سندھ کے صوبائی دارالحکومت اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جرائم کے خاتمے اور عوام کی مدد کے لیے قائم سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال مارچ کے مہینے میں شہر سے 188 گاڑیاں، 5057 موٹر سائیکلیں اور 2577 موبائل فون چرائے یا چھینے گیے ہیں۔ جبکہ صرف فروری کے مہینے میں کم از کم 49 افراد قتل ہوئے جس کے بعد 2023 کے صرف پہلے دو ماہ میں مارے جانے والوں کی تعداد 99 ہو گئی
شہر میں جہاں ایک طرف جرائم پیشہ افراد نے خونی وارداتوں سے خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے، وہیں خود ’عوام کے محافظ‘ محکمہ پولیس کے متعدد اہلکار بھی خطرناک جرائم میں براہ راست ملوث پائے گئے ہیں
کراچی پولیس کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق رواں سال کے ابتدائی ساڑھے تین ماہ میں سترہ پولیس اہلکاروں کے خلاف مختلف مقدمات درج کیے گیے ہیں اور اٹھارہ پولیس اہلکاروں کو غیرقانونی کاموں میں ملوث ہونے کی وجہ سے معطل کیا گیا ہے
ان پولیس اہلکاروں پر اغوا برائے تاوان، اختیارات کا غلط استعمال، علاقے میں جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی سمیت دیگر سنگین الزامات ہیں
کراچی پولیس کے ترجمان کے مطابق ’اعلیٰ حکام کی طرف سے واضح ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ جرائم میں کوئی بھی ملوث پایا جائے اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے اور شہر میں امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے یا کسی بھی جرم میں ملوث فرد کو برداشت نہ کیا جائے چاہے وہ کوئی بھی ہو۔‘
لیکن شہر میں امن و امان اور جرائم کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ہدایات محض خانہ پری ہیں اور مقدمات کے اندراج اور معطلیوں کے باوجود اب بھی کراچی میں پولیس کہیں نہ کہیں مجرموں کی سہولت کار ثابت ہو رہی ہے اور اس کے اہلکار بالواسطہ یا بلاواسطہ جرائم میں اضافے کا باعث ہیں
سینئر کرائم رپورٹر رجب علی نے اس معاملے کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ’حالیہ دنوں میں ’شارٹ ٹرم کڈنیپنگ‘ (مختصر مدت کے لیے اغوا برائے تاوان)، جھوٹے مقدمات کے ذریعے شہریوں سے پیسوں کی وصولی کے علاوہ اغوا اور ڈکیتی جیسے واقعات میں بھی پولیس اہلکاروں کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا جس کے بعد کئی اہلکاروں کو باقاعدہ گرفتار کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’کچھ دن قبل قائد آباد کے شہریوں کو سستے داموں کالے بچھو کی فروخت کا جھانسہ دیکر پولیس اہلکاروں نے نارتھ ناظم آباد میں شہریوں کو اغوا کرکے قید رکھا اور شہری کے اہلخانہ سے 5 لاکھ کا مطالبہ کیا، بعد ازاں اے وی سی سی نے کارروائی کرتے ہوئے شہریوں کو پولیس تھانے سے بازیاب کروایا اور دو برطرف اہلکاروں سمیت پانچ پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا۔‘
’اسی طرح نادرن بائی پاس کے قریب مال بردار گاڑی چھینے کے الزام میں دو پولیس اہلکاروں سمیت پانچ افراد گرفتار ہوئے تھے، جن کے قبضے سے گاڑی سمیت دیگر سامان برآمد ہوا تھا۔‘
رجب علی کا کہنا ہے کہ شہر میں مسلسل وارادتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور آئے روز شہری موبائل فون اور اپنے قیمتی سامان سے ہاتھ دھو بیٹھ رہے ہیں۔ ایسے میں پولیس اہلکاروں کا جرائم میں ملوث ہونے سے شہریوں کا ادارے سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے
یاد رہے رواں ماہ شاہ لطیف ٹاؤن تھانے پر چھاپہ مارنے پر زکریا گوٹھ سے اغوا کیے گئے دو نوجوان بازیاب کروائے گئے۔ تاوان کے لیے اغواء کی اس واردات میں تھانے کا ایس ایچ بھی ملوث تھا
پولیس اہلکاروں کے عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کی رپورٹنگ کرنے والے سینیئر کورٹ رپورٹر بلال احمد اس بات سے متفق ہیں کہ کراچی شہر میں ہونے والے کئی جرائم میں پولیس اہلکار براہ راست ملوث ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق معاملہ صرف یہی نہیں کہ پولیس والے خود جرائم کرتے ہیں بلکہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ گرفتاری کے بعد پولیس کا پراسیکیوشن کا شعبہ اپنے محکمانہ ساتھیوں کو سزا دلوانے میں پیش رفت سے اجتناب کرتا ہے
بلال احمد نے بتایا کہ ’عدالتوں میں کئی بار ایسے کیسز دیکھنے میں آئے، جن میں حاضر سروس اور برطرف پولیس اہلکاروں کو عدالتوں میں پیش کیا گیا ہے۔ اکثر تو ایسا ہوا ہے کہ پولیس اپنے بیٹی بند بھائی کو بچانے کے لیے ایسے راستے نکال لیتی ہے کہ جرم کرنے کے باوجود بھی ملزم کے خلاف کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں ہو پاتی۔‘
بلال احمد نے مزید کہا کہ یہ بات درست ہے کہ شہر میں جرائم کی کئی وارداتوں میں پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں اور کیس اب عدالتوں میں چل رہے ہیں لیکن یہ بات قابل فکر ہے کہ ان پولیس اہلکاروں کی وجہ سے پوری پولیس فورس کو ہی بدنامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے
کراچی یونیورسٹی کے کرمنالوجی ڈپارٹمنٹ کی لیکچرار ڈاکٹر نائمہ شہریار کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی جرائم میں ملوث ہونے کی روش اس محکمے کو عوام سے مزید دور کر رہی ہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کے اہلکاروں کا جرائم میں ملوث ہونا تشویشناک ہے۔ اس سے معاشرے میں مزید بگاڑ بڑھے گا
انہوں نے کہا ’اس صورتحال کا اعلیٰ پولیس افسران کو نوٹس لینا ہوگا اور جرائم میں ملوث کالی بھیڑوں پولیس فورس سے الگ کرنا ہوگا تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔ عوام پہلے ہی پولیس کے پاس جاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں، اور اگر ایسے واقعات تسلسل سے ہوں گے تو عوام پولیس سے مزید دور ہوگی۔‘