صوبہ سندھ کے سرحدی شہر جیکب آباد سے کچھ فاصلے پر واقع دو درجن گھروں پر مشتمل گاؤں رضا محمد بروہی کے اکثر رہائشی موسمِ گرما کے آغاز کے ساتھ ہی عارضی طور پر نقل مکانی کر کے کوئٹہ، حیدرآباد، جامشورو، کراچی اور دیگر شہروں کو چلے گئے ہیں
ماحولیاتی تبدیلی کے باعث درجہِ حرارت میں اضافے سے جیکب آباد میں موسم گرما کے دوران گذشتہ دو دہائیوں کے دوران دیگر شہروں کی طرف عارضی نقل مکانی ہو رہی تھی، لیکن گذشتہ چند سالوں میں نقل مکانی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے
جیکب آباد میں 2003ع سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’کمیونٹی ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن‘ کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق موسمِ گرما میں دیگر شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی تعداد ضلع جیکب آباد کی کُل آبادی کے چالیس سے پچاس فی صد تک پہنچ گئی ہے اور ان میں سے اکثریت کا تعلق ضلع کے دیہی علاقوں سے ہے
ایسے ہی ایک گاؤں رضا محمد بروہی کے اکثر رہائشی بھی دیگر شہروں کو چلے گئے ہیں، جب کہ باقی لوگ بھی جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں
گاؤں کے ایک رہائشی رب نواز بتاتے ہیں ”ہر سال عام طور پر لوگ مئی کے آغاز سے نقل مکانی شروع کرتے ہیں، لیکن اس سال گرمی کا آغاز اپریل سے ہی ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے سنا ہے کہ اس سال شدید گرمی کا امکان ہے، اس لیے بھی لوگ احتیاطاً اپریل میں دیگر شہروں کو چلے گئے ہیں“
واضح رہے کہ حال ہی میں پاکستان کے محکمہ موسمیات نے مارچ سے مئی کے مہینوں کے دوران ملک کے مختلف خطوں میں ہیٹ ویو کی پیش گوئی کی ہے
لیکن گاؤں رضا محمد کے رہائشیوں کی طرح اس خطے میں ہر کوئی خوش نصیب نہیں کہ کسی طرح نقل مکانی کر کے گرمی سے بچنے کے لیے دیگر شہروں کو چلا جائے اور نئی جگہ پر روزگار بھی حاصل کر سکے
گاؤں حفیظ آباد کی رہائشی پینتیس سالہ حسنہ بروہی شدید گرمی کی پیش گوئی کے باوجود اس سال اپنے گاؤں کو چھوڑ کر کوئٹہ یا کسی اور شہر نہیں جا سکیں گی۔ کیونکہ سات بچوں کی والدہ حسنہ بروہی کے شوہر لکھمیر بروہی اینٹوں کے بھٹے پر مزدوری کا کام کرتے ہیں اور ان پر چار لاکھ روپے کا قرضہ ہے
حسنہ بروہی کہتی ہیں ”ہمارا خاندان گذشتہ کئی سالوں سے گرمیوں کے دوران کوئٹہ نقل مکانی کرتا ہے، جہاں وہ نہ صرف شدید گرمی سے بچ جاتے ہیں بلکہ روزگار بھی مل جاتا ہے۔ لیکن یہ عارضی نقل مکانی بھی اتنی آسان نہیں۔ سامان اور بچوں کے ساتھ سفر کرنے کے لیے رقم چاہیے۔ نئی جگہ پر گھر کا کرایہ بہت زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ہم اپنی جھگی بناتے ہیں۔ جھگی بنانے کے لیے رقم کے ساتھ وقت چاہیے اور اس دوران کوئی کام بھی نہیں کیا جا سکتا“
حسنہ بتاتی ہیں ”ہم گذشتہ سال کوئٹہ گئے، میرے شوہر نے وہاں اینٹوں کے بھٹے پر چند روز کام کیا، لیکن پھر بارشیں ہو گئیں اور تین مہینوں تک بھٹہ بند ہو گیا۔ اس دوران ہم نے بھٹہ مالک سے ادھار لے کر گزارا کیا، بعد میں ہم قرض دار ہو کر واپس آئے۔ اس سال بھی ایسا ہوا تو مزید قرضہ بڑھے گا، اس لیے اس سال جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے“
