش کی موت کو ایک حادثہ قرار دیا جارہا ہے اور متعلقہ ہاسٹل سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کرنے میں تعاون نہیں کر رہا“
اس حوالے سے یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ادریس کا کہنا ہے ”پشاور یونیورسٹی کی موجودہ صورتحال کے لیے مجھے قصوروار ٹھہرانا سراسر زیادتی اور درپردہ مقاصد پر مبنی ہے۔ سکیورٹی گارڈز فراہم کرنے والی جس کمپنی کے لیے مجھے مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے، اس کمپنی کو میں نے ہائر نہیں کیا تھا بلکہ کیمپس پولیس نے چھ مختلف کمپنیوں کا ٹیسٹ لے کر سگما کا انتخاب کیا تھا“
انہوں نے بتایا ”سگما کا معاہدہ رواں مہینے 15 مارچ کو ختم ہوگیا ہے، اور یونیورسٹی کی سکیورٹی کا چارج اس وقت کیمپس پولیس نے سنبھالا ہے“
اس سوال پر کہ انہوں نے سکیورٹی گارڈز کے لیے حالیہ واقعے کے بعد ایک نفسیاتی ٹیسٹ کا اعلامیہ جاری کیا تھا، اس پر کیوں عمل درآمد نہ ہوسکا تو انہوں نے بتایا ”چونکہ کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم ہو گیا، اس لیے اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ کسی بھی کمپنی کے ساتھ معاہدے کا حق کیمپس پولیس کے پاس ہے اور یہ دیکھنا بھی کہ گارڈز درکار قواعد کے مطابق ہیں“
وائس چانسلر ڈاکٹر ادریس نے کہا ”دراصل جو اساتذہ میری مخالفت کر رہے ہیں، وہ مجھے یونیورسٹی کی بہتری کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے ناپسند کرتے ہیں کیونکہ اس سے پوشیدہ ثمرات و مراعات حاصل کرنے والے اساتذہ پر ضرب لگ رہی تھی۔ میں نے عہدہ سنبھالا تو اس مسئلے کو سینیٹ لے گیا۔ کیونکہ اس وقت یونیورسٹی پر 769 ملین قرضہ تھا“
وی سی پشاور یونیورسٹی نے کہا ”یونیورسٹی میں تقریباً پانچ سو فیکلٹی ممبرز ہیں، جن کے چار ہزار بچے پشاور یونیورسٹی کے مختلف اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ ان اساتذہ کو گھر، گاڑی، موبائل، دفتر کی مد میں الاؤنس ملتے ہیں۔ یونیورسٹی کے مالی حالات بہتر بنانے کے لیے جب اساتذہ کے ہاؤس الاؤنس میں کٹوتی اور اساتذہ کے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بیس فی صد ادائیگی کی بات ہوئی ہے، تب سے مخالفت کی فضا بن گئی ہے“
ڈاکٹر ادریس نے کہا ”پشاور یونیورسٹی کا سالانہ بجٹ پانچ ارب روپے ہے۔ یونیورسٹی اساتذہ کے بچوں کی پیدائش سے لے کر ان کی تعلیم، حتیٰ کہ بغیر میرٹ داخلوں اور چھٹیوں میں بھی ٹرانسپورٹ الاؤنس دینے اور مرنے کے بعد قبر کے پھولوں تک کا خرچہ برداشت کرتی ہے۔ اساتذہ بدلے میں کیا دیتے ہیں، صرف احتجاج اور بائیکاٹ“
وائس چانسلر نے دستاویزات دکھاتے ہوئے کہا ”میں نے احتجاج کرنے والے اساتذہ کے ساتھ خود ٹیلیفونک رابطے کیے اور انہیں مذاکرات کی دعوت دی، تاہم اسے مسترد کر دیا گیا۔ مذاکرات کے لیے میرے دروازے اب بھی کھلے ہیں“