حکومت حال ہی میں نے کراچی، اسلام آباد اور لاہور کے ہوائی اڈوں کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس حکومتی فیصلے پر ملک کی ٹریڈ یونینز کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے
کچھ مزدور رہنماؤں کا خیال ہے کہ یہ نجکاری کی طرف ایک قدم ہے اور یہ بھی کہ اس سے مزدوروں کے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ تاہم سول ایوی ایشن اتھارٹی اس تاثر کو غلط قرار دیتی ہے
اس حوالے سے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان سیف اللہ کا کہنا ہے ”حکومت ملکی ہوائی اڈوں کو ’عالمی سطح‘ پر لا کر اس کا فائدہ عوام کو پہنچانا چاہتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے آؤٹ سورسنگ کی جائے گی، جو مسابقت کی بنیاد پر ہوگی۔ جو پارٹی اچھی بولی لگائی گی اسے کامیاب قرار دیا جائے گا‘‘
ملک کے کئی حلقوں کی جانب سے یہ الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں کہ حکومت ان ہوائی اڈوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کر رہی ہے۔ تاہم سیف اللہ اس کی بھی تردید کرتے ہیں، ”یہ ہوائی اڈے دوسرے ممالک کے حوالے کیے جانے کی افواہ درست نہیں۔ دنیا کے بیشتر بین الاقوامی ہوائی اڈوں کا نظم ونسق آؤٹ سورسنگ کے طریقہ کار سے ہی عمل میں لایا جاتا ہے۔‘‘
خسارے کو آؤٹ سورسنگ کی بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ دہائیوں تک حکومت میں رہنے والے انہی افراد کی اپنی اسٹیل ملیں اور ہوائی کمپنیاں کبھی خسارے میں نہیں گئیں، اور ایسا بھی کبھی نہیں دیکھا گیا کہ ان کے دورِ اقتدار میں کبھی بھولے سے بھی ملکی ہوائی کمپنی اور اسٹیل مل منافع میں گئی ہو، تو کیا یہ خسارہ جان بوجھ کر ان اداروں کے مقدر میں لکھ دیا جاتا ہے؟
مزدور تنظیمیں سول ایوی ایشن کے ترجمان کی وضاحت سے مطمئن نظر نہیں آتیں اور سمجھتی ہیں کہ آؤٹ سورسنگ سول ایوی ایشن کے ملازمین کے لیے بھیانک ثابت ہوگی، اس سے بے روزگاری بڑھے گی اور غربت میں بھی اضافہ ہوگا
نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل ناصر منصور کہتے ہیں ”اس آؤٹ سورسنگ کے ذریعے حکومت بے روزگار افراد کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتی ہے، جس کا اثر لوگوں کے معیارِ زندگی پر بھی ہوگا۔ پاکستان میں پہلے ہی آٹھ کروڑ سے زیادہ افراد غربت میں رہ رہے ہیں۔ اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ مزید لوگوں کو بے روزگاری کی طرف دھکیلا جائے گا اور ان سے روٹی کمانے کا حق چھین لیا جائے گا‘‘
ناصر منصور کے مطابق ”حکومت نے ملکی ہوائی اڈوں پر پہلے ہی ٹریڈ یونینز کی سرگرمیوں پر پابندی لگا رکھی ہے۔ آج اگر ٹریڈ یونینز سرگرم ہوتیں تو حکومت اتنی آسانی سے یہ قدم نہیں اٹھا پاتی‘‘
پاکستان میں یہ عام خیال ہے کہ سرکاری ادارے اس وقت نجکاری کی طرف جاتے ہیں، جب وہ نقصان میں چلتے ہیں اور حکومت نقصان کو ایک بڑا جواز بنا کر پیش کرتی ہے۔ نجکاری کے حامی ایسے اداروں کو سفید ہاتھی سمجھتے ہیں جو ملکی مالی وسائل پر بوجھ بن جائیں۔ اس ضمن میں ریلوے، واپڈا، پاک اسٹیل مل، پاور ڈسٹریبیوشن کمپنییاں اور پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن سمیت کئی اداروں کا حوالہ دیا جاتا ہے اور انہیں ملکی خزانے پر بوجھ تصور کیا جاتا ہے
تاہم سول ایوی ایشن حکام کا کہنا ہے کہ ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ کے حوالے سے یہ تاثر غلط ہے۔ سول ایوی ایشن کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ”پاکستان تحریک انصاف کے دور میں سال 2020-21 کے دوران لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے ایئرپورٹس سے تقریباً ایک سو بیس ارب روپے کا ریونیو وصول ہوا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ یہ ادارہ نقصان میں نہیں چل رہا۔ یہ فیصلہ سیاسی ہے‘‘
مذکورہ افسر نے کہا ”آؤٹ سورسنگ کے حوالے سے کام تقریباً تین ماہ سے جاری ہے۔ حکومت نے ورلڈ بینک سے الحاق شدہ ایک ادارے کو ’کنسلٹیشن‘ کے لیے مقرر کیا ہے۔ کئی ملین ڈالرز تو صرف کنسلٹیشن اور انٹرنیشنل ٹینڈرز کے اشتہارات کے لیے حکومت کو دینے پڑیں گے۔ سرمایہ کاری آنا تو دور کی بات ہے ابھی تو خود حکومت کی جیب سے بہت زیادہ پیسہ جائے گا‘‘
خیال کیا جاتا ہے کہ سی اے اے کے زیرِ انتظام چلنے والے مختلف ہوائی اڈوں میں سے کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ائیر پورٹس سب سے زیادہ منافع بخش ہیں۔ اسی لیے سرمایہ کاروں کی نظر بھی ان پر ہے۔