کیا آپ کو بھی روزمرہ زندگی میں ایسی صورت حال کا سامنا رہا ہے کہ آپ کچھ بھی نہ کرنا چاہتے ہوں اور بوریت کے باعث تقریباً بیزار ہو گئے ہوں؟ ایک معروف جرمن ماہر سماجیات کے مطابق بوریت کچھ نہ کرنے کی خواہش سے مختلف ہوتی ہے
آج کل کی تیز رفتار زندگی میں ہمیں اکثر بوریت کی کیفیت کے احساس سے گزرنا پڑتا ہے۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ بور ہونا یا کسی کام میں دل کا نہ لگنا صرف ایک انفرادی مسئلہ ہے، لیکن معروف جرمن ماہر سماجیات سِلکے اوہلمائر کہتی ہیں کہ بوریت کوئی انفرادی نہیں بلکہ انسانوں کا ایک اجتماعی سماجی مسئلہ ہے
اسی حوالے سے حال ہی میں ’بوریت سیاسی ہوتی ہے‘ کے عنوان سے سِلکے اوہلمائر کی ایک نئی کتاب بھی شائع ہوئی ہے۔ اوہلمائر انسانوں میں بوریت کے مسئلے کا ایک اجتماعی معاشرتی احساس کے طور پر جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیتی ہیں
سِلکے اوہلمائر نے نیوز ایجنسی کے این اے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ”آج کل کے معاشروں میں بوریت سے مراد یہ بھی لی جاتی ہے کہ جب آپ کا کچھ بھی نہ کرنے کو جی چاہ رہا ہو۔ لیکن بوریت کچھ بھی نہ کرنے کی خواہش سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ ہمارے ارد گرد کے سماجی، اقتصادی اور نفسیاتی ڈھانچوں کے باعث ہم پر پڑنے والے اثرات کا نتیجہ ہوتی ہے اور اس کا ایک پہلو سیاسی بھی ہے‘‘
جرمن مصنفہ اور سماجی ماہر کے مطابق روزمرہ زندگی میں اکثر بوریت اور کچھ نہ کرنے کی خواہش کو یکساں سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ان کے بقول یہ دونوں باتیں یکساں نہیں ہیں
اوہلمائر نے اپنے انٹرویو میں کہا ”صرف کچھ نہ کرنے کی خواہش ہی بوریت نہیں ہوتی۔ بوریت کسی بھی کام میں عدم دلچسپی سے کہیں بڑھ کر اور ایک ایسا سوال ہوتی ہے کہ ”صورت حال اور فرد کے مابین ہم آہنگی کیسے پیدا کی جائے؟‘‘
اس کی ایک مثال دیتے ہوئے سِلکے اوہلمائر کہتی ہیں ”ممکن ہے کہ کوئی انسان کھڑکی کے سامنے کھڑا باہر دیکھ رہا ہو اور بوریت محسوس کرے۔ لیکن یہی صورتحال اس کے لیے بہت پُرسکون اور ذہنی دباؤ میں کمی کا باعث بننے والی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے بوریت سے بچاؤ کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی فرد اور اس کی صورتحال کے مابین مطابقت یا ہم آہنگی پیدا ہو جائے‘‘
سِلکے اوہلمائر نے بوریت کو ایک اجتماعی سماجی مسئلہ قرار دیتے اور اس کے سماجی حل کی کوششوں کی حمایت کرتے ہوئے یہ حوالہ بھی دیا کہ اس بارے میں برطانیہ میں 2018ع میں ایک فیصلہ کن قدم اس وقت اٹھایا گیا تھا، جب وہاں تنہائی سے متعلقہ امور کی ملکی وزارت قائم کر دی گئی تھی
برطانیہ میں اس نئی وزارت کے قیام کے بعد نہ صرف اس مسئلے کے بارے میں عوامی شعور میں واضح تبدیلی آئی بلکہ یہ بھی پتہ چلا کہ تنہائی، جو بوریت کی بھی وجہ بنتی ہے، پورے معاشرے کا مسئلہ ہے اور معاشرتی سطح پر ہی حل کیا جانا چاہیے۔
مصنفہ کے مطابق عام انسان کئی طرح کے حالات میں بوریت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ مثلاﹰ جب ان کے پاس کرنے کو کافی کچھ نہ ہو، جب کرنے کو بہت کچھ ہو، جب یہ احساس ہو کہ جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ بےمعنی ہے یا پھر ایسے حالات جن میں کوئی انسان مصروف تو بہت ہو، لیکن اس کے باوجود اسے اپنی ذات میں خلا محسوس ہوتا ہو، جس کے لیے انگریزی میں busy bored کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے
اس جرمن سوشیالوجسٹ کے مطابق ”جو کچھ عام انسان کرتے ہیں، اس میں دلچسپی کا تعلق اس بات سے نہیں ہوتا کہ آپ کوئی کام کتنا زیادہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس زیادہ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ کسی کام میں آپ کی دلچسپی کتنی ہے‘‘
اوہلمائر تجویز کرتی ہیں کہ کسی بھی عام انسان کو خود سے یہ سوال اکثر پوچھتے رہنا چاہیے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے، یا جس طرح بھی زندگی گزار رہا ہے، وہ خود اسے کس قدر دلچسپ لگتے ہیں؟