یہ بات جان کوئی بھی حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بچپن سے ہی تعلیم کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے کئی ریکارڈ بنانے والے تتھاگت اوتار تلسی ان دنوں بے روزگار گھوم رہے ہیں
تتھاگت تلسی پانچ سال کی عمر سے ہی پڑھائی میں اتنے اچھے تھے، کہ ہمیشہ اخبارات کی سرخیوں میں ان کا شہرہ رہا، لیکن آخر ایسا کیا ہوا کہ آج وہ نوکری تک سے محروم ہیں
تتھاگت کا کہنا ہے ”میں نے اپنا پورا بچپن فزکس کو دے دیا، اس امید پر کہ ایک دن میں کوئی بڑی ایجاد کر کے نوبل پرائز جیتوں گا، ملک کا نام روشن کروں گا، اگر میں کچھ نہ کر سکا تو یہ میرے ساتھ ناانصافی ہوگی“
تتھاگت اتنے فطین تھے کہ انہوں نے صرف نو سال کی عمر میں پی میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تھا، آگے چل کر پی ایچ ڈی کرنے کے بعد وہ صرف بائیس سال کی عمر میں ممبئی میں آئی ٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر بھی بن گئے
لیکن ذہانت کی دولت سے مالامال اس نوجوان کو ایک غیر متوقع صورتحال پیش آئی اور آج کل وہ صحت کی وجہ سے بے روزگار ہے۔ دراصل تتھاگت کو ممبئی کی ہوا راس نہیں آئی اور انہیں الرجی کی بیماری ہو گئی، جس غ وجہ سے انہیں آئی آئی ٹی ممبئی میں ملازمت سے محروم ہونا پڑا
آئی آئی ٹی کی نوکری کیوں چلی گئی؟
تتھاگت اپنے تعلیمی کریئر میں جس رفتار سے آگے بڑھے، وہ کبھی اپنے ہم عمر دوست نہ بنا سکے، سب اس سے عمر میں بہت بڑے تھے۔ زندگی کے جس دور میں لوگوں کا حلقہ احباب ہوتا ہے، اس دور میں تتھاگت اکیلے ہو گئے اور انہیں اپنے حالات سے تنہا لڑنا پڑا
اب تتھاگت اپنی نوکری واپس حاصل کرنے کے لیے قانون کا سہارا لینا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ خود قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس کے لیے ایک راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ ’ورچوئل ٹرانسفر‘ اسی بنیاد پر اب وہ دہلی ہائی کورٹ جانے کی تیاری کر رہے ہیں
واضح رہے کہ تتھاگت اوتار تلسی کو آئی آئی ٹی ممبئی نے 31 جولائی 2019ع کو برطرف کر دیا تھا۔ اور پھر 18 اگست 2021ع کو اس وقت کے صدر ہند رام ناتھ کووند نے ان کی وہ درخواست مسترد کر دی تھی، جس میں انہوں نے ممبئی سے کسی اور آئی آئی ٹی میں منتقلی کی استدعا کی تھی، لیکن ملک کے مختلف آئی آئی ٹیز کے اندر اندرونی ٹرانسفر کا ایسا کوئی اصول نہیں ہے
تتھاگت نے 2010 میں آئی آئی ٹی ممبئی میں فزکس کے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر اپنی ملازمت شروع کی۔ اگست 2011ع میں انہیں تیز بخار تھا۔ اس کے بعد اس نے ڈاکٹر سے رابطہ کیا لیکن ان کے تمام ٹیسٹ نارمل آ گئے
تتھاگت کے مطابق انہیں ممبئی میں سمندر کے کنارے ہوا میں سانس لینے میں مسلسل تکلیف اور جسم کے جوڑوں میں درد ہونے لگا
انہوں نے صحت کے مسائل کی وجہ سے آئی آئی ٹی سے چار سال کی چھٹی لی اور دسمبر 2013ع میں ممبئی شہر چھوڑ دیا۔ اس کے بعد تتھاگت پٹنہ آئے اور اپنی تحقیق جاری رکھی اور مقالے لکھتے رہے
