امریکہ کے خلائی ادارے ناسا نے حال ہی میں جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کے ذریعے کی گئی نظامِ شمسی کے ساتویں سیارے یورینس کی نئی تصویر جاری کی ہے
نظامِ شمسی میں موجود اس سیارے کے گرد موجود کبھی یہ دائرے اتنے واضح نہیں دکھائی دیے، جتنے اس حالیہ تصویر میں نظر آ رہے ہیں
سائنسدانوں کے مطابق شمسی نظام یہ تقریبا 4. 6.6 بلین سال قبل ایک بڑے دیو مالیکیولر بادل کے کشش ثقل کے خاتمے کے نتیجے میں تشکیل پایا تھا. اس رجحان کے نتیجے میں دوسرے اربوں ستاروں کی تشکیل بھی ہوئی، ماہرین کے مطابق ، ان کی تعداد معلوم نہیں ہے
ہمارا نظام شمسی اپنے اجنبی سیاروں، پراسرار چاندوں اور عجیب و غریب مظاہر کے ساتھ ایک دلچسپ جگہ ہے
پلوٹو پر برف اگلتے آتش فشاں ہوں یا مریخ پر امریکا سے بھی بڑی خندقی وادی۔ سولر سسٹم کے آخری سیارے نیپچون سے بھی پرے کہیں چھپا ہوا ایک بڑا غیر دریافت شدہ سیارہ ہو یا پھر اجنبی بلیک ہولز۔۔ نظامِ شمسی میں ایسی جگہیں ہیں اور ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، جن کی وضاحت شاید کبھی نہ ہو سکے
امریکی خلائی ایجنسی کی تازہ رپورٹ کے مطابق انفراریڈ ویوز اور جیمز ویب ٹیلی اسکوپ باریک بینی سے سیارے کے ماحول میں موجود شاندار دائروں اور دلچسپ ڈیٹا کو سامنے لے کر آئے ہیں
اس سے قبل جب سنہ 1986ع میں ’وائر-2‘ خلائی جہاز نے یورینس کے پاس سے اڑان بھری تھی تو اس کے کیمرے نے یورینس کی تصویر جو لی تھی، اس میں سیارے کے خدوخال واضح نہیں تھے بلکہ یہ سیارہ صرف نیلے سبز رنگ کی گیند جیسا نظر آ رہا تھا
یورینس نظامِ شمسی میں موجود سیاروں میں منفرد خصوصیات کا حامل سیارہ ہے۔ یہ وہ واحد سیارہ ہے، جو اپنے مدار میں تقریباً نوے ڈگری کے زاویے پر اپنے اطراف گھومتا ہے
یورینس کے اس طرح گھومنے سے سیارے کے قطب سالہا سال مسلسل سورج کی روشنی کا سامنا کرتے ہیں اور اس کے بعد اتنے ہی سال وہاں گھپ اندھیرا رہتا ہے۔ سیارے کا اس طرح گردش کرنا وہاں موسموں کی شدت کا سبب بھی بنتا ہے
یورینس پر ایک دن سترہ گھنٹے اور چودہ منٹ کے دورانیے کا ہوتا ہے، جس میں وہ اپنے آپ کو ترچھے انداز میں اپنے مدار میں گھماتا ہے
تاہم سورج کے گرد اپنا چکر مکمل کرنے میں اسے جو ایک سال کا وقت لگتا ہے، وہ ہماری زمین کے چوراسی سال کے برابر ہے، یعنی یورینس کا ایک سال زمین کے تیس ہزار 687 دن کے برابر ہوتا ہے
یہ سیارہ ایک طرف جھک کر اپنے مدار میں گھومتا ہے، جس کی وجہ سائنسدان آج تک دریافت نہیں کر سکے ہیں۔ اس کی سب سے زیادہ ممکنہ وضاحت یہ ہے کہ یہ ماضیِ قدیم میں کسی قسم کے ایک یا ایک سے زیادہ ٹکراؤ سے گزرا تھا
یورینس کے تیرہ کل معلوم رنگز یا دائرے ہیں اور ان میں سے گیارہ اس ناسا کی حالیہ ویب تصویر میں دکھائی دے رہے ہیں
یورینس کے اب کے دریافت شدہ تیرہ دائرے ہیں اور ان میں سے گیارہ اس ویب تصویر میں دکھائی دے رہے ہیں۔ کچھ رنگز اتنے روشن نظر آتے ہیں کہ وہ ایک بڑی انگوٹھی دکھائی دیتے ہیں
یہ تصویر یورینس کے ستائیس ’معلوم‘ چاند کو بھی ظاہر کرتی ہے، ان میں سے بیشتر بہت چھوٹے سائز کے ہیں
یورینس کی ٹھوس سطح پر زیادہ تر مائع برف موجود ہے۔ برف سے ڈھکے ہونے کی وجہ سے نیپچون اور یورینس کو ’آئس جائنٹ‘ بھی کہا جاتا ہے
سیارے کی حالیہ تصویر میں نیلے رنگ کا ایک ہالا دکھائی دے رہا ہے، جو دو فلٹرز سے حاصل کیے گئے ڈیٹا کو ملا کر بنایا گیا ہے
جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے نیئر انفرا ریڈ کیمرے نے یورینس کے رنگوں کو ظاہر کیا ہے۔ تصویر میں سیارے کے دائیں جانب کے حصے کو پولر کیپ (قطبی ٹوپی) کہا جاتا ہے، جو سورج کی جانب قطب پر جگمگاتا دکھائی دے رہا ہے
تاہم یہ بات ابھی تک فلکیاتی ماہرین کے لیے ایک معمہ ہے کہ اس سیارے میں یہ قطبی حصہ گرمیوں میں نمودار ہو کر سردیوں میں غائب کیوں ہو جاتا ہے اور یہ پولر کیپ کس طریقہ کار کے ذریعے پیدا ہوتی ہے
تصویر میں سیارے کے دائیں جانب کے حصے کو پولر کیپ (قطبی ٹوپی) کہا جاتا ہے، جو سورج کی جانب قطب پر جگمگاتا دکھائی دے رہا ہے
یہ بات ابھی تک ایک معمہ ہے کہ اس سیارے میں یہ قطبی حصہ گرمیوں میں نمودار ہوکر سردیوں میں غائب کیوں ہو جاتا ہے اور یہ پولر کیپ کس طریقہ کار کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔
پولر کیپ کے کنارے پر ایک روشن بادل(کلاوڈ) موجود ہے جبکہ کرہ ارض کے بالکل بائیں جانب ایک دوسرا روشن بادل ہے اور دونوں بادلوں کا تعلق شاید وہاں کے طوفان کو ظاہر کر رہا ہے۔ اس تصویر کو کھینچنے کے لیے جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کو 12 منٹ لگے تھے۔
ناسا کے مطابق جیمز ویب دوربین سیارے کے بارے میں جو کچھ ظاہر کر سکتی ہے یہ تصویر اس کی محض ایک جھلک ہے۔