پشاور: موجودہ صنعتی علاقے کے قریب دو ہزار سال قدیم صنعتی علاقہ دریافت!

ویب ڈیسک

صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں حال ہی میں بیس کنال رقبے پر دریافت شدہ انڈسٹریل اسٹیٹ صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی کا شکار ہے، جبکہ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ آثار قدیمہ کے مطابق، فنڈز نہ ہونے کے باعث وہ بھی اس جگہ کو زیادہ دیر بچا نہیں پائیں گے

دو ہزار سال پرانے یہ آثار قدیمہ پشاور کے علاقے حیات آباد میں دریافت ہوئے ہیں، جو موجودہ انڈسٹریل ایریا کے ساتھ ملحقہ کئی کنال پر محیط ایک خالی پلاٹ ہے

یہ پلاٹ ایک چرچ کی ملکیت ہے، لہٰذا محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق اگر انتظامیہ کے ساتھ بروقت بات کر کے یہ جگہ نہ خریدی گئی اور اس کی مکمل رکھوالی نہ کی گئی تو پشاور ایک نادر اور تاریخی مقام سے محروم ہو جائے گا

اس حوالے سے پشاور یونیورسٹی میں شعبہ آثار قدیمہ کے پروفیسر نعیم قاضی کا کہنا ہے ”خیبر پختونخوا کی نگران حکومت نے تاحال اس ورثے کے حوالے سے دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے جبکہ ہمارے ڈپارٹمنٹ کے پاس بھی اتنے فنڈز نہیں ہیں کہ مزید کھدائی کرے یا پھر اس تاریخی مقام کی حفاظت اور رکھوالی کرے“

انہوں نے بتایا”آثار قدیمہ کا یہ علاقہ بیس کنال کے رقبے پر محیط ہےاور امکانات ہیں کہ ملبے تلے مزید آثار بھی مل جائیں“

پروفیسر نعیم قاضی نے کہا ”دراصل کچھ لوگوں کو متعلقہ جگہ سے قدیم زمانے کا سامان ملا تھا۔ انہوں نے وہ آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کو دکھایا، جس سے ہمیں معلوم ہوا کہ یہ کتنا پرانا ہے۔ اسی بنیاد پر آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کی دلچسپی پیدا ہوئی۔ لہٰذا لائسنس حاصل کر کے اور زمین کے مالک سے بات کر کے یہاں 2017ع میں کھدائی شروع کی گئی“

پروفیسر نعیم نے بتایا ”دوران کھدائی ہمیں کافی سکے اور موتی وغیرہ ملے، جس نے مزید کھدائی جاری رکھنے پر آمادہ رکھا“

ان کے مطابق ”ہمیں یہاں باقاعدہ ایک اسٹرکچر ملا ہے، جس میں کمرے، دیواریں اور گلیاں ہیں۔ لوہار کی بھٹی ملی ہے، لوہے کے پلیٹس ملی ہیں۔ یہ پورا ایک انڈسٹریل زون تھا، جس پر موجودہ انڈسٹریل زون بنا ہے۔ یہ ایک دلچسپ اتفاق ہے“

پروفیسر نعیم قاضی نے بتایا ”دو ہزار سال قبل مسیح اس سرزمین پر’انڈو گریک‘ قوم آباد تھی۔ سکندر اعظم کے بعد جو یونانی یہاں رہ گئے تھے ان کا آخری دور ہم ان آثار قدیمہ میں دیکھ سکتے ہیں“

پروفیسر کا کہنا ہے ”اس جگہ کی کھدائی 2020 تک جاری رہی اور اس دوران تقریباً چار مرتبہ کھدائی کی گئی، جو کہیں تین فٹ اور کہیں چھ فٹ گہرائی تک ہے“

ان کے مطابق اس سائٹ کی کھدائی اور مطالعے میں آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کے طلبہ کو بھی شامل کیا گیا، جنہوں نے عملی طور پر اساتذہ کے ساتھ مل کر سائٹ کا مشاہدہ اور مطالعہ کیا

انہوں نے بتایا ”یہ پشاور کی تاریخ میں ایک نیا باب ہے، جو اگر محفوظ کیا جائے تو خیبر پختونخوا کے ہیریٹیج ٹورازم کو کافی فروغ مل سکتا ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close