دسمبر 2017ع میں چار سال مکمل ہونے کے بعد بھی تتھاگت ممبئی نہیں جا سکے۔ انہوں نے اس کی وجہ اپنی الرجی بتائی
اس کے بعد غیر حاضری کی وجہ سے آئی آئی ٹی بمبئی میں ان کے خلاف تادیبی کارروائی شروع ہوئی۔ آخرکار، 2019 میں، آئی آئی ٹی بومبے نے تادیبی کارروائی کرتے ہوئے تتھاگت کو ملازمت سے برطرف کر دیا
تتھاگت کے صحت کے مسئلے کے حوالے سے سر گنگارام ہسپتال، دہلی کے سینئر کنسلٹنٹ ڈاکٹر محسن ولی کہتے ہیں ”طبی کتاب میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ آپ کو سمندری ہوا سے الرجی ہے۔ اس میں کوئی زہریلا دھواں ہو سکتا ہے یا قریب ہی کوئی ریفائنری ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ نفسیاتی وجوہات کی بنا پر ان کی صحت خراب ہو گئی ہو۔ کئی بار کسی جگہ کی آب و ہوا بہت سے لوگوں کے موافق نہیں ہوتی“
تتھاگت کا کہنا ہے کہ آئی آئی ٹی بمبئی کے ڈائریکٹر نے ان کی بہت مدد کی، لیکن وہ قوانین کے پابند تھے۔ اس طرح چھٹی ختم ہونے کے دو سال بعد آئی آئی ٹی بمبئی نے انہیں نوکری سے ہٹا دیا
اس کے بعد کووڈ-19 کا دور بھی آیا، جس نے سب کو متاثر کیا۔ حالانکہ آئی آئی ٹی سے نکالے جانے کے بعد تتھاگت نے ملک کے کئی آئی آئی ٹی میں نوکری حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن اس میں انہیں کامیابی نہیں ملی
تتھاگت نے کئی غیر ملکی اداروں میں ملازمتوں اور تحقیق کے لیے درخواستیں بھی بھیجیں، لیکن انہیں ہر جگہ مایوسی ہوئی۔ حالانکہ اسے پہلے بھی کچھ جگہوں سے آفرز مل چکی تھیں۔ تتھاگت کے مطابق صحت کی وجہ سے ان کے کیریئر میں بڑا وقفہ آیا
تتھاگت کی کہانی
تتھاگت اوتار تلسی 9 ستمبر 1987 کو بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان اصل میں بہار کے گیا ضلع سے تعلق رکھتا ہے۔
صرف پانچ سال کی عمر میں، تتھاگت پلک جھپکتے میں ریاضی کی بڑی بڑی مساواتیں حل کرتے تھے۔ اسی قابلیت کی وجہ سے تتھاگت پہلی بار اس وقت نظروں میں آئے جب ہندی اخبار ’جنستا‘ نے مئی 1994 میں ان پر ایک خبر شائع کی۔ اس میں تتھاگت کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ کس طرح کم عمری میں ریاضی کے مشکل مسائل کو حل کرتے تھے
اس خبر کے بعد 3 جون کو بہار کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے تتھاگت کو رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ لالو نے انہیں کچھ نقد انعام اور ایک کمپیوٹر دینے کا وعدہ کیا، جو بعد میں انہیں مل گیا
سرخیوں میں آنے کے بعد، ایک این جی او نے تتھاگت کی مالی مدد کی اور انہیں دہلی بلایا، جہاں انہوں نے ایک پرائیویٹ اسکول میں داخلہ لیا
تتھاگت نے صرف نو سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کر کے عالمی ریکارڈ بنایا۔ اس کے لیے ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرایا گیا
حالانکہ اس کا سفر آسان نہیں تھا۔ اسے نو سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے لیے ایک طویل جنگ لڑنی پڑی
تتھاگت اس وقت دہلی کے سی بی ایس ای بورڈ اسکول میں پڑھ رہے تھے۔ اسکول کی جانب سے ان کے لیے نو سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان دینے کی اجازت مانگی گئی، لیکن اسے مسترد کر دیا گیا
