مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی تیس کروڑ نوکریاں ہڑپ کر جائے گی۔۔

ویب ڈیسک

دنیا بھر کے ماہرین جہاں مصنوعی ذہانت کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث دیگر خدشات کا اظہار کر رہے ہیں، وہیں یہ لوگوں میں یہ خدشہ بھی پایا جاتا ہے اس سے کہ ان کی ملازمتیں خطرے میں پڑ گئی ہیں

سرمایہ کاری بینک گولڈمین ساکس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت تیس کروڑ نوکریوں کی جگہ لے سکتی ہے

امریکی سرمایہ کاری بینک گولڈمین ساکس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ عالمی سطح پر 18 فیصد کام کمپیوٹرائزڈ ہو سکتا ہے، جس کے اثرات ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کے مقابلے ترقی یافتہ معیشتوں میں زیادہ گہرے ہو سکتے ہیں

رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت امریکہ اور یورپ میں ایک چوتھائی نوکریوں کی جگہ لے سکتی ہے، لیکن اس کا مطلب نئے مواقع اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ عالمی سطح پر تیار ہونے والی اشیا اور خدمات میں سات فیصد اضافہ کر سکتا ہے

معاشی ماہرین نے خبردار کیا کہ مصنوعی ذہانت سے انتظامی کارکنان اور وکلاء سب سے زیادہ متاثر ہوں گے

ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ افرادی قوت پر اے آئی ٹیکنالوجی سے مرتب ہونے والے اثرات بہت زیادہ نمایاں ہو سکتے ہیں، مگر بیشتر ملازمتیں اور انڈسٹریز جزوی طور پر متاثر ہوں گی

بینک گولڈمین ساکس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے اثرات مختلف شعبوں میں مختلف ہوں گے جیسا کہ انتظامی نوعیت کے امور میں 46 فیصد کام، قانونی پیشوں میں 44 فیصد کام خودکار ہو سکتے ہیں لیکن تعمیرات کے شعبے میں صرف چھ فیصد جبکہ دیکھ بھال (مینٹینینس) کے شعبے میں چار فیصد کام خودکار ہوں گے

دوسری جانب کچھ آرٹسٹس کو مصنوعی ذہانت کے امیج جنریٹرز سے متعلق یہ تحفظات ہیں کہ یہ ان کے روزگار کے مواقعوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے

آکسفرڈ مارٹن اسکول میں ورک ڈائریکٹر کارل بینیڈکٹ فری کا کہنا ہے ’صرف ایک چیز جس کا مجھے یقین ہے، وہ یہ کہ یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں کہ جنریٹیو اے آئی کتنی ملازمتوں کی جگہ لے گی‘

وہ کہتے ہیں ’مثال کے طور پر چیٹ جی پی ٹی نے کیا کیا، اس نے اوسط مہارت سے لکھنے والے زیادہ لوگوں کو بہتر انداز میں مضامین اور آرٹیکلز لکھنے کے قابل بنایا۔ لہٰذا صحافیوں کو زیادہ مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے اجرت میں کمی آئے گی، جب تک کہ ہم اس طرح کے کام کی مانگ میں بہت زیادہ اضافہ نہ دیکھیں۔‘

ان کا کہنا ہے ’اسی طرح جی پی ایس ٹیکنالوجی پر غور کریں۔ اچانک سے لندن کی تمام سڑکوں اور راستوں کو جاننے کی اہمیت میں کمی واقع ہوئی اور ہماری تحقیق کے مطابق موجودہ ڈرائیوروں کو تقریباً دس فیصد اجرت میں کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا تاہم اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈرائیورز کم نہیں ہوئے مگر صرف تنخواہیں کم ہوئیں۔‘

’اگلے چند برسوں کے دوران جنریٹیو اے آئی کے تخلیقی کاموں پر وسیع پیمانے پر ایسے ہی اثرات مرتب ہوں گے۔‘

رپورٹ میں پیش کی گئی تحقیق کے مطابق 60 فیصد افراد آج ایسی نوکریاں کر رہے ہیں، جو 1940 میں موجود نہیں تھیں لیکن دیگر تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ 1980 کی دہائی کے بعد ٹیکنالوجی میں تبدیلی نے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے سے زیادہ تیزی سے لوگوں کو بے روزگار کیا

رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر جنریٹیو اے آئی نے بھی ماضی کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طرح ترقی کی تو یہ بہت جلد ملازمتوں کو کم کر سکتی ہے

مصنوعی ذہانت کے طویل المدت اثرات انتہائی غیر یقینی ہیں۔ رسیولوشن فاؤنڈیشن تھنک ٹینک کے چیف ایگزیکٹو ٹورسٹن بیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مصنوعی ذہانت سے متعلق تمام پیش گوئیوں پر مکمل انحصار نہیں کرنا چاہیے۔‘

ان کا کہنا ہے ’ہمیں نہیں پتا کہ اس ٹیکنالوجی کا ارتقا کیسے ہوگا اور کیسے کمپنیاں اس کو اپنے نظام اور کام میں شامل کریں گی۔‘

’اس کا مطلب یہ نہیں کہ مصنوعی ذہانت ہمارے کام کرنے کے طریقے میں خلل نہیں ڈالے گی لیکن ہمیں اعلیٰ پیداواری صلاحیت اور کم اخراجات سے ممکنہ معیار زندگی کے فوائد پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور اگر دوسری کمپنیاں اور معیشتیں بھی ٹیکنالوجی کی تبدیلی کو بہتر طور پر اپنا لیتی ہیں تو نقصان یا ناکامی کے امکانات بہت کم ہو جائیں گے‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close