گریٹر لندن کے سائز کے برابر برفانی تودے، جو سمندر میں تیر رہے ہیں۔۔

ویب ڈیسک

برطانوی سائنسدان دنیا کے دو سب سے بڑے برفانی تودوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، جو کہ ان علاقوں کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس سے وہاں جہاز رانی، ماہی گیری اور جنگلی حیات کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے

سمندر میں تیرتے یہ بہت بڑے تودے انٹارکٹیکا سے ٹوٹ کر سمندر میں آ گئے ہیں، جن کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ منجمد بلاک پگھلنے اور خشک ہونے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں

برف کی ان عظیم الجثہ چٹانوں میں سے ایک کو اے 81 اور دوسرے کو 76 اے کا نام دیا گیا ہے

محققین کی ٹیم نے اے 81 نامی کی تصویر لی ہے، جس کا سائز گریٹر لندن شہر جتنا ہے۔ محققین کی ایک اور ٹیم اے 76 اے کا جائزہ لے رہی ہے، جس کا سائز کارنوال کاؤنٹی جتنا ہے، یعنی تین ہزار مربع کلو میٹر

اس آئس برگ کی ساخت طویل اور پتلی ہے اور کچھ لوگ اس کی ظاہری شکل کا موازنہ ایک بڑے استری بورڈ سے کر رہے ہیں

پروفیسر جیرائنٹ ٹارلنگ رائل ریسرچ شپ ڈسکوری پر سوار تھے، جنہیں اس آئس برگ کا معائنہ کرنے کا موقع ملا، جب یہ قطب جنوبی کے ویڈیل سمندر سے نکل کر جنوبی بحر اوقیانوس میں چلا گیا

سمندری حیاتیات کے ماہر پروفیسر جیرائنٹ کا کہنا ہے ”جب ہم گھر سے روانہ ہوئے تو یہ ہمارے راستے میں تھا، لہٰذا ہم نے اس کے گرد کا چکر لگانے کے لیے چوبیس گھنٹے نکالے“

انہوں نے بتایا ”ہم کچھ جگہوں پر اس کے کافی قریب تھے اور اسے بہت اچھی طرح دیکھا۔ ہم نے جہاز کے نیچے خصوصی غیر آلودہ پائپوں کا استعمال کرتے ہوئے اس برف کے بلاک کے آس پاس سے پانی جمع کیا، اس لیے ہمارے پاس مطالعہ کے لیے بہت سے نمونے ہیں“

برٹش انٹارکٹک سروے کے سائنسدان نے بتایا کہ بڑے فلیٹ ٹاپ یا ٹیبلر آئس برگس کا ان کے ماحول پر کافی اثر پڑا ہے اور یہ اثر اچھا بھی ہے اور برا بھی ہے

جیسے جیسے وہ پگھلیں گے وہ تازہ پانی کی بڑی مقدار کو سمندر میں ڈالیں گے، جس کی وجہ سے کچھ جانداروں کے لیے جینا مشکل ہو سکتا ہے

دوسری جانب ان کے پگھلنے سے وہ معدنی دھول بھی نکلتی ہے، جو برف میں اس وقت شامل ہوئی تھی، جب یہ قطب جنوبی کی چٹان کی تہہ کے ساتھ لگنے والے گلیشیر کا حصہ تھی۔ یہ دھول غذائی اجزاء کا ذریعہ ہے، جو کھلے سمندر میں زندگی کو فروغ دے گی

سائنسدانوں کے مطابق A76a نامی بلاک کی ابتدا اس کی موجودہ پوزیشن سے بہت دور جنوب میں ہوئی تھی، جو مئی سنہ 2021 میں آئس شیلف سے بچھڑ گئی تھی

یہ آئس برگ والا بلاک اب شمال کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ سمندری لہروں اور ہواؤں کے ذریعے برطانوی سمندر پار علاقوں فاک لینڈز اور جنوبی جارجیا کے درمیان والے خلا کی طرف لے جایا جا رہا ہے