اس کے بعد 1996ع میں تتھاگت نے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے ملاقات کی۔ تتھاگت کے مطابق واجپائی کے اسسٹنٹ سیکریٹری ٹی این ماکن نے بھی کیلکولیٹر لے کر آدھے گھنٹے تک ان کا امتحان لیا اور حیران رہ گئے
تتھاگت کے مطابق، وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ان سے صرف اتنا کہا کہ ”دیکھتے ہیں کہ ہم اس میں کیا کر سکتے ہیں“
چند ماہ بعد 5 نومبر 1996 کو دہلی کے اس وقت کے لیفٹیننٹ گورنر پی کے ڈیو نے تتھاگت کے حق میں حکم جاری کیا۔ اسی وقت انسانی وسائل کی ترقی کے وزیر ایس آر بومئی نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے تتھاگت تلسی کو صرف نو سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان دینے کی اجازت دی
لیکن جب سی بی ایس ای نے اسے ماننے سے انکار کر دیا تو تتھاگت تلسی نے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ اس کے لیے انہوں نے سینئر ایڈوکیٹ رام جیٹھ ملانی سے رابطہ کیا
رام جیٹھ ملانی نے بھی سترہ سال کی عمر میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، جبکہ اس وقت قانون کی پریکٹس شروع کرنے کے لیے اکیس سال کی عمر ضروری تھی
جیٹھ ملانی نے تتھاگت کے کیس میں دلچسپی لی اور انہیں مدد کا یقین دلایا۔ جیٹھ ملانی نے انہیں مکل روہتگی سے ملوایا، جو اس وقت کے معروف وکیل تھے۔ بعد میں مکل روہتگی نے دہلی ہائی کورٹ میں سی بی ایس ای کے خلاف تتھاگتا کا مقدمہ لڑا
دہلی ہائی کورٹ نے تتھاگت اوتار تلسی کو نو سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان دینے کی اجازت دی اور پھر 30 مئی 1997 کو تمام بچوں سمیت تتھاگت کا نتیجہ جاری کرنے کا حکم دیا۔ بہار بورڈ نے وہ نتیجہ 3 جون 1997 کو جاری کیا
اس کامیابی پر تتھاگت اوتار تلسی کا نام پہلی بار گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کیا گیا
اس ریکارڈ کے بعد بھارت کے سرکاری چینل دوردرشن نے بھی آزادی کے پچاس سال مکمل ہونے کے موقع پر بنائے گئے اپنے گانے’وجے وشو تیرنگا پیارا ‘’ میں تتھاگت کو شامل کیا
بارہ سال میں ایم ایس سی کرنے کا عالمی ریکارڈ
سی بی ایس ای نے تتھاگت کو نو سال کی عمر میں میٹرک میں حاضر ہونے کی اجازت دینے کے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں سپیشل لیو پٹیشن (SLP) بھی دائر کی تھی۔ اسی دوران تتھاگت بہار واپس آئے اور پٹنہ یونیورسٹی کے سائنس کالج میں انٹرمیڈیٹ میں داخلہ لیا
اس کے بعد تتھاگت نے 6 ستمبر 1997 کو بہار کے اس وقت کے گورنر اور پٹنہ یونیورسٹی کے چانسلر اے آر قدوائی سے ملاقات کی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں انٹرمیڈیٹ کا امتحان دیے بغیر گریجویشن کرنے کی اجازت دی جائے
پھر پٹنہ یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل نے تتھاگت کا انٹرویو کیا اور 26 فروری 1998 کو انہیں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیے بغیر گریجویشن کی اجازت مل گئی
