ریڈار کے ذریعے مٹی کی زرخیزی معلوم کرنا ممکن ہے، نئی تحقیق

نیوز ڈیسک

ریڈار کے ذریعے مٹی کی زرخیزی معلوم کرنا ممکن ہے، نئی تحقیق

ریسرچ جرنل ’’سوائل فزکس‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق روسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب کسی جگہ مٹی کی زرخیزی اور دوسری اہم خصوصیات معلوم کرنے کے لیے کھدائی کی ضرورت باقی نہیں رہے گی، بلکہ اب یہ کام زمین میں سرایت کرنے والی ریڈار لہروں سے لیا جا سکے گا

ذہن میں رہے کہ زمین کے اندرونی حصوں کا جائزہ لینے کے لیے ایسے ریڈار برسوں سے موجود ہیں، جن سے خارج ہونے والی لہریں خاصی گہرائی تک مٹی اور چٹانوں میں سرایت کر جاتی ہیں. اس عمل سے زمین کی خصوصیات معلوم کی جاتی ہیں

دوسری جانب کسی علاقے میں مٹی کی مختلف اور اہم خصوصیات معلوم کرنے کےلیے ایک پتلی لیکن باریک نلکی زمین میں اتاری جاتی ہے جس میں مٹی کے پرت در پرت نمونے جمع ہوتے چلے جاتے ہیں

جس کے بعد جمع ہونے والے ان نمونوں کا تجزیہ کر کے متعلقہ زمین میں مٹی کا معیار یعنی سوائل کوالٹی معلوم کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ طریقہ نہ صرف بہت طویل اور مشکل ہے بلکہ اس پر لاگت بھی بہت زیادہ آتی ہے

اب ماسکو میں واقع  آر یو ڈی این یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مٹی کی کثافت، معدنیات، نمک کی مقدار، نمی اور دیگر اہم خصوصیات میں تبدیلی کے باعث مٹی کا رنگ بھی بدل جاتا ہے

روسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’زمین میں سرایت کرنے والا ریڈار‘‘ (جی پی آر) استعمال کرتے ہوئے مٹی کی گہرائی تک عکس حاصل کیا جاسکتا ہے اور اسی عکس کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ رنگ بھی شناخت کیے جاسکتے ہیں جن سے مٹی کا مخصوص معیار یا کیفیت معلوم کی جا سکتی ہے

ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ تکنیک بہت سادہ اور سہل ہونے کے ساتھ ساتھ کم خرچ اور تیز رفتار بھی ہے

آر یو ڈی این یونیورسٹی کے ماہرین نے مٹی کے معیار اور مٹی کے اندر سے پلٹ کر واپس آنے والی ریڈار لہروں کے نمونوں (پیٹرنز) میں تعلق جاننے کے لیے روس میں مختلف مقامات پر ریڈار اور کھدائی کا عمل ایک ساتھ انجام دیا، جس کے بعد مٹی کی رنگت، اس کی ترکیب (کمپوزیشن) اور ریڈار لہروں کے نمونوں میں موازنہ کیا گیا

بالآخر سات مختلف مقامات پر چند سینٹی میٹر سے لے کر دس فٹ گہرائی تک یہ عمل سیکڑوں بار دہرانے کے بعد ماہرین ایک ایسا ماڈل بنانے میں کامیاب ہو گئے جس میں ریڈار لہروں کا نمونہ دیکھ کر مٹی کی رنگت معلوم کی جا سکتی ہے

صرف یہی نہیں بلکہ مٹی کی رنگت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بھی بتایا جاسکتا ہے کہ اس میں کون کون سے اجزاء موجود ہیں اور ان کی موجودگی کی شرح کیا ہے.

ماہرین کے مطابق اپنی موجودہ حالت میں یہ طریقہ 80 فیصد درست نتائج دیتا ہے اور اسے مزید بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close