سندھ کے دارالحکومت اور پاکستان کے سب سے بڑے ساحلی شہر کراچی میں آن لائن اسلحے کی فروخت اور جعلی لائسنس بنانے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں اسلحے کے شوقین افراد ٹیکس ادا کیے بغیر مہنگے ہتھیار کم داموں پر خریدنے کے لیے اس کاروبار کا حصہ بن رہے ہیں
صوبہ سندھ کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے انٹیلیجنس ونگ کے سربراہ راجہ عمر خطاب نے نیوز ویب سائٹ ’اردو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ”ملک کے مختلف علاقوں میں اسلحہ بنانے کے کارخانوں کے مالکان کے رشتہ دار اور تعلق واسطے والے لوگ کراچی میں اسلحے کی دکانیں بنائے بیٹھے ہیں۔ یہ افراد ٹیکس اور ریکارڈ کے بغیر اسلحہ ایمونیشن کراچی لاتے ہیں“
راجہ عمر خطاب کا کہنا تھا ”یہ کاروبار کافی عرصے سے آن لائن جاری ہے اور ایک اندازے کے مطابق کراچی میں ہر ماہ بھاری تعداد میں مختلف نوعیت کا اسلحہ غیرقانونی طور پر پہنچایا جا رہا ہےاور لاکھوں کی تعداد میں مختلف بور کی گولیاں بھی بھیجی جا رہی ہیں“
انہوں نے کہا ”شہر میں غیرقانونی اسلحہ اسمگلنگ اور سپلائی کی اطلاعات پر ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی عمران یعقوب منہاس نے اس کی روک تھام کا ٹاسک سی ٹی ڈی کو دیتے ہوئے ایک سیل قائم کر کے شہر کے مختلف علاقوں میں غیرقانونی اسلحے کی ڈیلنگ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا“
راجہ عمر خطاب کے بقول ”سی ٹی ڈی کی ٹیم نے نومبر 2022 میں شہر کے مختلف علاقوں میں کارروائی کر کے ایک گروہ کے کارندوں کو گرفتار کیا، جو غیرقانونی طریقے سے اسلحہ پشاور، درہ آدم خیل اور ڈی آئی خان سمیت مختلف علاقوں سے لا کر کراچی میں فروخت کیا کرتے تھے۔ یہ کارروائی کراچی کے علاقے یونیورسٹی روڈ، کشمیر روڈ، بنارس اور سائٹ ایریا میں کی گئی اور چار افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان کے قبضے سے اٹھارہ غیرقانونی پستول و دیگر اسلحہ، میگزین اور بھاری تعداد میں گولیاں برآمد کی گئیں“
راجہ عمر خطاب کے مطابق ”دورانِ تفتیش ملزم عظمت اللہ نے انکشاف کیا کہ ملزمان اسلحے کی فروخت آن لائن کیا کرتے تھے۔ ملزمان نے واٹس ایپ اور فیسبک پر گروپ بنا رکھے تھے، جن میں اسلحے کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی تھیں اور خریدار کی مرضی کے مطابق اسلحہ انہیں فراہم کرتے تھے“
اسلحہ آن لائن فروخت کرنے کے طریقہِ کار کے بارے میں گرفتار ملزم عظمت اللہ اور بشیر خان نے پولیس کو بتایا کہ اس کا ایک آسان طریقہ ہے۔ پشاور، درہ آدم خیل اور ڈی آئی خان سمیت مختلف علاقوں میں اسلحے کے ڈیلرز اپنے پاس موجود 30 بور، 32 بور نائین ایم ایم اور ایم پی پائیو سمیت دیگر اسلحے کی تصاویر اور وڈیوز پیج پر اَپ لوڈ کرتے ہیں اور اسلحے کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتے ہیں، جنہیں گروپ ممبرز کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں دیکھتے ہیں اور اپنی پسند کے اسلحے کا آرڈر کرتے ہیں
راجہ عمر خطاب کے مطابق ”ملزمان جدید طریقے سے غیرقانونی اسلحے کا آرڈر حاصل کرکے خریدار تک پہنچایا کرتے تھے۔ درہ آدم خیل کے چھ اسلحہ ڈیلرز اور ڈی آئی خان کے ایک اسلحہ ڈیلر سمیت اب تک کی تفتیش میں سات ڈیلرز کے نام سامنے آئے ہیں، جو اس کام میں ملوث ہیں“
