6 اپریل کو ضلع کشمور کندھ کوٹ میں سکھر آئی بی اے یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اجمل ساوند کو قتل کر دیا گیا۔ ایسے کسی بھی واقعے پر مذمتوں کی ایک گردان چلتی ہے، سو اجمل ساوند کے قتل پر بھی چل رہی ہے
ڈاکٹر اجمل ساوند نے فرانس سے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی اور وہیں کسی یونیورسٹی میں پڑھا بھی رہے تھے۔ ان کو خیال آیا کہ میری صلاحیتوں پر پہلا حق میرے اپنوں کا ہے۔ بوریا بستر لپیٹا اور اپنے وطن کو لوٹ آئے، لیکن انہیں شاید اندازہ نہیں تھا کہ وہ جتنا بھی پڑھ لکھ لیں، گاؤں کا راجہ تو جاگیردار ہی ہوگا یا اس کا کوئی بیٹا
پولیس اجمل ساوند کے قتل کو قبائلی تنازعہ کی نوعیت کا قتل قرار دیتی ہے۔ قبائلی تنازعوں کا زیادہ تر تعلق زمینوں اور جاگیرداری سے ہوتا ہے اور یہ ہمارے خطے میں ہر دوسرے خاندان کی کہانی ہے۔ چلیں آج بات ہو ہی رہی ہے تو آپ کو اپنے والد کا تعارف کروا دیتی ہوں
میرے والد اپنے سات بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور کاروباری دماغ رکھتے تھے۔ کبھی موٹر سائیکل کا ادلا بدلا کر کے کوئی زمین کا ٹکڑا لے لیا تو کبھی کچھ اور جگاڑ کرکے دو پیسے بنا لیے۔ والد صاحب کہتے تھے اگر سندھی ہندو ملک بدر نہ ہوتے اور وہ زمینیں نہ فروخت کرتے تو ہم کبھی زمیندار نہیں بن سکتے تھے۔ زمینیں اور زمینداری شروع ہوئی تو قبضے اور جھگڑے بھی شروع ہو گئے
پھر جب بڑے بھائیوں کے بچے بڑے ہونے لگے تو میرے والد نے کوشش کی کہ ان بچوں کو تعلیم کی طرف لے جایا جائے۔ یہ وہ وقت تھا جب زمینوں پر قبضوں اور جھگڑوں میں شدت آ چکی تھی۔ والد نے انہی دنوں خاندان سے باہر شادی کرلی۔ ہماری والدہ کا گاؤں والد کے گاؤں سے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر تھا۔ والد نے وہیں شفٹ ہونے کا فیصلہ کر لیا
والدہ کا خاندان سماجی اعتبار سے والد کے خاندان سے بہتر ہے۔ وہ مسائل کو بگاڑنے کے بجائے حل کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ والد نے دراصل بگاڑ سے حل کی طرف ہجرت کی۔ ہم بڑے ہونے لگے تو والد کے خاندان میں معاملات اتنے خراب ہو چکے تھے کہ ہم ملنے ملانے سے بھی گئے۔ ملنے ملانے کے لیے والد صاحب نے بھی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ تب ہمیں بات سمجھ میں نہیں آتی تھی لیکن والد مستقبل کا نقشہ بھانپ چکے تھے۔ اپنے خاندان سے ان کی مایوسی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ کبھی کسی بات کا کوئی جواز گھڑنے نے کی بجائے الٹا ان پر طنز کرتے تھے
والد کے خاندان میں قتل و غارت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ آئے دن خبر ملتی ہے کہ فلاں کے بیٹے کو فلانے نے قتل کر دیا ہے اور فلاں نے اتنے پیسے لیکر فلاں کا قتل معاف کر دیا ہے۔ نہ ختم ہونے والے اس خونی سلسلے کو ہمارا قانون برابر حوصلہ دے رہا ہے۔ کسی کو قتل کرو اور ورثا پر دباؤ ڈال کر پیسے دیدو اور دیت کے نام پر خون معاف کروا لو۔ کہیں کہیں تو یہ لگتا ہے دیت کے چکر میں لوگ قتل گوارا بھی کر رہے ہیں۔ جیسے ایک بھائی دوسرے بھائی کے قتل کا انتظار کر رہا ہو کہ یہ مارا جائے اور میں دیت کا مطالبہ کروں
ڈاکٹر اجمل ساوند کے قتل کی نوعیت شاید مختلف ہو لیکن یہ خاندانوں کی برسوں سے جاری قتل و غارت کی ہی ایک کہانی ہے۔ جب تک ملک کا قانونی نظام بہتر نہیں ہو گا تب تک یہ قتل و غارت ایسے ہی چلتی رہے گی۔ لینڈ ریفارمز کا جب تک نہیں سوچا جائے گا، جاگیردارانہ نظام ختم نہیں ہو گا۔ جب تک یہ بدبودار نظام قائم ہے، یہ زمین اسی طرح پڑھے لکھے باشعور جوانوں کی قبریں بنانے کے ہی کام آئے گی۔ لوگ خواب لیکر واپس لوٹیں گے اور ایک جاگیردار یا اس کا بیٹا اس کو خوابوں کو مسل کے گزر جائے گا۔ ہم پیچھے ایک دوسرے سے سوال کرتے رہ جائیں گے کہ یہ ملک کیسے ٹھیک ہوگا۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)