لیکن اس وقت بھی وہ گریجویشن کے تینوں سال کا امتحان ایک ساتھ دینے پٹنہ ہائی کورٹ پہنچے۔ یکم اپریل 1998 کو عدالت نے گریجویشن کے تینوں سالوں کا بیک وقت امتحان لینے کا حکم دیا
اس طرح سال 1998 میں ہی گیارہ سال کی عمر میں تتھاگت نے گریجویشن کی ڈگری مکمل کی۔ تلسی نے فزکس آنرز کا امتحان 68.5 فیصد نمبروں کے ساتھ پاس کیا
تتھاگت کے بقول، انہیں لکھنے کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے اچھے نمبر نہیں ملے۔
وہ کہتے ہیں ”اگر مجھے آدھے گھنٹے کا اضافی وقت مل جاتا تو میں کم از کم ریاضی میں 100 فیصد سکور کر لیتا“
دریں اثنا، 24 اپریل 1998 کو سپریم کورٹ نے سی بی ایس ای کی ایس ایل پی (خصوصی چھٹی کی درخواست) کو خارج کر دیا تھا۔ دوسری طرف یکم جنوری 1999 کو تتھاگت نے پٹنہ یونیورسٹی میں ہی ایم ایس سی میں داخلہ لیا
اس کے بعد تتھاگت نے پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بی ایم لال اور اس وقت کے بہار کے قائم مقام گورنر سے ملاقات کی اور اسی سال ایم ایس سی کے دونوں سالوں کے لیے حاضر ہونے کی اجازت مانگی
اس کے لیے دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے فزکس کے پروفیسروں کی ایک ٹیم نے 20 مئی 1999 کو تتھاگت اوتار تلسی کا انٹرویو کیا۔ تتھاگت کو یہ چھوٹ ان کی سفارش کے بعد ملی
تتھاگت نے 28 نومبر 1999 کو ایم ایس سی کا امتحان 70 فیصد سے زیادہ نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔ اس وقت ان کی عمر صرف بارہ سال تھی۔ اس کامیابی کے بعد ان کا نام ایک بار پھر ’گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘ میں شامل کر لیا گیا
ڈاکٹریٹ کی ڈگری
اس کے بعد تتھاگت این ای ٹی کا امتحان دینا چاہتے تھے، لیکن اس وقت اس کے لیے کم از کم عمر انیس سال تھی۔ اس امتحان میں بیٹھنے سے پہلے تتھاگت کا امتحان ایک بار پھر لیا گیا۔
اس بار 12 جنوری 2000 کو تتھاگت کا ٹیسٹ ’نیشنل فزیکل لیبارٹری ‘ کے طبیعیات کے ماہرین نے لیا۔ ان کی سفارش پر اس وقت کے مرکزی سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر مرلی منوہر جوشی نے تتھاگت کو صرف بارہ سال کی عمر میں این ای ٹی کے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دی
اگست 2001 میں حکومت ہند نے تلسی کو جرمنی بھیجا تھا۔ بھارت نے پہلی بار اپنے نوجوان سائنسدانوں کو جرمنی میں نوبل انعام یافتہ افراد کی کانفرنس میں بھیجا تھا
سال 2002ع میں، تتھاگت نے بنگلور میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس میں داخلہ لیا۔ یہاں سے انہوں نے ٹیکنیکل کوانٹم کمپیوٹنگ میں تحقیق شروع کی
آئی آئی ایس سی سے پی ایچ ڈی کرنے کے دوران تتھاگت سترہ سال کی عمر میں مشہور سائنسدان لو گروور کی دعوت پر امریکہ گئے۔ وہاں اس نے ’بیل لیبز‘ میں کام کیا
بیس سال کی عمر میں، تتھاگت نے اپنا تحقیقی مقالہ لکھا جو فزیکل ریویو آف امریکہ میں شائع ہوا ۔ ان کی تحقیق ’دو جہتی مقامی تلاش کے لیے تیز رفتار کوانٹم واک الگورتھم‘ پر تھی