اس بارے میں کچھ تشویش ہے کہ یہ مشرق کی طرف جنوبی جارجیا کی طرف جا سکتا ہے اور اپنے براعظمی شیلف کے اتھلے پانیوں یا ممکنہ طور پر قریبی جزیروں پھنس سکتا ہے

دونوں جگہوں پر یہ مقامی جنگلی حیاتیات اور لوگوں کے لیے مشکلات کا سبب بنے گا

جنوبی جارجیا اور جنوبی سینڈوچ جزائر میں حکومت کے ماہی گیری اور ماحولیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارک بیلچیئر نے اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا ”اگر یہ زمین پکڑ لیتا ہے (یعنی ٹھہر جاتا ہے) تو ہماری سب سے بڑی تشویش اس میں آنے والی ٹوٹ پھوٹ کے متعلق ہوگی، جس سے علاقے میں جہازوں کی نقل و حرکت پر اثرات پڑیں گے“

انہوں نے کہا ”اگرچہ سیاحتی سیزن ختم ہو رہا ہے لیکن ہماری ماہی گیری سردیوں کے مہینوں میں کام کرتی ہے، اس لیے یہ ان کے کام پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اس میں ہماری جنگلی حیات میں سے کچھ کے لیے مقامی سطح کے مسائل پیدا کرنے کی صلاحیت ہے، حالانکہ اس کا امکان کم ہے کیونکہ اگر یہ سردیوں میں ٹوٹتا ہے، جب زیادہ تر جانور زیادہ فاصلے پر چلے جاتے ہیں اور انہیں اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے زمین پر واپس جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے یا پھر وہ مکمل طور پر جزیرے سے دور ہو جاتے ہیں“

لندن کے سائز کا آیس برگ جنوری کے آخر میں برنٹ آئس شیلف سے الگ ہوا ہے

اس کے کئی سال پہلے ہی ٹوٹ کر الگ ہونے کا امکان تھا لیکن سائنسدانوں کی پیشن گوئیوں کے برعکس یہ کسی نہ کسی طرح برف کی ایک پتلی پرت سے براعظم سے جڑا رہا۔ اس کی حتمی منزل اے 76 اے کے نقش قدم پر جنوبی بحرِ اوقیانوس کے اس حصے میں پہنچنا ہے، جہاں جہاز چلتے ہیں

بی اے ایس کی ایک ٹیم کو اس آئس برگ کے اوپر سے پرواز کرنے کا موقع ملا، جب وہ جنوبی نصف کرہ کے موسم گرما کے اختتام پر ہیلی ریسرچ اسٹیشن کو بند کر کے وہاں سے نکلے تھے

تصویروں میں ان کے سفید حجم کو دیکھ کر آئس برگ کے سائز کا اندازہ لگانا اکثر مشکل ہوتا ہے، لیکن A81 اور A76 دونوں کے معاملے میں یہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جو کچھ سطح پر نظر آتا ہے، وہ اس چیز کا صرف ایک حصہ ہے

دکھائی دینے والی چٹانیں پانی کی سطح کے اوپر دسیوں میٹر تک اٹھی نظر آئی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ برف کا تودہ پانی کی سطح کے اندر سیکڑوں میٹر تک نیچے تک پھیلا ہوا ہے

سب سے بڑے آئس برگ کا وزن ایک ٹریلین ٹن ہو سکتا ہے

کہا جاتا ہے اس وقت دنیا کا سب سے بڑا آئس برگ اے23 اے ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً چار ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اے 76 اے کی طرح یہ فلشنر-رون آئس شیلف سے ٹوٹ کر نکلا ہے، لیکن اسے نکلے ہوئے بہت طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ سنہ 1986ع میں نکلا تھا۔ یہ جنوبی وسطی ویڈل سمندر میں کئی دہائیوں تک ‘برف کے جزیرے’ کے طور پر رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close