حسنہ بروہی کا گھر 2010ع کے شدید سیلاب کے دوران مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا، جس کے بعد شدید گرمی سے ان کے خاندان کو کافی مشکلات اٹھانا پڑیں۔ 2022ع میں آنے والے سیلاب میں ان کے گھر کو ایک بار پھر نقصان پہنچا
انہوں نے بتایا ”شدید گرمی کے باجود سولر پینل یا بیٹری نہیں خرید سکتے، کیونکہ ان کی قیمت میں بہت ہی زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ مہنگائی انتہائی زیادہ ہو گئی ہے کہ بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے، جبکہ مزدور کی اجرت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا“
کمیونٹی ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے سربراہ جان محمد اوڈھانو اس حوالے سے کہتے ہیں ”ہم نے حال ہی میں ایک تحقیق کی، جس کے مطابق ضلع جیکب آباد کے دیہات کی چالیس سے پچاس فی صد آبادی موسم گرما کے دوران دیگر شہروں یعنی کوئٹہ، جامشورو، حیدرآباد اور کراچی چلی جاتی ہے۔ ان شہروں میں انہیں کام بھی جلدی مل جاتا ہے اور شدید گرمی سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ تین سے چھ مہینوں کی نقل مکانی کے بعد یہ لوگ واپس چلے آتے ہیں“
جیکب آباد کے ڈپٹی کمشنر محمد یوسف شیخ کے مطابق نہ صرف ضلع جیکب آباد بلکہ دیگر اضلاع کی طرف عارضی نقل مکانی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ضلع کے دیہات سے بڑے شہروں کی طرف مستقل نقل مکانی میں بھی بے پناہ اضافہ دیکھا گیا ہے
یوسف شیخ بتاتے ہیں ”گرمی کی شدت بڑھنے کے ساتھ دیہات میں بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث دیہی علاقوں سے لوگ نقل مکانی کر کے شہروں کی طرف آ رہے ہیں۔ کچھ عرصے قبل ضلع کی شہری آبادی کل آبادی کا 25 فیصد تک تھی، مگر اب یہ بڑھ کر 35 فیصد تک ہو گئی ہے“
ڈپٹی کمشنر جیکب آباد نے مزید بتایا ”تاریخی طور پر جیکب آباد سبی تک پچیس سے تیس لاکھ ایکڑ تک محیط تھا، مگر بعد میں ریوینو حد بندیوں کے بعد موجودہ جیکب آباد ضلع چھ لاکھ ایکڑ پر مشتمل ہے۔ عام طور پر صرف جیکب آباد ہی کو گرم سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ پورا ایک ریجن ہے، جو گرمی سے متاثر ہو رہا ہے“
انہوں نے کہا ”محکمہ موسمیات کی جانب سے 1997 سے 2022 کے درمیان اعداد و شمار کے مطابق جیکب آباد کے درجہ حرارت میں اوسطاً تین سے ساڑھے تین ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوا ہے۔ ماضی میں جیکب آباد کا اوسط درجہ حرارت 49 ڈگری سینٹی گریڈ سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ ہوا کرتا تھا، جس میں اب اضافہ ہوا ہے۔ 53 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی ریکارڈ کیا۔ گذشتہ سال جیکب آباد کو دنیا کا گرم ترین شہر بھی قرار دیا گیا“
جب ان سے پوچھا گیا کہ درجہ حرارت میں اضافے سے متعلق آگاہی کے لیے ضلعی حکومت نے پیشگی وارننگ سسٹم یا دیگر کیا انتظامات کیے ہیں؟ تو محمد یوسف شیخ نے بتایا ”ہم نے ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے ساتھ مل کر سوشل میڈیا پر ہیٹ ویو کی پیشگی معلومات دینے کے علاوہ سرکاری ہسپتالوں میں ہیٹ اسٹروک کے مخصوص وارڈز قائم کیے ہیں جبکہ مخصوص مقامات پر پینے کے پانی کے اسٹالز بھی لگائے جاتے ہیں۔“