رقم کی ادائیگی کے طریقے پر بات کرتے ہوئے راجہ عمر خطاب نے بتایا کہ سوشل میڈیا کے گروپس میں اسلحے کی نمائش کے بعد جو لوگ اسے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں، انہیں واٹس ایپ گروپ میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ اس گروپ میں اسلحے کی قیمت طے کی جاتی ہے۔ جوڑ توڑ کے بعد جو بھی قیمت طے ہوجاتی ہے اس کا 50 فیصد حصہ ایزی پیسہ، جاز کیش یا آن لائن ٹرانسفر کیا جاتا ہے اور بقیہ رقم ڈیلیوری کے وقت وصول کی جاتی ہے
اسلحے کی ڈیلیوری کے طریقہِ کار کے حوالے سے سی ٹی ڈی سندھ انٹیلیجنس ونگ کے سربراہ کا کہنا تھا ”یہ تمام کام اسلحہ ڈیلرز انتہائی منظم طریقے سے کر رہے ہیں۔ جب خریداری کے تمام معاملات طے کر لیے جاتے ہیں تو غیرقانونی اسلحہ ڈیلرز اپنے ایجنٹ کے ذریعے یہ اسلحہ سڑک کے راستے کراچی بھیجتے ہیں۔ ان میں بیش تر ایجنٹ بس کے ذریعے یہ غیرقانونی اسلحہ کراچی سمیت ملک کے کسی بھی حصے میں لاتے ہیں۔ ایجنٹ کو خریدار کا نمبر دے کر بھیجا جاتا ہے۔ ایجنٹ مذکورہ نمبر پر رابطہ کر کے خریدار کو اسلحے کی ڈیلیوری دیتا ہے اور باقی کی رقم وصول کرتا ہے۔ اس کام کے ایجنٹ کو دس ہزار روپے ادا کیے جاتے ہیں“
اس سارے معاملے کا ایک اہم پہلو غیرقانونی اسلحے کے ساتھ جعلی لائسنس کا دھندہ بھی ہے۔ راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے ”غیرقانونی اسلحہ ڈیلرز جعلی اسلحہ لائسنس بنانے میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ اس کام کی الگ سے رقم وصول کی جاتی ہے۔ لائسنس بنانے سے قبل مذکورہ شخص کے فنگر پرنٹس، دستخط، تصویر اور شناختی کارڈ بذریعہ واٹس ایپ منگوائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد انتہائی مہارت سے وفاقی وزارتِ داخلہ سے جاری کردہ لائسنس کی طرح بنا کر واٹس ایپ کے ذریعے اس کی تصویر مذکورہ شخص کو ارسال کر دی جاتی ہے۔ جس کے اوپر کیو آر کوڈ لگا ہوتا ہے جسے چیک کرنے پر لائسنس بنوانے والے کی تفصیلات موجود ہوتی ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ اسلحہ لائسنس اصلی ہے جبکہ وہ لائسنس جعلی ہوتا ہے“
قانونی طریقے سے اسلحہ کیسے خریدا جاتا ہے؟ اس بارے میں کراچی کے علاقے صدر کے ایک اسلحہ ڈیلر کاشف علی کا کہنا ہے ”شہر میں قانونی طریقے سے اسلحہ کا کاروبار کیا جاتا ہے لیکن یہ کہنا کہ غیرقانونی طور اسلحہ فروخت نہیں ہو رہا، یہ درست نہیں ہوگا“
انہوں نے کہا ”عام طور پر تھوڑے سے پیسے بچانے کے چکر میں لوگ غیرقانونی اسلحہ خریدنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے لیے پریشانی پیدا کرتے ہیں“
کاشف علی کے بقول ”اب تو اسلحہ لائسنس بنانا بھی آسان ہو گیا ہے۔ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے پاس پچاس لائسنس دینے کا ہر مہینے کا کوٹہ ہے۔ ڈی سی سے منظوری، پولیس ویریفیکشن کے بعد بائیو میٹرک ہوتا ہے اور اس کے بعد بآسانی اسلحہ لائسنس بنایا جا سکتا ہے“
کاشف کے مطابق ”ضروری نہیں کہ لاکھوں روپے مالیت کا ہی اسلحہ خریدا جائے، تیس سے اَسی ہزار روپے تک میں بھی اچھا 30 بور اور 32 بور کا پستول مل جاتا ہے۔ جو دیکھنے میں خوبصورت اور چلنے میں معیاری بھی ہوتا ہے
قانونی اسلحے کی خریداری کے حوالے سے راجہ عمر خطاب کہتے ہیں ”حکومتِ سندھ کے قانون کے تحت جو بھی ڈیلر اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ اس اسلحہ سے چلے ہوئے دو عدد خول ایف ایس ایل میں جمع کرانے کا قانونی پابند ہے۔“