اس پر اب تک 113 اقتباسات آ چکے ہیں۔ تتھاگت کے مطابق تحقیق کے اس شعبے میں اوسطاً صرف 10 حوالہ جات ملتے ہیں
سال 2009ع کے اگست میں تتھاگت اوتار تلسی نے بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انہیں کینیڈا کی ’یونیورسٹی آف واٹر لو‘ سے پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو کی آفر بھی ملی
لیکن تحقیق کے لیے بہتر سہولیات اور زیادہ وقت حاصل کرنے کے لیے اس نے 19 جولائی 2010 کو آئی آئی یٹی بومبے میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر شمولیت اختیار کی۔ اس وقت ان کی عمر صرف بائیس سال تھی
مئی 2012 میں بہار صد سالہ فیسٹیول سورت، گجرات میں منایا گیا۔ اس وقت تتھاگت کو گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ اور اب ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی نوازا تھا
کوانٹم کمپیوٹر بنانے کا خواب
تتھاگت اوتار تلسی خود اب قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی ملازمت سے برطرفی کو عدالت میں چیلنج کر سکیں
قانون کی کتابیں پڑھنے کے بعد انہوں نے ’ورچوئل ٹرانسفر‘ کا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے، یعنی طلبا کو کسی بھی جگہ سے آن لائن پڑھانا
تتھاگت کا خیال ہے کہ وہ آئی آئی ٹی دہلی جیسی اچھی سہولیات والے ادارے سے بچوں کو پڑھا سکتے ہیں اور وہیں اپنی تحقیق بھی کر سکتے ہیں
وہ کہتے ہیں ”آئی آئی ٹی میں آپ کو تحقیق کے لیے زیادہ وقت ملتا ہے، دوسری جگہوں پر آپ کو بچوں کو پڑھانے میں زیادہ وقت دینا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں سہولیات بھی بہتر ہیں“
تتھاگت کے مطابق انہوں نے بچپن سے ہی تحقیق کا خواب دیکھا ہے
وہ کہتے ہیں ”میں ایک کوانٹم کمپیوٹر بنانا چاہتا ہوں۔ اگر میں اس میں کامیاب ہو جاتا ہوں تو اس سے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں، جن کی دنیا کو ضرورت ہے۔ یہ کاروبار، دفاعی شعبے اور سائنسی تحقیق میں بہت کام آئے گا“
آسان الفاظ میں سمجھا جائے تو کوانٹم کمپیوٹر کسی بھی کام کو بہتر بنانے میں مدد کرسکتا ہے، یعنی کسی بھی بڑے کام کو کم وقت اور کم وقت میں آسانی سے مکمل کرنے میں
تتھاگت اوتار تلسی اس کے لیے انڈیا میں ’کووڈ ویکسینیشن مہم‘ کی مثال دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر کوئی کوانٹم کمپیوٹر ہوتا تو اس کی مدد سے یہ کام بہت کم خرچ میں کیا جا سکتا تھا
تتھاگت کے والد ایک نجی ادارے میں کام کرتے تھے اور اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اس کی والدہ جو کہ ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر تھیں، وہ بھی اب ریٹائر ہو چکی ہیں
تتھاگت آج کل اپنے بھائی کے ساتھ زیادہ رہتے ہیں، جو آئی آئی ٹی پٹنہ میں کام کر رہے ہیں۔ کبھی کبھی وہ اپنے والدین کے پاس پٹنہ بھی آتے ہیں
حیران کن بات یہ ہے کہ تتھاگت، جو کبھی فزکس کے پروفیسر تھے، اب قانون کی کتابیں پڑھ رہے ہیں تاکہ عدالت کی مدد سے اپنی زندگی کو دوبارہ پٹری پر لا سکیں
ان کا خواب فزکس کے میدان میں کچھ حاصل کرنا ہے، جس کے لیے انھوں نے اپنا بچپن کھو دیا۔